Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: ’’یہاں سیزفائر نہیں ہوگا کیونکہ ان کے پاس صرف بھوک ہے‘‘

Updated: June 29, 2025, 1:58 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

اشونی سونی نے ایک دل شکن ویڈیو پوسٹ کیا اور لکھا کہ’’ غزہ میں بچے زمین سے آٹا اکھٹا کرنے کو مجبور ہیں۔ اس دنیا کے طاقتور ممالک کو یہ سب دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں سیز فائر نہیں ہوگا کیونکہ ان کے ایران کے جیسے میزائل نہیں ہیں، صرف بھوک ہیں۔ ‘‘

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

پچھلے ہفتے کئی ڈرامائی موڑ لینے کے بعد ایران اسرائیل میں چھڑی جنگ تھم گئی۔ دنیا متوحش تھی کہ امریکی مداخلت سے یہ ہولناکی بڑھ سکتی ہے۔ ایران نے تو قطر کے امریکی بیس پر حملہ کرکے دندان شکن جواب بھی دے دیا تھا، لیکن پھر اچانک ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کردیا اور حسب معمول اس کا کریڈٹ خود ہی لے لیا۔ لیکن کچھ ہی گھنٹوں میں ایران نے جب اس دعوے کی تردید کی اور خود بغل بچے اسرائیل نے تابعداری سے انکار کیا تو ٹرمپ بھناگئے۔ نوبت تو یہاں تک پہنچی کہ ٹرمپ کو ٹروتھ پوسٹ میں ’پلیز‘ تک لکھنا پڑا، لیکن پھر بھی بات نہ بنی۔ ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں ٹرمپ اتنے بوکھلائے کہ پھر انہوں نے گالی بک دی۔ سوشل میڈیا پر ان سارے اپ ڈیٹس پر خوب پھبتیاں کسی گئیں۔ طرح طرح کے تبصرے کئے گئے۔ 
انکت کمار اوستھی نے طنزاً لکھا کہ’’ مارویل کی اگلی فلم میں ٹونی اسٹارک کی جگہ ٹرمپ کو اوینجر بنادینا چاہئے، ایک آدمی دنیا کو پُرامن اور خوشحال بنانے کیلئے کیا کچھ نہیں کر رہا ہے۔ بڑے بڑے تجارتی معاہدے کر رہا ہے، جنگ بندی کروارہا ہے، ایران کے نیوکلیئر ٹھکانوں پر بم برسا رہا ہےاور اب تو یہ دعویٰ بھی کر رہا ہے کہ اُس نے خامنہ ای کی جان بھی بچا لی۔ نوبیل انعام تو اس آدمی کیلئے کم ہے، اس کیلئے تو کوئی نیا ایوارڈ شروع ہونا چاہئے۔ ‘‘ پربھاکر کمار مشرا نے لکھا کہ’’ لگتا ہے ٹرمپ نوبل انعام لے کر ہی مانیں گے۔ پہلے ہندپاک، اب اسرائیل ایران، ہمارے والے نے تو صرف دعویٰ کیا تھا، یہاں تو بم مارکر منارہا ہے۔ ‘‘
 خیر، دنیا کا ایک طبقہ بھلے ہی ان سارے ایونٹس کو ہنسی مذاق میں اڑادے، لیکن اب بھی ایک بڑی تعداد ہے جس کے فکر و اندیشے کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ایران نے بھلے اسرائیل کے ساتھ جیسے کو تیسا معاملہ کرکے اسے نچلا بٹھادیا ہو، لیکن اسرائیل اب بھی غزہ کے نہتے عوام پر شہ زوری دکھارہا ہے۔ یہاں جنگ بندی کیلئے دنیا کی بڑی طاقتیں صرف زبانی جمع خرچ کررہی ہیں۔ برطانوی سیاستداں کلاؤڈیا ویب نے لکھا کہ ’’ہم اب تک اسرائیل کو غزہ میں خوراک اور امداد کیلئے قطار میں کھڑے فلسطینیوں کو قتل کرنے کی اجازت کیوں دے رہے ہیں ؟نیتن یاہو کو گرفتار کرو۔ بائیکاٹ، ڈِس انویسٹمنٹ، پابندیاں لگاؤ۔ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت مکمل طور پر بند کرو۔ فلسطین کو آزاد کرو۔ ‘‘اشونی سونی نے ایک دل شکن ویڈیو پوسٹ کیا اور لکھا کہ’’ غزہ میں بچے زمین سے آٹا اکھٹا کرنے کو مجبور ہیں۔ اس دنیا کے طاقتور ممالک کو یہ سب دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں سیز فائر نہیں ہوگا کیونکہ ان کے ایران کے جیسے میزائل نہیں ہیں، صرف بھوک ہیں۔ ‘‘ 
جنگ کے بعد نیویارک میئر الیکشن دوسرا ایسا موضوع ہے جو ملکی و غیرملکی سوشل میڈیا گلیاروں میں موضوع بحث ہے۔ بالخصوص رائٹ ونگ تو کچھ زیادہ ہی’ سیریئس‘ لے رہا ہے۔ وجئے پٹیل نے ظہران ممدانی کی اہلیہ کی تصویر شیئر کرتے ہوئے سوال قائم کیا کہ ’’ممدانی کی اہلیہ حجاب کیوں نہیں پہنتیں ؟‘‘ اس پر سرایو پنی نے لکھا کہ ’’ہندوستان کا دایاں بازو بھی عجیب ہے، کیونکہ وہ بیک وقت یہ اصرار کرتا ہے کہ وہ مسلمان خواتین جو حجاب پہنتی ہیں، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے اور وہ مسلمان خواتین جو حجاب نہیں پہنتیں، انہیں لازماً پہننا چاہئے۔ ‘‘
انور مُلور نے تبصرہ کیا کہ ’’ یہ ظہران ممدانی کی اہلیہ ہیں رما دواجی، شامی نژاد امریکی رما پیشے کے اعتبار سے ایک السٹریٹر اور اینی میٹر ہیں اور وہ اتنی ہی انقلابی سوچ رکھتی ہیں جتنے ان کے شوہر ظہران۔ اپنے آرٹ کے ذریعے وہ فلسطین پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں اور اسرائیل کے جنگی جرائم کی کھل کر مذمت کرتی ہیں۔ ان کی ایک پوسٹ نے اُس وقت ہلچل مچائی تھی جب انہوں نے نیویارک کی کچھ تنظیموں پر غزہ میں ’وار کرائمز‘ کی فنڈنگ کا الزام لگایا تھا۔ ‘‘ انصار عمران ایس آر نے لکھا کہ’’ لوگ پوچھتے ہیں نام میں کیا رکھا ہے؟ بھائی صاحب سب کچھ رکھا ہے۔ اگر آپ ہند نژاد ہیں اور آپکا نام رشی سونک ہے، تو آپ کی خوب جئے جئے کار ہوگی، لیکن اگر آپ ظہران ممدانی ہیں تو آپ کے خلاف ایجنڈا چلے گا۔ ‘‘
ممدانی کیخلاف جاری نفرت انگیز پروپیگنڈے کیخلاف امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے لکھا کہ’’ممدانی جیت گئے۔ اس سے اقتدار گھبراگیا ہے۔ ارب پتی ان کے خلاف فنڈز جمع کر رہے ہیں، ٹرمپ چیخ و پکار کر رہے ہیں، اسلام دشمن کھلے عام سرگرم ہیں۔ جو بات ہم جانتے ہیں وہ بھی یہ جانتے ہیں کہ: وہ امیدوار جو جرأت کے ساتھ محنت کش طبقے کے ساتھ کھڑے ہوتا ہے، وہ نہ صرف نیو یارک شہر بلکہ کہیں بھی الیکشن جیت سکتا ہے۔ ‘‘ بل میڈن نامی امریکی گلوکار نے ممدانی کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ’’ اسلئے ممدانی جیت گئے۔ وہ ایک جدید، تعلیم یافتہ امریکی ہیں جن میں حس مزاح بھی ہے، جو نہ صرف مؤثر انداز میں بات چیت کرنا جانتے ہیں بلکہ محنت کش امریکیوں کے مسائل کو سمجھتے اور ان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اس سے سبق سیکھے گی۔ ‘‘ ستیہ ہندی کے ایڈیٹر ڈاکٹر مکیش کمار نے لکھا کہ’’ ظہران ممدانی ابھی نیویارک کے میئر نہیں بنے ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ بنیں گے یا نہیں، لیکن پوری ریپبلکن اور یہودی لابی انہیں ہرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ صدر ٹرمپ تک پریشان ہیں اور کھلے عام الزام تراشی پر اُتر آئے ہیں، لیکن ہندوستان کا گودی میڈیا اور آگے نکل گیا ہے۔ وہ ممدانی کو ابھی سے ہندوستان اور ہندو مخالف قرار دینے لگا ہے۔ دراصل، ممدانی نے گجرات فسادات کیلئے مودی کو ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے اور ان کا موازنہ نیتن یاہو سے یعنی ایک جنگی مجرم سے کر دیا ہے۔ گودی میڈیا یہ دیکھ کر پاگل ہو گیا ہے کیونکہ مودی تو اس کیلئے ’بھگوان‘کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کیلئے تو مودی ہی ہندوستان ہیں اور مودی ہی ہندو ہیں۔ اسی لئے جو کوئی بھی ان کے بارے میں کچھ کہے گا، اُسے ملک مخالف اور ہندو مخالف قرار دے دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ممدانی نے ہندوستان کے خلاف کچھ غلط کہا ہے، نہ ہی ہندوؤں کے خلاف۔ آخرکار، انہیں نیویارک کے ہندو ووٹرز کے ووٹ بھی تو درکار ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK