• Fri, 26 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اپوزیشن کی جماعتیں بی جے پی کو اقتدارسے بے دخل کرنے کیلئے سنجیدہ کیوں نہیں ہیں ؟

Updated: September 25, 2025, 3:03 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

بہار الیکشن بالکل سر پر ہے، اس کے بعد مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو اور کیرالا میں بھی انتخابات ہیں۔ بہار، بنگال اور آسام میں اتحاد کے بغیر بی جے پی کو شکست دینا آسان نہیں ہے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی اہم پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

If the opposition parties unite and fight the elections honestly in Bihar, victory can be assured. Photo: INN
بہار میں اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر ایمانداری سے الیکشن لڑیں تو جیت یقینی ہوسکتی ہے۔ تصویر: آئی این این

ایک قدیم ہندوستانی کہانی ہے۔ ایک آدمی اپنی غربت اور دیگر پریشانیوں سے تنگ آکر اپنی جھوپڑی چھوڑ دیتا ہے اور ایک پہاڑی پر جاکر ایک غار میں پناہ لے لیتا ہے۔ اس کی دن رات کی عبادت و ریاضت بالآخر رنگ لاتی ہے۔ ایک دن عبادت سے فارغ ہوتا ہے تو اسے ایک آواز سنائی دیتی ہے کہ ’’ میں تم سے بہت خوش ہوں، تمہیں تین مواقع دیتا ہوں، جو مانگنا ہو، مانگ لو‘‘... وہ من ہی من میں فہرست بنانے لگتا ہے۔ ایک اچھا سا گھر مانگ لوں، ڈھیر ساری دولت کی فرمائش کردوں اور ایک خوبصورت و سمجھدار لڑکی سے شادی کی بات کرلوں۔ اس سے قبل کہ وہ اپنی فہرست پیش کرتا، اسے وہی آواز دوبارہ سنائی دیتی ہےکہ’’کچھ مانگنے سے قبل اس بات کا خیال رکھنا کہ جو کچھ تمہیں ملے گا، اس کا دُگنا تمہارے پڑوسی کو ملے گا۔ ‘‘ اتنا سنتے ہی اس کی ساری خوشیاں کافور ہوگئیں۔ طمانیت کی جگہ تفکر نے لے لی۔ اسے خود کچھ ملنے کی نوید سے جو مسرت ہوئی تھی، اس پر پڑوسی کو ملنے والی عنایت نے پانی پھیر دیا تھا۔ وہ سوچنے لگاکہ اگر میں اپنے لئے ایک اچھاساگھر مانگتا ہوں تو میرے پڑوسی کو میری طرح ۲؍ گھر مل جائیں گے۔ اگر میں ایک خوبصورت بیوی کی بات کرتا ہوں تو اسے دو بیویاں مل جائیں گی۔ کچھ دیر تک غورو فکر کرنے کے بعد اس نے اپنے مطالبات کی فہرست پیش کردی۔ 
۱) میری ایک آنکھ کی بینائی چھین لی جائے۔ 
۲)مجھے ایک پیر سےلنگڑا کردیا جائے۔ 
۳) میری جھوپڑی کو نذر آتش کردیا جائے۔ 
آج ملک میں اپوزیشن پارٹیوں کی حرکتوں کو دیکھ کر بار بار وہ کہانی یاد آتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں سے ہر الیکشن میں عوام یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ آپ متحد ہو کر بی جے پی سے دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کریں تو ہم تمہیں اور تمہاری اتحادی پارٹیوں کو نواز دیں گے، لیکن افسوس کہ ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اپوزیشن کی بیشترجماعتیں اپنا بھلا تو چاہتی ہیں لیکن انہیں یہ گوارہ نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ ان کی حلیف جماعتوں کو بھی فائدہ پہنچے۔ نتیجے میں وہ اپنا ہی نقصان کربیٹھتی ہیں۔ 
 لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی ہم نے دیکھا کہ جہاں جہاں اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہوکر بی جے پی سے مقابلہ کیا، وہاں زبردست کامیابی حاصل کی۔ یوپی میں سماجوادی اور کانگریس اتحاد نے بی جے پی کو چاروں شانے چت کردیا تھا۔ اسی طرح تمل ناڈو میں بھی ڈی ایم کے اور کانگریس نے زعفرانی محاذ کو دھول چٹا دی تھی۔ مہاراشٹر کا منظرنامہ بھی کچھ ایساہی تھا۔ اس کے برعکس ان ریاستوں میں جہاں اپوزیشن کی جماعتیں آپس ہی میں متصادم رہیں یا بظاہر مل کر تو الیکشن لڑیں لیکن اس سوچ کے ساتھ کہ ’پڑوسی‘ کو کوئی فائدہ نہ ہونے پائے، خواہ انہیں نقصان برداشت کرنا پڑے، وہاں خسارہ ہوا۔ اس قسم کی ریاستوں میں بہار، دہلی اور بنگال کا نام لیا جاسکتا ہے۔ مغربی بنگال میں بھلے ہی ترنمول کانگریس کو۴۲؍ میں سے ۲۹؍ سیٹیں مل گئیں لیکن اگر وہاں پر کانگریس، بائیں بازو کی جماعتیں اور ترنمول کانگریس مل کر الیکشن لڑی ہوتیں تو بی جے پی کو جو ۱۲؍ سیٹیں ملی ہیں، وہ نہیں مل پاتیں۔ 
