Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: ’’یہ ریسکیو آپریشن کے ہیرو ہیں، حکومت کو ان کی سدھ لینی چاہئے‘‘

Updated: December 04, 2023, 3:41 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

آئی پی ایلکو یہاں  سے تقریباً چار ماہ باقی ہیں ۔لیکن اس کی ہلچل ابھی سے شروع ہوگئی ہے۔ گزشتہ اتوار کو کھلاڑیوں  کی برقراری (ریٹینشن)، بالخصوص ہاردک پانڈیا دو دنوں تک موضوع بحث رہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

آئی پی ایلکو یہاں  سے تقریباً چار ماہ باقی ہیں ۔لیکن اس کی ہلچل ابھی سے شروع ہوگئی ہے۔ گزشتہ اتوار کو کھلاڑیوں  کی برقراری (ریٹینشن)، بالخصوص ہاردک پانڈیا دو دنوں تک موضوع بحث رہے۔ گجرات ٹائٹنس اور ممبئی انڈینس میں  ہاردک کیلئے رسہ کشی دیکھ کر سوشل میڈیا مبصرین کی رگ شرارت پھڑک گئی۔ صورتحال ہی عجب تھی، ایک طرف خبراڑتی کہ جی ٹی نے ہاردک کو رِیٹین کرلیا تو دوسری طرف سے دعویٰ ہوتا کہ’ہاردک پانڈیا ٹریڈیڈ ٹُوممبئی انڈینس‘۔ اس پر خوب مِیم چلے، راج بیٹس نامی صارف کی یہ پوسٹ اس صورتحال کی خوب عکاسی کرگئی، جس میں رتیک روشن کے بجائے ہاردک یہ گاتے ہوئے نظر آئے ’’اِدھر چلا میں  اُدھر چلا....جانے کہاں  میں  کدھر چلا‘‘چوفی نامی صارف نے سورگ فلم کا ایک مشہور منظر شیئر کیا جس میں  گووندہ ، پریش راول سے آبائی حویلی خریدتے ہیں ۔یہاں گووندہ کی جگہ مکیش امبانی اور پریش راول کی جگہ ہاردک کا چہرہ لگایا گیا۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر اتوار کو ممبئی حملوں  کے مہلوکین کو بھی یاد کیا گیا۔اس دوران ’ممبئی ٹیرر اٹیک،تکارام اومبلے،قصاب‘ٹرینڈنگ میں  رہا۔ پیر کو دوا ساز کمپنی فائزرکے شیئر امریکی بازار میں  لڑھک گئے، اسی باعث ’فائزر‘ ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈنگ میں  رہا۔
  منگل کو’ سلکیارا ٹنل‘ کا بچاؤ آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوا، یہ خبر جیسے ہی عام ہوئی، پورے ملک نے راحت و سکون کا سانس لیا۔کاشی،اتر کاشی ٹنل، این ڈی آر ایف، اتراکھنڈ ٹنل ریسکیو ، آل ۴۱، ریسکیو ٹیم، منا قریشی ، وکیل خان جیسے ہیش ٹیگز چھاگئے۔ ۱۲؍نومبر سے سلکیارا سرنگ میں  پھنسے ان ۴۱؍ مزدوروں  کیلئے ہر کوئی فکرمند تھا۔ پل پل کا اپ ڈیٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام تک پہنچ رہا تھا۔  ۲۸؍نومبر تک یہ بچاؤ آپریشن چلا، جس میں چھوٹی بڑی ہر قسم کی کھدائی مشینیں آزمائی گئیں ، بچاؤ کام کے ماہرین نے اپنا پورا تجربہ و صلاحیت جھونک دیا۔ملبہ تھا کہ ہٹنے کا نام نہیں  لے رہا تھا۔ خدا کی قدرت دیکھئے کہ پھر بچاؤ کام کیلئے وہ جڑگئے جن سے بیشتر انجان تھے۔ ’رَیٹ ہول مائنر‘ نے یہ جان جوکھوں  کا کام بڑی عمدگی سے انجام دیا۔ایک خاتون رپورٹر نے بڑے ہی جذباتی انداز میں اس کیفیت پر امیر قزلباش کا یہ شعر پڑھا کہ ’’مرے جنوں  کا نتیجہ ضرور نکلے گا/اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا‘‘ ایک مزدور کے والد کی ’میڈیا بائٹ‘ بھی وائرل ہوگئی جس میں  رپورٹر کے استفسار پر کہ ’’بیٹے سے ملنے جارہے ہیں ،کیا کہیں  گے اس سے؟‘‘ تومسکراتے ہوئے انہوں  نے بھولے پن سے کہا کہ ’’ہمارا پودا ایک جو بچا تھا وہ ہمیں   مل گیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں  میں  خوشی کے آنسو جھلملارہے تھے۔ سوشل میڈیا پر ان ’ہیروز‘ کی پزیرائی و سراہنا جم کر کی گئی۔ گیت کار پُنیت شرما نے لکھا کہ ’’جب میں  نے دیکھا کہ ریٹ مائنرس نے کس پتلے سے پائپ میں  گھس کر سرنگ کھودی ہے، تو یہ دیکھ کر ہی میری سانس پھولنے لگی۔ اس پتلی سی سرنگ میں  اپنی جان جوکھم میں  ڈال کر مزدوروں  کو نکالنا بہت ہی بڑا جوکھم کا کام تھا۔ منا قریشی، وکیل ، حسن اور ان کی ٹیم کے اراکین فیروز، دیویندر، راشد، جتن، ارشاد ، مونو، نسیم، سوربھ ،ناصر سبھی کو ہندوستان کی طرف سے کم سے کم ’راشٹرپتی پرسکار‘ سے نوازنا چاہئے۔ لیڈر صرف بھاشنوں  میں  اپنی جان داؤ پر لگاتے ہیں ، اور اس (دعوے) کیلئے شہریوں  سے تالیاں  مانگتے ہیں ۔ اصل زندگی میں منا،وکیل، حسن اور ان کی ٹیم کے یہ اراکین ہی یہ ہمت کرپاتے ہیں ۔‘‘ اجیت سنگھ نامی صارف نے لکھا کہ ’’آج سے پہلے کتنے لوگ رَیٹ مائنرس کے بارے میں  جانتے تھے؟ کیا حالت ہے ان کی ؟ غیر قانونی قرار دئیے جاچکے ان کے ہنر اور ہمت نے ۴۱؍ لوگوں  کی جان بچائی۔ اب حکومت کو ان کی سُدھ لینی چاہئے، یہ ریسکیو آپریشن کے ہیرو ہیں  ‘‘
 سیاستدانوں  میں  پرینکا گاندھی کی یہ پوسٹ دل کو چھوگئی کہ ’’اترکاشی کی سلکیارا سرنگ میں  پھنسے مزدور بھائیوں  کو باہر نکالنے کی کوشش میں جب بڑی بڑی اوگر مشینیں  ناکام ہوگئیں ، ہاتھوں  ہاتھ کھدائی کی ایک دیسی تکنیک کو عمل میں  لانا پڑا، جسے رَیٹ ہول مائننگ کہا جاتا ہے۔ ۱۲؍ ریٹ ہول مائنرس ساتھیوں  نے جان پر کھیل کر محض ۲۴؍ گھنٹے کی محنت میں  ریسیکو آپریشن کو پورا کردیا۔ ان میں   سے ایک ساتھی محمد ارشاد نے سب کے لئے دعا کی کہ ملک میں  پیار بچا رہے اور انسان کو انسان کی طرح پیار کیا جائے۔ دوسرے رَیٹ ہول مائنر ناصر حسین نے جب ملبے کو چیرکراس پار پھنسے مزدوروں میں  سے پہلے کو دیکھا تو اسکے پاس پہنچے اور فوراً گلے سےلگالیا۔ یہی پیار ہے ، اسی محبت سے بنا ہے اپنا ملک۔ جئے ہند۔‘‘اس حادثے اور آپریشن کو روزاوّل سےبلاتکان کَور کرنے والےصحافی اجیت سنگھ راٹھی کا یہ سوال قابل غور ہے کہ ’’آپریشن ٹنل میں  ۴۱؍ زندگیوں  کیلئے ۱۷؍ دن کی مہابھارت تو ختم ہوئی لیکن میرے اندر ایک مہابھارت اب بھی چل رہی ہے۔ پی ایم او سے لے کر سی ایم تک، مرکزی وزیر، انتظامیہ، نوکر شاہی، آرمی، تمام ایجنسیوں  نے مورچہ سنبھالے رکھا، لیکن ’نویوگ‘نام کی جو کمپنی سرنگ بنارہی تھی، ۱۷؍ دن سے وہ کہاں  دفن ہے؟ اس کی ذمہ داری طے ہوگی یا بے گناہی کی سند دے دی گئی؟‘‘ غرض یہ کہ ہفتے بھر یہ معاملہ سبھی موضوعات پر چھایا ہوا تھا۔ دیگر موضوعات کا ہم چاہ کر بھی احاطہ نہیں  کرپائے۔ خیر جاتے جاتے ایک وائرل ویڈیو کا قصہ سن لیجئے۔ سریش کمار سنگھ نے یہ ویڈیو پوسٹ کیا اور لکھا کہ ’’مرزا پور کا یہ ویڈیو بڑا دردناک ہے۔ بیمار ماں  کے علاج کا بوجھ کندھے پر لئے تین دن تک بھوک سے بے حال ۷؍ سالہ بچہ اِمیلیا چٹی پولیس چوکی پہنچ کر دہاڑ مار کر رونے لگا ۔ پولیس نے پوچھا تو بتایا کہ تین دن سے کچھ کھانے کو نہیں  ملا، پولیس نے مدد کی ۔ ‘‘ اس ویڈیو میں   جب پولیس اہلکار نے شفقت کا ہاتھ اس معصوم کے سرپر رکھا تو وہ بلک بلک کر روپڑا۔ اس پوسٹ کے ذیل میں  گورو نامی شخص نے لکھا کہ ’’کاش خاکی میں  سارے پولیس والے ایسے ہوتے....‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK