اسرائیل-حماس جنگ پر اپنی پہلی پوسٹ میں، اوبامہ نے نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں غزہ میں وسیع پیمانے پر بھوک اور بچوں میں غذائی قلت کو نمایاں کیا گیا تھا۔
EPAPER
Updated: July 28, 2025, 10:02 PM IST | Washington
اسرائیل-حماس جنگ پر اپنی پہلی پوسٹ میں، اوبامہ نے نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں غزہ میں وسیع پیمانے پر بھوک اور بچوں میں غذائی قلت کو نمایاں کیا گیا تھا۔
سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے غزہ میں جاری تنازع پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے محصور علاقے میں بدتر ہوتے انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ”معصوم لوگوں کے بھوک سے مرنے“ کو روکنے کیلئے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیل-حماس جنگ پر اپنی پہلی پوسٹ میں، اوبامہ نے نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں غزہ میں وسیع پیمانے پر بھوک اور بچوں میں غذائی قلت کو نمایاں کیا گیا تھا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ”شہریوں کو خوراک اور پانی کے بغیر رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ انسانی امداد کو ”محصور آبادی تک پہنچانے کی اجازت ہونی چاہئے۔“
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل غزہ کیلئے انسانی امدادکی بڑی مقدار کوتباہ کرچکا ہے
غزہ میں سنگین بھکمری: عالمی ادارہ صحت کی وارننگ
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے حال ہی میں غزہ میں غذائی قلت کی ”تشویشناک سطح“ کی اطلاع دی اور اس سال بھوک سے متعلقہ وجوہات کی بنا پر ۷۴ اموات کا حوالہ دیا۔ ان اموات میں سے ۶۳ صرف رواں ماہ جولائی میں ہوئی ہیں۔ متاثرین میں ۲۴ بچے، ۵ سال سے کم عمر کے تھے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، غزہ میں اب ہر پانچ میں سے تقریباً ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ کچھ علاقوں میں، خاص طور پر غزہ شہر میں، شدید غذائی قلت کا شکار ۴ سے ۶ سال کی عمر کے بچوں کی تعداد جون کے بعد سے تین گنا بڑھ گئی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غزہ قحط کے دہانے پر ہے اور اسرائیل کی انسانی امداد تک رسائی پر پابندیوں نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا غزہ پرحملوں میں یومیہ ۱۰؍ گھنٹے توقف کا فیصلہ
اسرائیل نے ”ٹیکٹیکل وقفہ“ کا اعلان کیا
بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے جواب میں، اسرائیل نے غزہ پٹی کے تین گنجان آباد علاقوں، غزہ شہر، دیر البلاح اور مواسی میں فوجی کارروائیوں میں روزانہ صبح ۱۰ بجے سے رات ۸ بجے تک محدود وقفہ کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے بتایا کہ یہ نام نہاد ”ٹیکٹیکل وقفہ“ امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کرنے کیلئے ہے۔ تاہم، دیگر علاقوں میں فضائی حملے جاری ہیں، حالیہ حملوں میں کئی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے صورتحال کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم جو بھی راستہ اختیار کریں، ہمیں کم سے کم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سامان کے داخلے کی اجازت جاری رکھنی ہوگی۔“
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل مغربی کنارے کے۸۴؍ فیصد آبی وسائل پر قابض، فلسطینی بحران کا شکار
امدادی کوششیں جاری
غزہ کی آبادی کیلئے امدادی کوششوں کو بڑھانے کیلئے اقدامات جاری ہیں۔ اردن اور متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں غزہ میں ۲۵ ٹن خوراک اور ضروری سامان پہنچانے کیلئے فضائی راستے سے امداد کی فراہمی کو مربوط کیا۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے اسرائیلی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے نوٹ کیا کہ اب اس کے پاس غزہ کی آبادی کو تقریبا تین ماہ تک کھلانے کیلئے کافی خوراک کے ذخائر موجود ہیں۔ تاہم، اس نے خبردار کیا کہ صرف مکمل جنگ بندی ہی محفوظ اور مستقل امداد کی تقسیم کو یقینی بنائے گی۔
ڈبلیو ایف پی نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ غزہ میں ۵ لاکھ سے زیادہ لوگ قحط جیسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں بیشتر افراد نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش نے اس سلسلے میں بین الاقوامی تنظیموں سے فوری کارروائی کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ جنگ بندی کچھ بھی نہیں ہوگی اگر یہ جان بچانے کا ایک حقیقی موقع نہ بنے۔ ہر تاخیر کا اندازہ ایک اور جنازے سے لگایا جاتا ہے۔“
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ کے ۲۲۱؍ اراکین پارلیمان کا حکومت سے فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ
دریں اثنا، جنگ بندی مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، اسرائیل اور امریکہ نے قطر میں مذاکرات سے اپنے وفود کو واپس بلالیا ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ جنگ کو تب ہی ختم کرے گا جب حماس ہتھیار ڈال دے۔ یہ ایسی شرط ہے جسے حماس نے مسترد کردیا ہے۔