سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کالج کی ڈِگری اور پھر خالص فنِ تدریس پر محیط بی ایڈ ڈِگری کے بعد بھی مزید کسی اہلیتی امتحان کی واقعی ضرورت ہے؟
EPAPER
Updated: September 25, 2025, 2:59 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کالج کی ڈِگری اور پھر خالص فنِ تدریس پر محیط بی ایڈ ڈِگری کے بعد بھی مزید کسی اہلیتی امتحان کی واقعی ضرورت ہے؟
حال ہی میں مُلک کی عدالت عظمیٰ نے تعلیمی نظام کیلئے ایک بڑا فیصلہ سُنادیا جس سے مُلک بھر کے تعلیمی اِداروں میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’مُلک بھر کے سارے اساتذہ کیلئے ایک اہلیتی امتحان (ٹی ای ٹی) پاس کرنا ہوگا ورنہ سارے اساتذہ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ ‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کالج کی ڈِگری اور پھر خالص فنِ تدریس پر محیط بی ایڈ ڈِگری کے بعد بھی مزید کسی اہلیتی امتحان کی واقعی ضرورت ہے؟آئیے اس کو سمجھنے کیلئے تعلیمی مسدّس کے تین اضلاع اساتذہ، انتظامیہ اور حکومت کی حالیہ کیفیت کا بھرپور جائزہ لیں :
اساتذہ:
یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے بہت ہی اچھے اساتذہ نصیب ہوئے۔ کتنے اچھے؟ اُس کیلئے میرے پاس نہ اُس وقت کوئی پیمانہ تھا اور نہ اب ہے۔ اُن کی اچھائیوں کا کوئی قرض ہم نے ادانہیں کیا البتہ اُنھیں اپنی ہر دُعا میں یاد کرتے ہیں اور خوش قسمتی یہ ہے کہ میرے پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر حیات ہیں اور ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی! بے شک اللہ نے اُنھیں اتنی طویل عمر عطا کی البتہ ایک سبب یہ بھی ہوگا کہ اُن کے طلبہ اُن اساتذہ کی طویل اور تندرستی والی زندگی کیلئے دعا کر رہے ہیں۔ اُس کے بعد کالج اور یونیورسٹی کے چند اساتذہ کی یادیں بھی ذہن پر ثبت ہیں۔ اس کے بعد جب ۱۹۸۳ء میں اپنے گائوں میں ایک ہائی اسکول قائم کی اور پھر ممبئی کےایک مشہور تعلیمی اِدارے کی لگ بھگ ۱۰؍سال تک سربراہی کی ذمہ داری نبھائی تو بہت سارے اساتذہ سے سابقہ پڑا۔ اس ادارے میں نصف درجن ہائی اسکول اور اُتنی ہی تعداد میں پرائمری اور جونیئر کالج بھی تھے جن کے سارے اُمور ہمارے ذمہ رہے۔ اُس اِدارے میں اساتذہ کی تعداد سیکڑوں پر مشتمل تھی۔
اُن تمام تعلیمی اِداروں میں اساتذہ کے انتخاب کیلئے ہم سب سے پہلے تحریری امتحان لیتے تھے اور اُس کے بعد انٹرویو۔ ہمارے تحریری امتحان کی نوعیت یہ ہوتی تھی کہ تاریخ، عام معلومات، زباندانی، تعلیم اور دینیات سے متعلق چند معروضی سوالات پوچھے جاتے تھے۔ اُس کے جوابات ہمارے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ اساتذہ سے کیا ملتے تھے، ملاحظہ فرمائیں کہ ممبئی جیسے بیدار شہر کے ڈِگری یافتہ اساتذہ کی معلومات کا کیا معیار تھا:
(۱) (سوال) : آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم کا نام۔ (جواب): کئی اساتذہ نے ڈاکٹرذاکر حُسین، راجندر پرشاد اور امبیڈکر کا نام لکھا۔ بمشکل ۱۵؍فیصد اساتذہ نے صحیح جواب مولانا ابوالکلام آزاد لکھا۔ (۲) (سوال) اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد کس نے ڈالی؟ (جواب): ڈاکٹر امبیڈکر، علامہ اقبال، محمد علی جوہر اور سی وی رمن بھی لکھا۔ صرف ۲؍ فیصد اساتذہ نے صحیح جواب سر سیّد احمد خان لکھا۔ (۳) (سوال) : قرآن میں کل سورۃ کی تعداد لکھئے۔ (جواب): کسی نے ۳۰؍کسی نے ۷۸۶؍اور کسی نے ’ہزاروں ‘جواب دیا۔ صرف ۵؍فیصد اساتذہ نے صحیح تعداد ۱۱۴؍لکھی۔ (۴) (سوال) گیان پیٹھ ایوارڈ پانے والے کسی ایک اُردو شاعر کا نام لکھئے۔ (جواب): اکبر الہ آبادی، علامہ اقبال اوراحمد فراز۔ (۵) (سوال): ’کار جہاں دراز ہے‘ کی مصنفہ کا نام لکھئے۔ (جواب) اکثر اساتذہ نے عصمت چغتائی، صالحہ عابد حسین اور واجدہ تبسم کے نام لکھے۔ صرف دو فیصد اساتذہ نے قرۃ العین حیدر کا نام لکھا۔ (۶)(سوال) : انڈین نیشنل کانگریس کے پہلے مُسلم صدر کا نام کیا تھا؟ (جواب) دادا بھائی نوروجی، سر سیّد احمد خان اور محمد علی جناح جواب لکھا۔ صرف ایک اُستاد نے صحیح جواب بدرالدین طیب جی لکھا۔
اس قسم کے جوابات لکھنے والے اساتذہ نے پرچے کے ہمارے آخری سوال کی کہ اُنھیں اُستاد کیوں بننا ہے؟ کے جواب میں یہ جملے لکھے تھے: (الف) میرے خاندان میں کافی اساتذہ پہلے ہی سے موجود ہیں (ب) مجھے میری قوم کا مستقبل روشن کرنا ہے(ج) میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس جو ڈھیر ساری معلومات ہے، وہ قوم کے بچّوں تک پہنچا ئوں۔
ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ آج ہماری قوم کے سارے اساتذہ کا معیار یہی ہے، آج بھی کئی اساتذہ اس مقدّس پیشے کے تقدّس کے پاسدار بنے ہوئے ہیں البتہ اکثر اساتذہ صرف حکومتی حکم ناموں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔
اہلیتی امتحان کے مثبت پہلو:
آخر وہ کون سے اساتذہ ہیں جو غبارِ خاطر کے مصنف کا نام محمد حسین آزاد یا حالی لکھ رہے ہیں اور انڈمان نکوبار جزیرے کس ہائی کورٹ کے ماتحت آتے ہیں کا جواب جاپان لکھ رہے ہیں ؟ ظاہر ہے وہ سارے نا اہل اساتذہ ہیں۔ اُن کا تقرر ہوا کیسے؟ ظاہر ہے اسکول انتظامیہ کوموٹی رشوت دے کر۔ اساتذہ کیلئے کسی اہلیتی امتحان کے انعقاد سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اساتذہ کی بھرتی میں ہونے والی بدعنوانی اور کرپشن کا تقریباً خاتمہ ہوجائے گا۔ قابلیت، اہلیت اور تدریس کے تئیں سنجیدہ اور مثبت رویّہ رکھنے والے انتہائی اہل اساتذہ کا تقرر کرنے کے بجائے لاکھوں روپے کی رِشوت دینے والے اساتذہ کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ مہاراشٹر بھر میں اُردو ذریعہ تعلیم کے ایڈیڈاسکولوں میں فی تقرری ۲۵؍سے ۴۰؍لاکھ روپے کا ریٹ چل رہا ہے۔ اِدارے اور قوم کے نام پر یہ ساری لوٹ کھسوٹ اِدارے کے انتظامیہ اور اُن کے اقربا کی جیب میں جارہی ہے اور رِشوت خوری کے اِن معاملات سے سبھی واقف ہوچکے ہیں۔ حکومت کے اہلیتی امتحان سے قابل اساتذہ کا تقرر ہونا شروع ہوجائے گا۔
اہلیتی امتحان سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اساتذہ اپنی معلومات اپ ڈیٹ کرنا شروع کریں گے۔ ہم آج ہر طرف دیکھ رہے ہیں کہ نوکری پکی ہوجانے کے بعد بیشتر اساتذہ معلومات اور علم حاصل کرنے کا سلسلہ مکمل طورپر منقطع کردیتے ہیں کہ اب تو حکومت کی جانب سے مستقل ہونے کا حکم آچکا ہے اب کیوں معلومات میں اضافہ کریں۔ آج ہمارے کچھ نہیں بلکہ کئی اساتذہ نئی باتوں کو، تبدیلیوں کو، نئے علوم یا ٹیکنالوجی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ اہلیتی امتحان ہی اس کا واحد حل ہے۔
حکومت کامنشا کیا ہے؟
انتہائی ذمہ دار اور مثبت ذہن کے حامل اساتذہ کے تقرّر سے نظامِ تعلیم کے معیار میں بہتری کیلئے اہلیتی امتحان ایک ذریعہ یقیناً ہے مگر کیا حکومت اس ضمن میں واقعی ایماندار ہے؟
رُبع صدی پہلے اِن ہی کالموں میں ہم نے لکھا تھا کہ تعلیمی مثلث اب تعلیمی مسدّس بن چکا ہے اور اُس کے چھ ضلع ہیں : طلبہ، والدین، اساتذہ، انتظامیہ، معاشرہ اور حکومت اوراس میں سب سے خطرناک عنصر حکومت ہی ہے کیوں کہ (الف) وہ صرف یہ سوچتی ہے کہ کس تعلیمی پالیسی سے کتنے ووٹ کٹیں گے اور کتنے ملیں گے؟(ب) حکومت کے پاس سنجیدہ اور دُور اندیش ماہرین تعلیم نہیں ہیں، صرف سرکاری ماہرین تعلیم ہیں۔ (ج) حکومت کے حالیہ کچھ فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو اُن میں سراسر نا انصافی، پسپائی اور ہزیمت و ناکامی ہی دِکھائی دیتی ہے مثلاً آٹھویں تک سب پاس پالیسی وغیرہ۔ اہلیتی امتحان کے انعقاد کے ضمن میں ہمیں حکومت کی نیک نیتی پر شک ہے اور ہمیں اسلئے خدشہ ہے کہ :
(۱) اساتذہ کے اہلیتی امتحان (ٹیٹ) کو میڈیکل کے داخلہ (نیٖٹ) کی طرح انتہائی مشکل کیا جائے گا۔ (۲) اس امتحان سے مستقبل کے اساتذہ کو بھرپور ذہنی اذیت پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ (۳) نیٖٹ اور جے ای ای کی طرح اس امتحان کیلئے بھی کوچنگ کلاسیز کا بازار گرم ہوجائے گا۔ جس طرح کئی مقابلہ جاتی امتحانات کو اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ اُن امتحانات کی تیاری کیلئے ایک لفظ بھی کالجوں میں نہیں پڑھایا جائے گاتاکہ طلبہ کو لاکھوں روپے کی کوچنگ میں داخلہ لینا پڑے۔ (۴)اساتذہ کے اس اہلیتی امتحان کو بھی کوچنگ کلاس مافیا اغوا کرلے جائے گااور پھر وہی ہوگا جو کوچنگ کلاسیز کے مالکان چاہیں گے۔ (۵)کیا اب اساتذہ کے اس اہلیتی امتحان میں بھی دھاندلیاں شروع ہوجائیں گی جیسے (الف) نصاب کے باہر کے سوالات پوچھے جائیں گے؟ (ب) آرٹس، سائنس کے طلبہ کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا جائے گا اور آرٹس والوں کو بھی ریاضی لازمی قرار دیا جائے گا (ج) غلط سوالات بھی پوچھے جائیں گے اور پھر ’سوری‘ کہہ کر گلوخلاصی کرلی جائے گی؟ (د) اس امتحان کا پرچہ بھی لیک کردیا جائے گا؟
ہمارے مندرجہ بالا خدشات اگر درست نکلیں کہ پھر تو آسمان سے گِرا اور کھجور میں اَٹکا والا معاملہ ہوجائے گا یعنی ہم تو معیاری اور اہل اساتذہ کی تلاش میں نکلے تھے مگر کوچنگ مافیا سیاسی لیڈروں کی مدد سے ہمارے تعلیمی نظام کوہی اغوا کرلے جائے گا اور اُس پر کسی کا کوئی کنٹرول بھی نہیں ہوگا۔ اس صورت میں اب ہمیں عوامی بیداری کی تحریک چھیڑنی ہوگی۔ اپنے پارلیمنٹ و اسمبلی اراکین کے گھروں پر مورچہ دینا ہوگا اور اُنھیں پارلیمنٹ میں اس موضوع پر سوالات اور جمہوری احتجاج کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا۔
معیاری تعلیم نظام کی خاطر اساتذہ کیلئے اہلیتی امتحان انتہائی ضروری ہے مگر اس امتحان کو کوچنگ مافیا اور رشوت خور سیاست دانوں کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کیلئے ہم سبھوں کو میدان میں اُترنا ہوگا۔