بہار میں اسمبلی انتخابات بالکل سر پر ہیں۔ اس کے بعد آئندہ سال مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو اور کیرالا میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ سیاست کی ابجد سے بھی واقف یعنی ایک عام آدمی بھی یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ بہار، مغربی بنگال اور آسام میں اتحاد کے بغیر بی جے پی کو شکست دینا آسان نہیں ہے لیکن افسوس کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس بات کو محسوس نہیں کرتیں۔ ایک جانب جہاں بی جے پی کی قیادت میں ’این ڈی اے‘ اتحاد پوری طرح سے سرگرم دکھائی دے رہا ہے، انڈیا اتحاد کے خیمے میں ابھی تک اس سلسلے میں کوئی اہم پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔ 
ابھی دو دن قبل بہار میں سیٹوں کی تقسیم کے موضوع پر ’این ڈی اے‘ کی جانب سے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ خبروں کے مطابق ۱۸؍ ستمبر کو امیت شاہ نے بہار دورے کے موقع پر نتیش کمار سے ملاقات کی تھی جس میں سیٹوں کی تقسیم کا معاملہ تقریباً حل کرلیا گیا ہے۔ کہا جاتاہے کہ نتیش کمار نے صرف ایک ہی شرط رکھی تھی کہ بی جےپی سے اس کی سیٹوں کی تعداد ایک زیادہ ہونی چاہئے جسے امیت شاہ نے تسلیم کرلیا ہے۔ اس کے مطابق ۲۴۳؍ سیٹوں میں سے جے ڈی یو ۱۰۲؍ اور بی جے پی ۱۰۱؍نشستوں پر الیکشن لڑیں گی جبکہ باقی ماندہ سیٹیں دیگر اتحادیوں کیلئے چھوڑ دی گئی ہیں۔ اس کے برعکس عظیم اتحاد میں شامل جماعتیں آر جے ڈی، کانگریس، بایاں محاذ اور دیگر جماعتیں ابھی تک صرف بیان بازیاں کررہی ہیں اور یہ بیان بازیاں بھی منفی نوعیت کی ہیں۔ این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کی سنجیدگی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی اتحاد میں شامل مکیش سہنی کی پارٹی کو ۱ء۵۲؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ۴؍ سیٹیں ملی تھیں۔ وہ اس بار ’انڈیا‘ کے ساتھ ہے لیکن بی جے پی اسے اپنے پالے میں کرنے کیلئے بے چین دکھائی دے رہی ہے۔ 
 ایک طرف جہاں بی جےپی اتحاد ایک ایک ووٹ کی فکر کر رہا ہے۔ وہیں دوسری جانب عظیم اتحاد اس تعلق سےبے فکر دکھائی دے رہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت ایم آئی ایم کی پیشکش پر اُس کی سردمہری ہے۔ اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑنے والی ایم آئی ایم (بی ایس پی سے اس کا سمجھوتا ضرور تھا لیکن بہار میں بی ایس پی کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے، یہ سبھی جانتے ہیں ) کو گزشتہ انتخابات میں ۱ء۲۴؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۵؍سیٹیں ملی تھیں۔ اس بار وہ ’ عظیم اتحاد‘ کےساتھ الیکشن لڑنے کی پیشکش کررہی ہے لیکن اسے ٹھکرایا جارہا ہے۔ 
یہ صورتحال اُس وقت ہے جبکہ گزشتہ انتخابات میں محض کچھ سیٹوں کے اِدھر ادھر ہوجانے سے عظیم اتحادکو حکومت بنانے کا موقع نہیں مل سکاتھا۔ ۲۰۲۰ء میں ۳۷ء۲۶؍ فیصد ووٹوں کی بدولت این ڈی اے کو۱۲۵؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ ۳۷ء۲۳؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ عظیم اتحاد کو ۱۱۰؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ دونوں اتحاد کے درمیان محض ۱۱؍ ہزار ۱۵۰؍ ووٹوں کا فرق تھا۔ ان حالات میں انہیں ایک ایک ووٹ کی فکر کرنی چاہئے لیکن ایسا ہوتا ہوا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ آر جے ڈی اور کانگریس دونوں ہی بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا دعویٰ کررہی ہیں لیکن لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی دیکھا گیا کہ کئی سیٹیں آپسی انتشار، انا اورضد کے سبب ہی انہیں گنوانی پڑیں۔ محض ضد کی وجہ سے آر جے ڈی نے بیگوسرائے اور پورنیہ کی سیٹ کو کانگریس سے چھیننے کی کوشش کی اور اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔ کانگریس میں بھی سنجیدگی کا فقدان ہے۔ اسمبلی انتخابات کیلئے امیدواروں کے انتخاب پر ۲۰؍ ستمبر کو کانگریس کے سینئر لیڈروں نےایک میٹنگ کی لیکن اس کا نتیجہ ڈھاک کے تین پات جیسا برآمد ہوا۔ حیرت انگیز طورپر بہار کے ’اہم‘ لیڈروں نے اس میں شرکت ہی نہیں کی۔ حالانکہ سچائی یہ بھی ہے کہ سیٹوں کی تقسیم سے قبل امیدواروں کا ’انتخاب‘ بے معنی ہے۔ 
ابھی بھی کچھ بگڑا نہیں ہے۔ اگر یہ متحد ہوکر عوام کے سامنے آتی ہیں تو یقیناً انہیں فائدہ ہوگا لیکن انہیں اس بات کو نظرانداز کرنا ہوگا کہ ان کی وجہ سے ان کے پڑوسی کو کیا ملتا ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK