Inquilab Logo

املا نویسی اور مضمون نویسی اُردو کی تدریس میں معاون ہیں

Updated: May 08, 2023, 4:26 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

اردو پڑھانے والے اساتذہ سے ان کے طریقۂ تدریس سے لے کرانہیں پیش آنے والی دشواریوں تک کے موضوعات پر کی گئی گفتگو ملاحظہ کریں۔ دوسری قسط

To teach Urdu language in the classroom, teachers adopt different methods so that the students can easily memorize it
کلاس روم میں اردو زباندانی کی تدریس کیلئے اساتذہ مختلف طریقے اپناتے ہیں تاکہ طلبہ آسانی سے ذہن نشین کرلیں

 اردو کو زندہ وپائندہ رکھنے کیلئے  جہاں اسے نئے علاقوں، خطوں اورملکوں تک پہنچانے کی سعی ہو رہی ہےوہیں  اس زبان کی جائے پیدائش  خطہ بر صغیر میں اسے مزید بہتر اور زندہ زبان بنانے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف تنظیمیں ، ادارے ، حکومتیں اپنی اپنی کوششیں کررہے ہیں لیکن یہاں بنیادی کام اسکولوں میں ہونا چاہئے جہاں ہمارے اساتذہ نہ صرف اس زبان کی بہتر تدریس کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں بلکہ طلبہ میں زبان کے تئیں دلچسپی اور اسے پوری صحت کے ساتھ فروغ دینے کا کام بھی کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے ہم نے انجمن اسلام کرلا بوائز ہائی اسکول کے اردو کے استاد عبدالرحیم ریاض احمد اور انجمن اسلام باندرہ گرلز کی جونیئر کالج کی لیکچرار انیسہ انصاری  سے گفتگو کی تھی۔ اس ہفتے صافیہ گرلز ہائی اسکول بھیونڈی کی نہایت محنتی اور ذہین استاد شاداب اقبال مومن  اور باندرہ اردو ہائی اسکول اور جونیئر کالج  کے استاد شاہنواز دادا میاں قریشی سے گفتگو کی  اور ان سے جاننے کی کوشش کی کہ اردو کی تدریس کا ان کا طریقہ کیا ہے اور وہ کیسے طلبہ کے ذہن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
  شاداب اقبال مومن   جو ادب کا بہت ستھرا ذوق  رکھتی ہیں  اور مصنفہ بھی ہیں، نے کہا کہ ’’خصوصاً ایسے اسکولوں میں جہاں ذریعۂ تعلیم ہی اردو ہو، وہاں اردو کی تدریس خصوصی توجہ کی متقاضی ہے۔ اردو بہ حیثیت مضمون ہی نہیں بلکہ بہ حیثیت زبان بھی پڑھنی پڑھانی چاہئے اورہم اپنی جانب سے پوری کوشش کرتے ہیںکہ  طالبات کو اردو کی تدریس میں روایتی اور جدید دونوں طریقۂ تدریس  سے پڑھائیں۔‘‘ انہوں نے پڑھانے  کے طریقے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تدریس کے دوران طلبہ سے بلند خوانی کروانا اشد ضروری ہے جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ کس لفظ کی ادائیگی میں انہیں دقت پیش آ رہی ہے۔ ایسا کرنے سے تلفظ کی درستگی آسان ہو جاتی ہے۔ طلبہ کے لہجے پر علاقائی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جس ماحول سے آتے ہیں وہ بھی اثر انداز ہوتا ہے ایسے میں اردو کی تدریس ایک مشکل امر بن جاتی ہے۔ خصوصاً ایسے طلبہ کی اصلاح کیلئے اسی قبیل کے کئی الفاظ کی ادائیگی کی مشق ضروری ہوجاتی ہے۔ شاداب اقبال مومن نے مزید کہا کہ اس بات سے قطع نظر کہ اردو ہماری مادری زبان ہے اور ہم اسے سنتے، پڑھتے اور بولتے آرہے ہیں، یہ بات عام  مشاہدہ میں آتی ہے کہ بعض طلبہ اردو مضمون میں کافی کمزور ہوتے ہیں۔ ان کی بول چال  میں علاقے  اور ماحول کے اثر کو کم کرنے کے  لئے خصوصی توجہ ضروری ہوتی ہے۔اس سلسلے میں ایسے طلبہ کیلئے’ریمیڈیل‘ کلاس کا خصوصی اہتمام بھی ہوتا ہے۔
   شاداب مومن نے  اردو بال بھارتی کی درسی کتاب سے مدد ملنے کے سوال پر کہا کہ یہ کتاب محض نصاب پر مبنی کتاب نہیں ہے بلکہ اپنے آپ میں زبان سکھانے کی رہنما بھی ہے۔یہ کتابیں طلبہ کی عمر، دلچسپی،  استعمال کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر مرتب کی جاتی ہیں۔ نصابی کتاب میں طلبہ کی ذہنی صلاحیت کی بنیاد پر نئے لفظوں کے معنی، تذکیر و تانیث، محاورے، کہاوتیں اورواحد جمع وغیرہ شامل  کئے جاتے ہیں اور ان کے عملی استعمال کی مشق بھی کروائی جاتی ہے جس سے اردو زباندانی کی تدریس آسان ہو جاتی ہے۔ قواعد کی تدریس کے دوران ’آسان سے مشکل کی طرف‘تدریسی گُر کا استعمال کیا جاتا ہے جو کافی موثر طریقہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تذکیر و تانیث اور واحد جمع  طلبہ کے  لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی اہم وجہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے رجحان کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی ہے۔ ان پلیٹ فارمس پر  ٹائپنگ کے لئے غالباً عجلت  میں جو بھی لکھا جاتا ہے وہ رومن میں ہوتا ہے۔ اس وجہ سے مذکورہ خامیوں کے ساتھ طلبہ کی املا نویسی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس کے تدارک کے لئے طلبہ سے روزانہ ایک صفحہ لکھنے کی مشق کروانا ضروری ہے۔ انہوں نے مضمون نویسی کے تعلق سے کہا کہ یہ بہترین طریقہ ہے طلبہ کو زبان سے قریب کرنے کالیکن اس کیلئے کلاس میں وقت نکالنا ضروری ہوتا ہے۔  شاداب مومن نے اردو کی تدریس میں لغت بینی کو بھی اہم قرار دیا اور کہا کہ اساتذہ کو اس پر دھیان دینے کے ساتھ ساتھ  طلبہ میں بھی یہ عادت پروان چڑھانی چاہئے۔  
 شاہنواز دادا میاں قریشی جو باندرہ اردواسکول اور جونیئر کالج میںآٹھویں سے دسویں کے طلبہ کو  اردو پڑھاتے ہیں، نے بتایا کہ تدریس کا جو طریقہ ہمارے اساتذہ نے طے کردیا ہے وہ بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔ پہلے وہ نصاب سے پڑھاتے ہیں اس کے بعد طلبہ کی ذہنی استعداد کے مطابق ان سے مشکل سوالات کرتے ہیں، الفاظ کے معنی بتاتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔  انہوں نے مزید کہا کہ اردو کی تدریس کے سلسلے میں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نصاب سے جو بھی سبق پڑھایا جائے  وہ طلبہ رَٹ کر یاد نہ کریں بلکہ وہ ان کے ذہن میں اتر جائے۔ اس سے امتحان گاہ میں کوئی سوال اگر تبدیل کرکے بھی پوچھا جائے گا تو انہیں مشکل نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ سبق ذہن میں اتر جانے سے اس سبق کے مشکل الفاظ کے معنی ،  ان کا محل استعمال  اوران کا تلفظ بھی ان کے ذہن میں بیٹھ جائے گا۔شاہنواز سر کے مطابق نصاب کی کتاب ہمارے لئے اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اسکول میں ہم طلبہ کی ذہنی نشو ونما کے لئے مزید تگ و دو کرتے ہیں۔ اس کے لئے اکثر کلاس میں مضمون نویسی کروائی جاتی ہے لیکن  یہ مستقل نہیں ہوپاتی ۔ انہوں نے بتایا کہ اگر طلبہ کی اردو کوبہتر بنانا ہے تو انہیں بنیادی طریقے سے پڑھانا ہو گا۔ اس میں ہجے کرکے الفاظ پڑھنا سکھانا ، مشکل الفاظ کے معنی لغت کے حوالے سے بتانا  اور طلبہ سے خاص طور پر روزانہ ریڈنگ کروانا ضروری ہےلیکن یہ سب پہلی سے تیسری چوتھی جماعت تک ہوسکتا ہے تاکہ انہیں ان باتوں کی مشق ہو جائے۔ بڑی جماعتوں میں نصاب مکمل کرنے کا دبائو زیادہ ہوتا ہے۔

urdu Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK