• Sat, 13 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

موسم بہار اور انسانیت کی صبح سعادت

Updated: September 28, 2023, 10:46 AM IST | Maulana Abdullah Hasani Nadwi | Mumbai

اس حقیقی بہار کی جانب آنے میں تاخیر کیسی جس کی کوئی انتہا نہیں، اس بہار سے لطف اندوز ہوں اور اس کے ذرہ ذرہ سے مستفید ہوں۔

Believe me, the person in whom the affection and love of the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him) has found a real spring. .Photo. INN
جس شخص کے اندر اللہ کے رسولؐ کی الفت و محبت گھر کر جائے یقین کیجئے اس کو حقیقی بہار مل گئی۔ تصویر:آئی این این

موسم بہار کا ہم پرجوش خیرمقدم اور اس کا استقبال کرتے ہیں، کیونکہ یہی وہ موسم بہار ہے جس کے اندر بلا کی جاذبیت اور غضب کی دلکشی ہے، اسی فصل بہار کی خنک ہوائیں انسان کے تپتے ہوئے جسم کو سکون بخشتی ہیں، طبیعت میں چھائی ہوئی افسردگی کو فرحت و انبساط سے بدل دیتی ہیں،  بادِ صبح گاہی کے خوشگوار جھونکے چلتے ہیں، نسیم سحر کی اٹھکھیلیوں سے دیوار و دراور  مہ و انجم  جھوم جاتے ہیں، اس موسم میں موسم سرما کی سختی اور موسم گرما کی جھلسا دینے والی سورج کی شعاعوں کا دور دور تک پتہ نہیں رہتا، دل پژمردہ میں جان پڑ جاتی ہے، ذوق انسانی کی سوکھی کھیتیاں لہلہا اٹھتی ہیں، آب و گل کا جادوئی  منظر اتنا دلکش اور اتنا پرفریب ہوتا ہے کہ لوح جگر میں پیوست ہوتا چلا جاتا ہے، نگاہوں میں جمتا چلا جاتا ہے اور آنکھوں میں بستا چلا جاتا ہے۔ پھر اس فصل بہار کی رعنائیاں، دلفریبیاں بڑھتی چلی گئیں، جاذبیت میں اضافہ ہوتا رہا، رونق و دلکشی روزافزوں ہوتی گئی، اس کی لذت و خوشنمائی دوبالا ہوتی چلی گئی۔ غرضیکہ پورے سال کا کوئی بھی موسم اور کوئی بھی ماہ اس کا ثانی اور ہم پلہ نہیں بلکہ یہ موسم ایسا دراز ہوا کہ ایک  نہیں دوماہ اس کے جلو میں آ گئے ، ربیع الاول اور ربیع الثانی۔ اس طرح بہاروں پر بہار آئی۔
 دوسری جانب قدرت نے اس کی دلکشی کو مزید دلکش کردیا، لالہ و گل، زمین و آسمان برکت کی برسات میں بھیگ گئے اور پوری کائنات نے رحمت کی آغوش میں اس وقت چین و سکون کی ٹھنڈی سانس لی جبکہ اس موسم میں رحمت ِ خداوندی جس کو اگر قلب و جگر کی بہار، جسم و قالب کی بہار، قوم و ملت کی بہار، معاشرہ و سماج کی بہار، پوری انسانیت کی بہار، بلکہ اس کو زمین و آسمان، شمس و قمر کی بہار سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
آپﷺ کی برکتوں اور رحمتوں کے چمن کا سب سے پہلا گل حلیمہ سعدیہ کے خزاں رسیدہ چمن میں کھلا جس نے ان کے لاغر و نحیف جسم اور کمزور و ناتواں اونٹنی کو دولت ِصحت سے مالامال کردیا اور شدائد سفر، تکالیف حضر کافور ہوگئیں۔ چمنستان محمدیؐ کا دوسرا پھول اس وقت کھلا جب کعبہ کی دیواریں منہدم ہونے کے بعد تعمیر ہوگئیں تو حجر اسود کو نصب کرنے کا سوال پیش ہوا۔ ہر شخص کہتا تھا کہ اس پتھر کو نصب کرنے کا شرف اسے حاصل ہو۔ قریب تھا کہ حرم مقدس خون سے لالہ زار ہوجائے اور جنگ و جدال کے شعلے بھڑکنے لگیں اور قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ صدیوں چلتا رہے، ایسے نازک اور پرہول ماحول میں آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو دیوار کعبہ میں نصب کرکے ایک زندۂ جاوید کارنامہ انجام دیا ۔ پھر آپؐ کی رحمت ’حلف الفضول ‘  کے موقع پر آشکارا  و ہویدا ہوئی جبکہ آپس میں خیر کے معاملہ میں پیش قدمی کرنے اور مظلوم کی مدد اور ظالم کا قلع قمع کرنے کا معاہدہ ہوا۔ اس کے بعد تو آپؐ کی رحمت کا ابر برسا اور برستا گیا ، روز بروز اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ جنّ و انس ، شجر و حجر سب کے سب دامن رحمت میں سما گئے:
آئے دنیا میں بہت پاک و مکرم بن کر
کوئی آیا نہ مگر رحمت ِ عالمؐ بن کر
 بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے
یہ سب پود اُنہی کی لگائی ہوئی ہے
آپؐ کی ولادت باسعادت اس فصل بہار میں ہوئی جس میں ایک طرف نہ ٹھنڈک کی شدت تھی اور نہ موسم گرما کی حدت، یہ معتدل ، کیف و مستی، سرور و شادمانی اور فرحت و انبساط کا موسم تھا، دوسری طرف اس وقت انسان کا چمکتا ہوا چہرہ ظلم و جہالت کی بادسموم کے تھپیڑوں سے مسخ ہوچکا تھا، افسردگی و پژمردگی چھا چکی تھی ، یاس و ناامیدی نے بسیرا کرلیا تھا اور اس کی پیشانی افراط و تفریط کی دلدل میں پھنسنے کی وجہ سے عرق آلود تھی۔
آپﷺ کی جسمانی ساخت میانہ رو تھی اور آپؐ اخلاق و کردار کے اعلیٰ معیار پر تھے ۔ میانہ روی آپؐ کی رگ و پے میں پیوست تھی، ترش روئی و کرختگی کا میلوں پتہ نہیں تھا، آپؐ کے جسم اطہر کا کیا کہنا، روح تو بس آپؐ کی روح ہے اور جسم تو بس آپؐ کا جسم تھا، اللہ اکبر! آپؐ کے پسینہ کے سامنے مشک و عنبر بھی ماند پڑ جائے، قامت جسم کو نہ ہی دست طوالت نے چھوا اور نہ پستی کی نظر بد لگی تھی۔ یہاں بھی سرمایۂ اعتدال نے حسن قامت میں چارچاند لگادیئے۔ آپؐ کے روئیں روئیں میں قیامت کی میانہ روی و بلا کا اعتدال تھا۔ آپؐ کی جسمانی قوت بھی افراط و تفریط جیسی مذموم و مکروہ صفات سے منزہ و مبرہ تھی۔
 اس امت پر اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم کے بے پناہ موتی برسائے اور بے شمار ہیروں کی بارش  نازل کی جس کا سب سے قیمتی اور نایاب ہیرا قرآن  مقدس ہے جس کے اندر اس امت کی وسطیت و اعتدال کا سامان موجود ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی ہے ۔ یہی وہ دامن اعتدال ہے جو امت مسلمہ کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اس سے دور ہونے کے بجائے اس کو پوری قوت سے تھام لے، اس زیور سے آراستہ ہو ، یہ اس کا اولین فریضہ ہے۔ اسی کے ساتھ اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ کے رسولؐ کے اخلاق سے مزین ہوجائے اور شریعت بیضاء کے بتائے ہوئے آداب و سنن سے اپنی زندگی کے بجھے ہوئے چراغ کو منور و تاباں کرے جس سے اس کے دل کی تاریک دنیا جگمگا اٹھے۔
 محمد ﷺ  محبوب کبریا اور خلیلِ خدا ہیں، آپؐ کا اسوہ اسوۂ حسنہ اور آپؐ کی سنت سنت ِ عادلہ ہے اور آپؐ کا راستہ شاہراہ کہے جانے کا مستحق ہے۔ آپؐ پر  نازل کردہ زندۂ جاوید کتاب ہمارے عقل و خرد کی بہار ہے اور اسی کا ہمہ گیر و متوازن نظام حیات ہمارے معاشرے اور ہماری سوسائٹی بلکہ پوری انسانیت کی بہار ہے۔  لہٰذا اس حقیقی بہار کی جانب آنے میں تاخیر کیسی جس کی کوئی انتہا نہیں، اس بہار سے لطف اندوز ہوں اور اس کے ذرہ ذرہ سے مستفید ہوں۔ محمد ﷺ ہی ہمارے راہنما اور آئیڈیل ہیں ، ہماری عزت و شرف کا تاج محل آپؐ کے دم سے قائم ہے۔ جس شخص کے اندر اللہ کے رسولؐ کی الفت و محبت گھر کر جائے ، اس کے راستہ میں اپنے آپ کو مٹا دے تو اس کو حقیقی بہار مل گئی اور اس نے ایمان کی حلاوت و چاشنی حاصل کرلی،  اور جس نے بھی طریقۂ محمدی سے روگردانی کی تو وہ برباد ہوگیا، تباہی و بربادی کے عمیق غار میں اوندھے منہ جاگرا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK