• Thu, 13 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

انفاق: ’’اپنا مال اپنے خداوند کے پاس رکھ کیونکہ جہاں تیرا مال رہے گا وہیں تیرا دل بھی رہے گا‘‘

Updated: November 12, 2025, 4:30 PM IST | Maulana Amin Ahsan Islahi | Mumbai

دنیا اور اسبابِ دنیا سے محبت کے سبب اللہ تعالیٰ سے جو غفلت  ہوتی ہے اس کا سب سے زیادہ مؤثر اور کارگر علاج انفاق فی سبیل اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا۔

It is a blessing of giving that the giver of the gift also establishes a proper connection with his society. Photo: INN
یہ انفاق کی برکت ہے کہ صاحب ِ انفاق کا اپنے معاشرے کے ساتھ بھی صحیح ربط قائم ہوجاتا ہے۔ تصویر: آئی این این
 دنیا اور اسبابِ دنیا سے محبت کے سبب اللہ تعالیٰ سے جو غفلت  ہوتی ہے اس کا سب سے زیادہ مؤثر اور کارگر علاج انفاق فی سبیل اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ ہم نے انفاق فی سبیل اللہ کی اصطلاح استعمال کی ہے، زکوٰۃ کی اصطلاح نہیں استعمال کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تزکیۂ نفس اور احسان کے نقطۂ نظر سے دین میں جس چیز کی اہمیت ہے وہ انفاق کی ہے، صرف زکوٰۃ کی نہیں ہے۔ زکوٰۃ تو وہ کم سے کم مطالبہ ہے جو اسلام میں ایک صاحب ِمال سے کیا گیا ہے، اسلام کا اصلی مطالبہ تو انفاق کیلئے ہے جو سراً (ڈھکے چھپے انداز میں) بھی ہو، اعلانیہ بھی ، تنگی میں بھی ہو ، فراخی میں بھی ہو، دوست اور عزیز کیلئے بھی ہو اور مخالف اور دشمن کیلئے بھی۔
زکوٰۃ ادا کردینے سے آدمی ضرور بَری ہوجاتا ہے، لیکن جہاں تک اللہ تعالیٰ کے مطالبہ کا تعلق ہے وہ صرف زکوٰۃ ادا کردینے سے پورا نہیں ہوتا بلکہ یہ اس وقت پورا ہوتا ہے جب آدمی اپنی اور اپنے   اہل و عیال کی ناگزیر ضروریات کے سوا ہر مصرف سے اپنا مال بچا کر اس کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے جتن کرے۔ جو شخص اس اہتمام سے اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہی درحقیقت انفاق کا اصلی حق ادا کرتا ہے اور وہی ہے جو اس زندگی میں روح کی بادشاہی کا جلوہ دیکھتا ہے اور آخرت میں اپنے رب کی خوشنودی کی جنت دیکھے گا۔  ذیل میں انفاق کی برکات یعنی فائدوں پر مختصراً گفتگو کی گئی ہے: 
اللہ تعالیٰ کے ساتھ حقیقی لگاؤ
انفاق کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ یہ آدمی کے دل کو خدا کے ساتھ اس طرح جوڑ دیتا ہے کہ اس کے لئے خدا سے غافل رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔آدمی کو مال سے جو محبت ہے اس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ وہ جس جگہ اپنا مال رکھتا ہے یا جس کام میں بھی اپنا سرمایہ لگاتا ہے اسی جگہ یا اسی کام کے ساتھ اس کا دل بھی اٹکا رہتا ہے۔ اگر وہ اپنا مال کسی مخفی جگہ میں دفن کرتا ہے تو اس کا دل ہر وقت اسی گوشے اور اسی خرابے میں  رہتا ہے، اگر وہ کسی بینک میں رکھتا ہے تو اس بینک کے ساتھ اس کا دل بندھ جاتا ہے، اگر کسی کاروبار یا کسی کمپنی میں پیسہ لگاتا ہے تو رات دن اس کاروبار یا کمپنی کی فکر اس کے سر پر سوار رہتی ہے۔ الغرض جہاں آدمی اپنا سرمایہ لگاتا ہے، تجربہ گواہی دیتا ہے کہ وہیں اس کا دل بھی رہتا ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں دیکھئے تو واضح معلوم ہوجاتا ہے کہ جو شخص اپنا مال خدا کے راستے میں خرچ کرے گا اس کا دل بھی خدا ہی کے ساتھ رہے گا کیونکہ اس کا مال خدا ہی کے پاس ہے چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ’’تو اپنا مال اپنے خداوند کے پاس رکھ کیونکہ جہاں تیرا مال رہے گا وہیں تیرا دل بھی رہے گا۔‘‘
معاشرے کے ساتھ حقیقی ربط
اس کی دوسری برکت یہ ہے کہ صاحب ِ انفاق کا اپنے معاشرے کے ساتھ بھی صحیح ربط قائم ہوجاتا ہے۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ چیز بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ فلسفہ  ٔ شریعت کے اعتبار سے یہ دین کی دو بنیادوں میں سے دوسری ہے۔ ایک بندے کے صحیح بندہ بننے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں: ایک یہ کہ رب کے ساتھ اس کا تعلق بالکل ٹھیک ٹھیک قائم ہوجائے، دوسری یہ کہ خلق کے ساتھ وہ صحیح طور پر مربوط ہوجائے۔ پہلی چیز آدمی کو نماز سے حاصل ہوتی ہے اور دوسری چیز انفاق سے حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ یہی رمز ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کا ذکر قرآن میں ساتھ ساتھ ہوا ہے اور سورۂ بقرہ کے شروع ہی میں نماز کے ساتھ جس دوسری چیز کا ذکر ہوا ہے وہ انفاق ہے، فرمایا گیا: ’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (البقرہ:۲)
