یہ سب ڈھونگ اور بدتمیزی کیوں ؟ کرکٹ میچ کھیلا جائے گا، پیسہ بنایا جائے گا، لیکن ہاتھ نہیں ملائیں گے؟ اگر اتنا ہی غصہ اور نفرت سچ میں پاکستان سے ہے تو پھر بھارت کی راشٹروادی سرکار نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے کی اجازت کیوں دی؟
EPAPER
Updated: September 25, 2025, 2:57 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
یہ سب ڈھونگ اور بدتمیزی کیوں ؟ کرکٹ میچ کھیلا جائے گا، پیسہ بنایا جائے گا، لیکن ہاتھ نہیں ملائیں گے؟ اگر اتنا ہی غصہ اور نفرت سچ میں پاکستان سے ہے تو پھر بھارت کی راشٹروادی سرکار نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے کی اجازت کیوں دی؟
سوشل میڈیا پر اس ہفتے بھی بہت کچھ موضوع بحث رہا۔ ان میں پہلا موضوع ہندپاک میچ ہے۔ اس پر خوب ہنگامہ آرائی رہی۔ ایک بڑا طبقہ مصر تھا کہ پاکستان کے ساتھ میچ نہ کھیلا جائے۔ ٹی وی میڈیا کے نام نہاد نیشنلسٹ حلقے نے تو آسمان سر پر اٹھالیا تھا۔ ارنب گوسوامی نے گنگولی، سچن اور دراوڑ کو کٹہرے میں ایسے کھڑے کردیا جیسے یہی لوگ بی سی سی آئی کے کرتا دھرتا ہوں۔ انوراگ ٹھاکر کے ساتھ برسراقتدار پارٹی کے دیگر نیتاؤں نے جواز پیش کیا کہ ہم نہ کھیلے تو پاکستان کو مفت کے دو پوائنٹ مل جائیں گے۔ کچھ نے آئی سی سی قوانین و شرائط کا جواز دیا۔ خیر میچ ہوا اور ٹیم انڈیا نے پاکستان کو دھول چٹادی، لیکن اصل صدمہ پاکستان کو یہ ملا کہ ٹیم انڈیا نے میچ کے اختتام پر روایتی مصافحہ سے اجتناب کیا۔ اس پر بہتیروں نے ٹیم انڈیا کی پزیرائی کی تو بہتیروں نے سوال قائم کیا۔ انوراگ پی ریکھی نے لکھا کہ ’’پریس کانفرنس میں ہاتھ ملایا تو انڈیا میں مسئلہ کہ ہاتھ کیوں ملایا؟ میچ میں نہ ملایا تو پاکستان میں پرابلم؟ اصل مسئلہ یہ تھا کہ میچ کیوں کھیلا۔ لیکن ہاتھ کی صفائی دیکھئے کہ اس نے ٹرمپ کی طرح آکر کریڈٹ لے لیا۔ ‘‘ شرد شرما نے این ڈی ٹی وی انڈیا کی خبر’’ جیت کے بعد بھی نو ہینڈشیک، سوریہ کمار نے دیا پاکستان کو کڑا سندیش۔ ‘‘ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ یہ سب ڈھونگ اور بدتمیزی کیوں ؟ کرکٹ میچ کھیلا جائے گا، پیسہ بنایا جائے گا، لیکن ہاتھ نہیں ملائیں گے؟ اگر اتنا ہی غصہ اور نفرت سچ میں پاکستان سے ہے تو پھر بھارت کی راشٹروادی سرکار نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے کی اجازت کیوں دی؟ میرا ماننا ہے یا تو کھیلو مت اور اگر کھیل رہے تو پھر یہ سب ڈراما مت کرو....‘‘ اے ڈی نامی صارف نے لکھا کہ’’ انڈیا پاکستان میچ کا اصل سوال، کیوں کھیلا؟ لیکن ہمارے پترکار بولے ہینڈشیک مِس، ماسٹر اسٹروک...‘‘
کرکٹ کی بات چل رہی ہے تو یہ خبر آپ تک پہنچی ہی ہوگی کہ اپولو ٹائرس کو ٹیم انڈیا کی جرسی کی اسپانسر شپ مل گئی ہے۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے پرمزاح تبصرے کئے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پچھلے کچھ اسپانسرز( سہارا، بائیجوز اور ڈریم الیون) دیوالیہ یا مشکلات کا شکار ہوئے ہیں۔ اسی تناظر میں راپچک راجا بابو نے ایک میم شیئر کیا جس میں ناسا کی ٹیم مسرت کا اظہار کررہی ہے۔ راپچک راجا بابو نے لکھا کہ ’’اپولو ٹائرز ٹیم انڈیا کی جرسی کو اسپانسر کرے گی۔ یہ خبر ایم آر ایف کے ہیڈکوارٹرز پر پہنچ گئی۔ ‘‘مشہور میم اکاؤنٹ زیویئر انکل نے مرزا پور ویب سیریز کا مشہور مکالمہ ترمیم کیساتھ شیئر کیا جس میں سہارا، بائیجوز کہہ رہے ہیں، ہم بھی پیٹے گئے تھے، اب تم بھی پیٹے جاؤ گے۔ ‘‘ رمیش سری وتس نے لکھا کہ’’اب اپولو ٹائرز ٹیم انڈیا کی جرسی اسپانسر بنی ہے۔ انہیں اپنی ٹیگ لائن بدل کر یہ کردینی چاہئے کہ اپولو ٹائرز، وہاں چلے جہاں دوسرے کاروبار سے ڈرے۔ ‘‘
کاروبار سے یاد آیا کہ ایپل نے نیا فون لانچ کردیا ہے۔ حسب معمول ہمارے یہاں اس کے حصول کیلئے لوٹ مچی ہے۔ روشن رائے نے نیپال کے تختہ پلٹ معاملے کے تناظر میں تبصرہ کیا کہ ’’نئی نسل (جین زی) ہندوستان میں بھی سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ لیکن حکومت(کی پالیسیوں ) کیخلاف نہیں بلکہ آئی فون۱۷؍ کیلئے ارنو شرما نے لکھا کہ’’ ان کی ترجیحات کی فہرست میں جمہوریت سب سے آخر میں آتی ہے۔ ‘‘ ملند کھانڈیکر نے لکھا کہ’’ہندوستان میں تین ہندوستان بستے ہیں۔ پہلا :۱۴؍کروڑ لوگ، فی کس آمدنی ۱۲؍ لاکھ سالانہ، آئی فون خرید سکتا ہے۔ دوسرا:۳۰؍ کروڑ لوگ، فی کس آمدنی ڈھائی لاکھ سالانہ، آئی فون خریدنے کے دائرے سے باہر۔ تیسرا: سو کروڑ لوگ، فی کس آمدنی ۵۰؍ ہزار روپے سالانہ، مفت راشن پر منحصر۔ ‘‘ ہنس راج مینا نے تبصرہ کیا کہ’’ہندوستان میں جب بھی نیا آئی فون لانچ ہوتا ہے تو جین زی دکانوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگاتے ہیں، جیسے کہ یہ کوئی انقلاب ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موبائل خریدنا انقلاب نہیں بلکہ صارفیت کا حصہ ہے۔ اصل انقلاب تب ہوگا جب یہی بھیڑ تعلیم، صحت، بے روزگاری، مہنگائی اور بدعنوانی جیسے مسائل پر کھڑی ہوگی۔ ملک اور سماج کیلئے کھڑا ہونا اصل ہمت کا متقاضی ہے اور یہی آج کی سب سے بڑی کمی ہے۔ ‘‘
بیداری سے یاد دلادیں کہ راہل گاندھی نے اپنی ’’ ووٹ چوری مہم ‘‘ کے تحت اب ووٹر لسٹ سے ناموں کے پراسرار اخراج پر سوالات قائم کئے ہیں۔ دبنگ یوگی نامی صارف نے اس پر ایکس پوسٹ میں لکھا کہ’’ الیکشن کمیشن کھلم کھلا جھوٹ بول رہا ہے۔ ۲۰۱۹ء: آن لائن فارم۷؍ بھر کے نام کٹوائے جا سکتے ہیں۔ ۲۰۲۵ء: آن لائن نام کٹوائے نہیں جا سکتے۔ الیکشن کمیشن کو یہ جھوٹ اسلئے بولنا پڑ رہا ہے کیونکہ راہل گاندھی نے ان کی ووٹ چوری پکڑ لی ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر مونیکا سنگھ نے لکھا کہ’’ چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے راہل کی پریس کانفرنس کو لگ بھگ گیارہ کروڑ لوگ سے زیادہ دیکھ چکے ہیں۔ یہ پی سی پچھلے سارے ریکار توڑنے والی ہے۔ روہنی سنگھ نے لکھا کہ ’’چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کو فوراً مستعفی ہوجانا چاہئے۔ ‘‘ اس پر وویک پلاوت نے گیانیش کمار کے ہی مشہور ہونے والے جملے سے سوال پوچھا کہ’’ گیانیش کمار کو اپنا استعفیٰ ساجھا کرنا چاہئے کیا؟‘‘
چلئے ایک خبر ہم ساجھا کردیتے ہیں جس پر نیٹیزنس کو بڑا غصہ آیا۔ ہوا یہ کہ آئی ٹی ریٹرن داخل کرنے کے آخری دن انکم ٹیکس محکمے کی ویب سائٹ کریش کرگئی۔ آکانشا گپتا نے لکھا کہ’’میرے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے بتایا کہ وہ پچھلے تین دن سے گھر نہیں گئے اور اپنے دفتر میں بغیر سوئے کام کر رہے ہیں، کیونکہ ایک آئی ٹی کمپنی نے، جس نے ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے لئے تھے انکم ٹیکس پورٹل بنانے کیلئے اتنا ناقص کام کیا کہ ویب سائٹ ہر گھنٹے کریش ہو جاتی ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ ہم ٹیکس اس پورٹل کو فنڈ کرنے کیلئے دیتے ہیں جو ٹیکس ادا کرتے وقت کام ہی نہیں کرتا۔ ‘‘ چارٹسٹ آر جے نے لکھا کہ’’ محترم انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ، یہ حیران کُن ہے کہ کھربوں روپے ٹیکس ریونیو جمع کرنے کے باوجود آپ ٹھیک سے چلنے والی ویب سائٹ چلانے میں ناکام ہیں۔ ہر سال ٹیکس دہندگان کو یہی بھیانک خواب سہنا پڑتا ہے۔ سست سرورز، لاگ اِن کی ناکامی، بار بار کریش ہونا اور پھر بھی کوئی ٹھوس حل نہیں۔ اگر اتنا بڑا ادارہ بنیادی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو یقینی نہیں بنا سکتا تو آپ ایماندار ٹیکس دہندگان سے اعتماد کی توقع کیسے رکھتے ہیں ؟‘‘