• Fri, 26 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شرپسندوں کی طرفداری اب پولیس کو بھی بھاری پڑنے لگی

Updated: September 25, 2025, 2:55 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

پولیس محکمے کی ایمانداری پہلے ہی سے مشکوک تھی، گزشتہ ایک دہائی سے زعفرانی عناصر کی بیجا حمایت نے اس کے ماندہ وقار کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔

This time, the Kanoris also targeted the police several times in Uttar Pradesh and Uttarakhand. Photo: INN
اس مرتبہ کانوڑیوں نے اترپردیش اور اتراکھنڈ میں کئی بار پولیس کوبھی نشانہ بنایا۔ تصویر: آئی این این

سماج میں فرقہ واریت کے رجحان کو بڑھاوا دینے والے سیاسی عناصر کو اقتدار ملنے کے بعد جن شعبوں کا طرز عمل آئین کے بجائے اقتدار کی جی حضوری پر منحصر ہو گیا ان میں محکمہ ٔ پولیس کو سر فہرست رکھا جا سکتا ہے۔ اس محکمے کی ایمانداری اور شفافیت پہلے ہی سے مشکوک تھی اب گزشتہ ایک دہائی سے زعفرانی عناصر کی بیجا حمایت نے اس کے ماندہ وقار اور اہمیت کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ ارباب اقتدار کی خواہش اور مرضی کو قانون و آئین سے بالاتر سمجھنے والے پولیس اہلکاروں کی ایک طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے جنھوں نے اپنے فائدے کیلئے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی منصبی ذمہ داری کو بالائے طاق رکھ دیا۔ سماجی نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے میں اس محکمے کا فیصلہ کن کردار اس سے جس حساسیت اور غیر جانبداری کا مطالبہ کرتا ہے یہ محکمہ اب اسی قدر غیر حساس اور جانبدار ہو گیا ہے۔ اس محکمے کے رنگ ڈھنگ میں اس تبدیلی کا بنیادی سبب آئین پر اقتدار کی مرضی کو مقدم سمجھنا ہے۔ اس رویے کی زد میں اکثر وہی افراد آتے ہیں جنھیں اقتدار ان کے لباس سے پہچان لینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ لباس، غذا اور دیگر تہذیبی و ثقافتی لوازم کو شناخت کی بنیاد قرار دینا محض ایک انتخابی جملہ نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ وہ منظم حکمت عملی وابستہ ہے جس میں پولیس کو نمایاں آلہ ٔ کار کی حیثیت حاصل ہے۔ 
گزشتہ دس برسوں کے دوران ایسے کوئی معاملات سامنے آئے جن میں پولیس نے سماجی اتحاد و یگانگت کی فضا کو آلودہ کرنے والے عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے بجائے اقتدار کی خواہش کے مطابق کام کرنے کو ترجیح دی۔ مرکز میں اقتدار کی تبدیلی کے ایک سال بعد ۲۰۱۵ء میں دادری کے محمد اخلاق سے شروع ہونے والا ہجومی تشدد کا سلسلہ اور اس نوعیت کے معاملات میں پولیس کا مشکوک کردار اس کی اقتدار پرستی کو نمایاں کرتا ہے۔ ہجومی تشدد کے بیشتر معاملات میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور ایسے کئی معاملات میں بے گناہ مسلمانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ مسلمانوں کے علاوہ بعض معاملات میں دلتوں اور قبائلیوں کو بھی نام نہاد گئو رکشکوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس طرز کے بیشتر معاملات میں اولاً پولیس نے جائے واردات پر پہنچنے میں دانستہ تاخیر کی تاکہ منظر نامہ بدل جائے اور اگر کبھی بروقت پہنچی بھی تو خاموش تماشائی یافرقہ ورانہ یکسانیت کی بنیاد پر شرپسندوں سے نرم رویہ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ اس محکمے پر اقتدار کا رعب اس قدر حاوی ہے کہ جس مذہب اور اس کے پیرو کاروں کو اقتدار کی پشت پناہی حاصل ہے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں پولیس کے ہاتھ پاؤں شل جاتے ہیں۔ اگر معاملہ برعکس ہو تو یہی محکمہ ایسا چاق و چوبند نظر آنے لگتا ہے کہ جیسے قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے میں مثالی فعالیت کا مظاہرہ کرنے کا اس سے بہتر موقع پھر کبھی نہیں ملے گا۔ 
اقتدار کی مرضی کو آئینی ضابطوں اور قانون پر ترجیح دینے والا رویہ اب خود پولیس کیلئے نوید رسوائی بنتا جا رہا ہے۔ اب ایسے معاملات اکثر رونما ہونے لگے ہیں جب کوئی بھگوا لیڈر ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ رہنے والے ادنیٰ کارکن بھی پولیس اہلکاروں پر نہ صرف دھونس جماتے ہیں بلکہ اگر پولیس ان کی مرضی کے خلاف کارروائی کا عندیہ ظاہر کرے تو یہ دلال قسم کے نیتاپولیس اہلکاروں پر ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پولیس کے ساتھ کم و بیش یہی رویہ ان نام نہاد دھارمک لوگوں کا بھی ہے جو ہندوتوا کا چوغہ تن پر ڈال کر خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ یوپی، ایم پی، گجرات، راجستھان، بہار اور مہاراشٹر کے علاوہ وہ ریاستیں جہاں بی جے پی یا اس کی حلیف پارٹیاں برسر اقتدار ہیں وہاں اکثر اس نوعیت کے معاملات رونما ہو رہے ہیں جو پولیس کے وقارکو مجروح کرتے ہیں۔ ادنیٰ سیاسی اور دھارمک افراد کی دھونس کو مجبوراً برداشت کرنے والے پولیس اہلکاروں کا غصہ اکثر ان لوگوں پر نکلتا ہے جو قانون کی رو سے بیشتربے گناہ اور مذہبی اعتبار سے اقلیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ کبھی شرپسندوں اور کبھی بلا جواز پولیس کے عتاب کا ہدف اگرچہ وہی بنتے ہیں لیکن شرپسندوں کی بیجا طرفداری اب خود پولیس کیلئے وبال جان بنتی جا رہی ہے۔ 
اس محکمے سے وابستہ فرائض پر فرقہ ورانہ یکسانیت اور اقتدار کی مرضی کو ترجیح دینے کا رویہ اب خود پولیس کیلئے ذلت اور رسوائی کا سبب بنتا جارہا ہے۔ منصبی فرائض کو پس پشت ڈال کر تعصب اور جانبداری سے کام کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ تو خدا ہی ملا اور نہ وصال صنم میسر ہوا۔ ۲۰۱۸ء میں ہجومی تشدد کے دوران شر پسندوں کے ذریعہ انسپکٹر سبودھ سنگھ کا قتل اس محکمے کیلئے نوشتہ ٔ دیوار تھا جس سے محکمے نے دانستہ صرف نظر کیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ملک گیر سطح پر کوئی بھی بھگوا دھاری شخص پولیس سے اپنی مرضی کے مطابق کام کروانا چاہتا ہے اور چوں چرا کرنے پر اس حد تک بدتمیزی کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ اس وردی کا احترام بھی اس کی نظروں میں کوئی معنی نہیں رکھتا جس کا حوالہ دے کر یہ محکمہ سماج پر رعب جماتا ہے۔ پولیس کے علاوہ ان دیگر شعبوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے جو سماجی و معاشی بہبود و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن چونکہ پولیس قانون کی پاسداری اور نظم و نسق کو برقرار رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے لہٰذا کسی بھی سطح پر اور کسی بھی طور سے جانب داری یا اقتدار کے دباؤ میں بیجا طرفداری کا مظاہرہ جتنا عوام اور سماج کیلئے نقصان دہ ہے اسی قدر اس محکمے کی شفافیت نیز پولیس اہلکاروں کے وقار کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK