سیم آلٹ مین کا یہ کہنا کہ ’ ہم نے ایٹم بم جیسی ہی کوئی تباہ کن ایجاد نہ کردی ہو جس کی وجہ سے انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘ تشویشناک ہے۔
EPAPER
Updated: August 17, 2025, 2:28 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
سیم آلٹ مین کا یہ کہنا کہ ’ ہم نے ایٹم بم جیسی ہی کوئی تباہ کن ایجاد نہ کردی ہو جس کی وجہ سے انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘ تشویشناک ہے۔
اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین نے منصوعی ذہانت کے جدید ورژن سے متعلق جو بیان گزشتہ ہفتے دیا ہے اس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کا یہ حیرت انگیز مظہر مستقبل میں انسانیت کیلئے ہلاکت خیزی کا سبب نہ بن جائے؟ آلٹ مین نے چیٹ جی پی ٹی کے پانچویں ورژن کو’مین ہٹن پروجیکٹ‘ نامی اس خفیہ امریکی پروگرام کے مشابہ قرار دیا ہے جس کے تحت دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر ایٹم بم گرائے گئے تھے۔ دنیا کو ٹیکنالوجی کی ایسی حیرت افزا سوغات عطا کرنے والے موجد کا کہنا ہے کہ ’ ہم نے ایٹم بم جیسی ہی کوئی تباہ کن ایجاد نہ کردی ہو جس کی وجہ سے انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ‘آلٹ مین کے بیان میں ٹیکنالوجی کی ہلاکت خیزی کا دعویٰ تو نہیں لیکن جس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اسے بے بنیاد خدشہ کہہ کر درگزر نہیں کیا جا سکتا۔ اے آئی کے ممکنہ خطرات کو اگر ایٹم بم کے مماثل نہ بھی سمجھا جائے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تکنیک انسانی سماج کو ایسے پیچیدہ مسائل اور محیر العقول معاملات میں الجھا سکتی ہے جس کا حل تلاش کرنا بجائے خود ایک دشوار گزارکام ہوگا۔ آلٹ مین نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم نے انسانیت کیلئے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ ‘ چیٹ جی پی ٹی کا پانچواں ورژن انسانی سمجھ سے باہر کے مسائل حل کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اس استعداد نے مختلف شعبہ ٔ حیات سے وابستہ مسائل کو حل کرنے کا عمل بہت آسان بنادیا ہے لیکن اس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ مستقبل قریب میں انسانی ذہن بیکار ہو سکتا ہے۔
سیم آلٹ مین کے حالیہ بیان کے سیاق میں اگر موجودہ انسانی معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو بہ آسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی شکل میں ٹیکنالوجی کی برکت سے فیضیابی اپنے ہمراہ ایسے مسائل بھی لائی ہے جن کے سبب نظام حیات کے مختلف پہلوؤں پر مصنوعیت غالب آتی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال کسی ایک شعبے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تعلیم، صحت، صنعت و تجارت کے علاوہ سیاست و سفارت میں بھی اس کے مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس ایجاد سے قبل زندگی کے مختلف اہم شعبوں میں بہتر کارکردگی کا انحصار انسانی ذہانت پر ہو اکرتا تھا لیکن اب عالم یہ ہے کہ کسی بھی امرمیں مطلوبہ مواد کی حصول یابی یا کسی شعبہ ٔ زندگی سے وابستہ مسئلے کو حل کرنے کیلئے اسکرین یا کی بورڈ پر انگلیوں کی چند حرکات ہی کافی ہو گئی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس تکنیکی ایجاد نے مختلف شعبہ ٔ حیات میں انسانوں کو مشقت، زحمت اور بعض معاملات میں ذہنی اذیت سے نجات عطا کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انسانی ذہانت اور لیاقت کے ان امیتازی پہلوؤں کو کمزور بلکہ لاغر بنا دیا ہے جو شرف و فضیلت کا باعث ہوا کرتے تھے۔ اس ایجاد نے خزف ریزوں اورجواہر پاروں کو ایک ہی صف میں لا دیا ہے جس کے سبب اصلی اور مصنوعی دانشمندوں کے مابین فرق ختم ہوتا جا رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی ایجاد انسانی ذہن کا ایسا معجز نما کارنامہ ہے جس نے زندگی کے مختلف شعبوں میں دلچسپی اور حیرت انگیزی کے عناصر نمایاں کر دئیے ہیں لیکن اس کا نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ اب انسان اپنی عقل پر اعتماد کرنے سے زیادہ مصنوعی ذہانت پر بھروسہ کرنے لگا ہے۔ اس تکنیکی ایجاد پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنے والا انسانی رویہ اس کیلئے پریشانی کا سبب بھی سکتا ہے۔ ایسی پریشانی کے آثار و مظاہر ظاہر ہونا شروع بھی ہو گئے ہیں۔ نیویارک میں ایک ۶۰؍سالہ شخص نے صحت کے سلسلے میں چیٹ جی پی ٹی کے ارشادات پر بھروسہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اپنی خوراک میں نمک کی مقدار اتنی کم کردی کہ اس کے جسم میں سوڈیم کی مقدار خطرناک حد تک کم ہو گئی۔ طبی اصطلاح میں اسے ہائپونیٹریمیا کہتے ہیں جس سے متاثر انسان مختلف قسم کے پیچیدہ امراض کا شکار ہو سکتا ہے۔ اے آئی پر اس قدر انحصار انسان کیلئے صرف جسمانی پریشانی کا ہی سبب نہیں بلکہ اس کی وجہ سے ذہانت کی درخشندگی پر تکنیکی سہولت کی سادہ لوحی غالب آتی جا رہی ہے۔
زندگی کے مختلف شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کا چلن جس قدر مقبول ہوتا جا رہا ہے اس سے یہ اندیشہ پیدا ہو چلا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ انسان عمرکے فرق کو بالائے طاق رکھ کرتمام شعبۂ عمل کے مطالبات اور تقاضوں کی تکمیل اسی تکنیکی ایجاد کے ذریعہ کرنے کا عادی ہو جائے گا۔ اس طور سے زندگی کے مراحل طے کرنے والا انسانی طبقہ آج بھی موجودہ ہے جو خود کو جدید ترین افکار و رویہ کا حامل ثابت کرنے کی دھن میں ٹیکنالوجی کے ان مضر پہلوؤں کو صریح طور پر نظر انداز کردیتا ہے جن پہلوؤں کے متعلق خود موجد تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ آلٹ مین کی تشویش پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ایسا نہ ہو کہ جس طرح امریکی ایٹم بم نے جاپانیوں کو جسمانی ہلاکت خیزی سے دوچار کیا اسی طرح اے آئی انسانوں کو ذہنی ہلاکت خیزی میں مبتلا کر دے۔ اسلئے لازم ہے کہ اس سہولت بخش تکنیکی ایجاد کے استعمال میں معتدل رویہ اختیار کیا جائے اور ان امور و مسائل کے سلسلے میں اس سے رجوع نہ کیا جائے جن کو حل کرنے کی استطاعت انسانی فہم و دانش کو حاصل ہے۔ اس استطاعت کو بروئے کار لانے کیلئے جو ریاضت درکار ہے دراصل اسی پر عمل کی فضیلت کا انحصار ہے اور اگر اس سے مکمل طور پر دامن کشاں ہو کر سرگرم عمل رہنے کی خو اختیار کر لی گئی تو یہ مختلف صورتوں میں انسانیت کیلئے وہ خطرہ ہوگا جس کیلئے آلٹ مین نے متنبہ کیا ہے۔