سابق سی جی آئی چندر چڈ نے پہلے ایک انٹرویو میں ایودھیا معاملے پر کورٹ کے فیصلے کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر ہی بنیادی طور پراَپوترکاریہ تھا، لیکن اب انڈیا کانکلیو میں صفائی دے رہے کہ میرا بیان توڑا مروڑا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چندرچڈ اپنے حالیہ انٹرویوز کے سبب موضوع بحث ہیں۔ جن میں انہوں نے بابری مسجد انہدام سمیت کئی معاملات پر متنازع بیان دئیے ہیں۔ سول سوسائٹی کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان بیان بازیوں پر شدید اعتراض کیا جا رہا ہے۔ معروف وکیل پرشانت بھوشن نے مذکورہ انٹرویو کا ویڈیو لنک شیئر کرکے لکھا کہ’’جج یا بابا؟ایودھیا سے لے کر گیان واپی تک: سی جی آئی چندر چُڈ کے انٹرویو میں دئیے گئے بیانات کی سری نیواسن جین نے صداقت کی جانچ کی۔ چندرچڈ نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ بابری مسجد، مندر کو منہدم کرکے بنائی گئی تھی، اسی کو جواز بناکر زمین ان کے حوالے کردی گئی جنہوں نے مسجد کو مسمار کیا۔ چندرچُڈ نے یہ بھی جھوٹا دعویٰ کیا کہ اس پر تنازع نہیں کہ ہندوفریق ہمیشہ سے گیان واپی کے تہہ خانے میں پوجا کرتا رہا ہے، یہ جواز وی ایچ پی اور آرایس ایس کے کیسیز کو جاری رکھنے کیلئے کافی ہے۔ حالانکہ ان کے ایودھیا فیصلے نے پلسییزآف ورشپ ایکٹ کو برقرار رکھا تھا، جو ایسے مندروں اور مساجد کی حیثیت کو منجمد کرتا ہے۔ ‘‘ اسی کمنٹ کے ذیل میں سری نیوا س کرکلا نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ ’’ اس انٹرویو کے بعد چندر چُڈ سے یہ بھی استفسار کیا جانا چاہئے کہ انہوں نے اپنی مدت کار میں کیوں بلڈوزر جسٹس کو نہیں روکا۔ ‘‘
سی پی آئی (ایم ) کے ایکس ہینڈل سے لکھا گیا کہ’’ سی پی آئی ایم نے اس وقت کہا تھا کہ فیصلہ سنایا گیا ہے لیکن انصاف نہیں دیاگیا، یہ الفاظ کتنے سچ ثابت ہوئے ہیں۔ اس کی تصدیق چندر چُڈ نے اپنے حالیہ بیان سے کردی ہے۔ وہ بھی فیصلہ لکھنے والوں میں شامل تھے، جو شواہد پرنہیں تعصب پر مبنی تھا۔ ‘‘
کمار۶۹۷۸۱۹۸۹ ؍نامی صارف نے لکھا کہ ’’کتنے بے شرم اور بزدل ہیں یہ، چیف جسٹس کو تو صرف قانون کی رُوسے فیصلہ کرنا چاہئے۔ یہاں وہ واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ(بابری مسجد فیصلہ) دیگر عوامل کو مدنظر رکھ کر دیا گیا۔ یہ بے حد شرمناک اور افسوسناک ہے۔ ‘‘ اِٹس شگفتہ پی نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ’’جس طرح سے سابق سی جی آئی چندر چُڈ انٹرویو دے رہے ہیں اور اپنا مذاق بنوارہے ہیں، مجھے یقین نہیں ہوتا کہ یہ کبھی سی جی آئی ہوا کرتے تھے۔ یا تو یہ بعد از سبکدوشی انعام چاہتے ہیں یا اپنا اصل سنگھی روپ دکھا رہے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر مکیش کمارنے طویل تبصرہ کیا کہ ’’سپریم کورٹ کے سابق جسٹس ڈی وائی چندر چُڈ نے ایودھیا کے فیصلے پر ایسے تبصرے کئے ہیں جن سے ان کی سوچ اور ذہنیت اجاگر ہوجاتی ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بابری مسجد، مندر کو توڑکر بنائی گئی تھی اور اسلئے ۱۹۴۹ء میں چوری چھپے مورتیاں رکھنا غلط نہیں تھا۔ یاد کیجئے کہ سپریم کورٹ نے ایودھیا معاملے میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے جن سے ثابت ہوکہ بابری مسجد، مندر توڑکر بنائی گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں عدالت عظمیٰ نے بابری مسجدکی مسماری کوغیرقانونی بھی قرار دیا تھا۔ ایودھیا کے فیصلے کو لکھنے والوں میں چندر چُڈ بھی تھے اور اب وہی الٹی باتیں کررہے ہیں۔ دیکھا جائے تو انہوں نے سنگھ پریوار کے پھیلائے گئے جھوٹ کو ہی تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی کہا جارہاہے کہ انٹرویو کے ذریعہ ان کاکمیونل مائنڈسیٹ اجاگر ہوگیا۔ ‘‘فری لانس جرنلسٹ عارفہ خانم شیروانی نے لکھا کہ ’’ایودھیا کا فیصلہ ہندوستان کے سمودھان اور ملک کے مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔ چندر چڈ کا بیان آئینے کی طرح صاف ہے کہ فیصلہ قانون کی بنیاد پر نہیں ، ججوں کی آستھا کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ بھارت دیش سے کہاگیا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ ‘‘ پراگ ہیدے ایکس پر یوں رقمطراز ہوئے کہ ’’پے درپے انٹرویوز دے کر ڈی وائی چندرچُڈ عدلیہ کے نظام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں میڈیا کی توجہ پانا پسند ہے۔ لیکن انہیں تجربہ نہیں کہ کس سوال کا جواب دینا ہے اور کسے چھوڑدینا ہے۔ انٹرویو میں اپنے فیصلوں کا پوسٹ مارٹم کرکے وہ خود ہی اپنے فیصلوں کی حرمت کو پامال کررہے ہیں۔ اس سے ان کے ساتھ اُن ججوں کے وقار پر بھی اثر پڑتا ہے جو اس فیصلے کا حصہ تھے۔ موجودہ چیف جسٹس کو چندر چُڈ کو مشورہ دینا چاہئے کہ وہ ٹی وی انٹرویو سے گریز کریں۔ ‘‘
’جتندر۱۹۱۱۵۲۷‘نامی صارف نے ایکس پر لکھا کہ سبکدوش جسٹس چندر چڈ اپنے پوڈ کاسٹ، انٹرویوز، رام مندر، گیان واپی مسجد سروے پر دئیے جارہے اپنے متنازع بیانات کے سبب پھر موضوع بحث ہیں۔ ایک طرف تو انہوں نے فیصلے میں کہا کہ’’ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مندر کو توڑکر مسجد بنائی گئی‘‘ اوراب کہہ رہے ہیں کہ’’مندر کو توڑکر مسجد بنائی گئی تھی‘‘عدلیہ میں اعلیٰ عہدہ پر رہ چکا جج ہی ایسے جواب دے رہا ہو تو انصاف کی امید رکھنے والوں کو عدلیہ پر کتنا بھروسہ رہ جائے گا۔ وہ بھی رنجن گوگوئی کی طرح راجیہ سبھاکے رکن بننا چاہتے ہیں، ان کے فیصلوں پر کون بھروسہ کرے گا؟
اے احمد نے صحافی پربھاکر مشراکا یہ تبصرہ شیئر کیا کہ ’’جسٹس چندرچڈ کی سرخیوں میں بنے رہنے کی بیماری سے ملک، سماج اور عدلیہ، سب کونقصان پہنچ رہا ہے۔ ‘‘سواتی کے نے طنزاً لکھا کہ ’’بابر کوبھی نہیں پتہ اس نے کون سا مندر توڑکر مسجد بنایا، لیکن چندر چُڈ صاحب کو پتہ ہے۔ ‘‘ابھیشیک (ایکسٹرٹواے بی) نے لکھا کہ ’’اپنی کتاب کیلئے اس طرح کے تشہیری انٹرویو زکرکے چندر چڈرہی سہی عزت بھی گنوادیں گے۔ ‘‘ہے رام۲۷؍نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ ’’بالآخر یہ بات سمجھ میں آگئی کہ جسٹس چندر چُڈ یکے بعد دیگرے انٹرویوز کیوں دے رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے دھماکہ خیر بیانات کیوں دے رہے ہیں۔ دراصل وہ اپنی کتاب بیچ رہے۔ ہیں تو سابق سی جی آئی لیکن دماغ ایم ابی اے والا ہے۔ ‘‘
سبھاش ۲۴۵۳؍نامی صارف نے لکھا کہ ’’سابق سی جی آئی چندر چڈ نے پہلے ایک انٹرویو میں ایودھیا معاملے پر کورٹ کے فیصلے کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر ہی بنیادی طور پراَپوترکاریہ تھا، لیکن اب انڈیا کانکلیو میں صفائی دے رہے کہ میرا بیان توڑا مروڑا گیا ہے۔ ‘‘اب ان باتوں پر ہم کیا ہی کہیں ؟ ہمیں تو منظر بھوپالی کا یہ شعریاد آگیا، اسی پر کالم تمام کررہے ہیں :’’آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں /یہ تو کہئے کہ آپ کے عیب و ہنر دیکھے گا کون‘‘