یہ دونوں چیزیں درحقیقت وہ دو بنیادیں ہیں جن پر خلق اور خالق کے ساتھ آدمی کے سارے تعلقات کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یوں سمجھنا چاہئے کہ انہی دو چیزوں پر درحقیقت پورے دین و شریعت کی عمارت قائم ہے۔ پچھلے مذاہب میں بھی تمام نیکیوں کی جڑ انہی دو چیزوں کو  قرار دیا گیا تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام سے ایک  مرتبہ ان کے ایک شاگرد نے پوچھا کہ تمام نیکیوں کی جڑ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تو تمام دل و جان سے اپنے خداوند سے محبت کر اور دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے محبت کر۔ پھر فرمایا کہ انہی دو چیزوں پر تمام دین وشریعت قائم ہیں۔
پڑوسی سے محبت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس کے لئے اپنا مال خرچ کرے ، اس کے دکھ درد میں اس کا شریک بنے اور اس کی مشکلات میں اس کا ہاتھ بٹائے۔  
جس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا اولین  مظہر نماز ہے  اسی طرح اس کی مخلوق کے ساتھ محبت کا اولین مظہر انفاق ہے۔
گو ظاہر میں یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہیں لیکن ذرا گہری نظر سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے دوسری چیز درحقیقت پہلی چیز کا ثمرہ اور نتیجہ ہے۔ جو آدمی خالق  سے محبت کرے گا وہ اس کی مخلوق سے ضرور محبت کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اپنی عیال سے تعبیر فرمایا ہے۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ اگر اس کو کسی سے محبت ہوجائے تو اس کے متعلقین سے بھی محبت ہوجاتی ہے۔ اپنی اس فطرت کے تقاضے سے جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے وہ اس کی مخلوق سے بھی محبت کرنے لگتا ہے اور یہ محبت قدرتی طور پر خلق کی ہمدردی اور ان کے لئے مالی ایثار کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں انسان کو اللہ تعالیٰ سے جو محبت ہوتی ہے وہ اس کے جذبۂ شکرگزاری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ جب اپنی ذات اور اپنے گرد و پیش پر حقیقت پسندانہ نظر ڈالتا ہےتو ہر پہلو سے اپنے آپ کو خدا کی نعمتوں سے گھرا ہوا پاتا ہے۔ ان نعمتوں کا احساس اس کو ایک طرف تو اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ اپنے رب کی بندگی اور پرستش کرے ، چنانچہ اسی تحریک سے وہ نماز پڑھتا ہے اور پھر یہی جذبہ دوسری طرف اس کو اس بات پر ابھارتا ہے کہ جس طرح اس کے رب نے اس کے اوپر احسان فرمایا ہے اسی طرح وہ اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کے دوسرے بندوں پر احسان فرمائے۔
انفاق سے حکمت حاصل ہوتی ہے
انفاق کی تیسری برکت یہ ہے کہ یہ دین کے دوسرے تمام عقائد و اعمال کے لئے بمنزلہ غذا اور پانی کے ہے۔ اس سے آدمی کی وہ نیکیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں جو کمزور اور ناتواں ہوتی ہیں اور اس کے وہ عقائد مستحکم اور پائیدار ہوجاتے ہیں جو ابھی اچھی طرح دل میں راسخ نہیں ہوئے ہوتے ہیں۔ دین کے عقائد اور اعمال کا یہی رسوخ و استحکام ہے جس کو قرآن مجید میں حکمت سے تعبیر کیا گیا ہے اور قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکمت کے خزانہ کی کلید درحقیقت انفاق ہی ہے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ کے آخر میں انفاق کی برکتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ :
’’شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے  اور  اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، وہ جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔‘‘  (البقرہ: ۲۶۸۔۲۶۹)
یہ اس انفاق کی برکت بیان ہوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنے دل کو دین کے احکام پر جمانے کے لئے کیا جائے۔ چنانچہ اس کی تمہید یوں شروع ہوتی ہے: ’’اور جو لوگ اپنے مال اﷲ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے دل کو جمانے کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے  جو اونچی سطح پر ہو اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے۔‘‘  (البقرہ:۲۶۵) 
’’اپنے دل کو جمانے کے لئے‘‘ یعنی دل کی خواہشات کے علی الرغم وہ اپنے مال اس  لئے خرچ کرتے ہیں کہ ان کے لئے خدا کے احکام کی تعمیل اور اس راہ میں ہر قربانی آسان ہوجائے۔ جو لوگ اس مقصد سےمال خرچ کرتے ہیں ان کا صلہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ ان کو اپنی مغفرت اور اپنے فضل سے نوازتا ہے اور ساتھ ہی ان کو حکمت کا وہ خزانہ بھی عطا فرماتا ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔
(باقی آئندہ ہفتے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK