Inquilab Logo

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ برادران وطن کی آبادی کے مقابلے مسلم آبادی تیز رفتاری سے کم ہورہی ہے

Updated: February 25, 2024, 1:28 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اپنی تحقیقی کتاب’’دی پاپولیشن متھ:اسلام، فیملی پلاننگ اینڈ پولیٹکس ان انڈیا‘‘ میں مسلم آبادی سے متعلق کئی مفروضات کا مدلل جواب دیا ہے،۹؍ ابواب پر مشتمل یہ کتاب کئی لحاظ سے ایک قابل قدر اضافہ ہے۔

Former Chief Election Commissioner Shahabuddin Yaqoob Qureshi and his book. Photo: INN
سابق چیف الیکشن کمشنر شہاب الدین یعقوب قریشی اور ان کی کتاب کا عکس۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں  اضافے کو ہمیشہ کچھ اس طرح سے اور اس قدر مبالغے کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا ہے کہ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت کی طرح تسلیم کر لی گئی ہے۔ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں تاکہ اقلیت سے اکثریت میں تبدیل ہوجائیں اور ملک کے اقتدار پر قابض ہوجائیں ۔ اس طرح کے خیالات دائیں بازو کے گروہ پھیلاتے رہے  ہیں اور آج ان کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ آج ملک میں جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول ہے اس میں آبادی سے متعلق اس مفروضے کا بھی بڑا رول ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کی خود مسلمانوں کی جانب سے کوئ خاص اور موثر کوشش ہمیں نظر نہیں آتی۔
ان حالات میں ڈاکٹر ایس وائی قریشی کی کتاب’’دی پاپولیشن متھ:اسلام، فیملی پلاننگ اینڈ پولیٹکس ان انڈیا‘‘ (آبادی کا فسانہ: اسلام ، خاندانی منصوبہ بندی اورہندوستان میں سیاست) اس موضوع پر لٹریچر میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔  یہ کتاب سیکڑوں تحقیقی نکات اور حقائق کو کچھ اس طرح پیش کرتی ہے کہ کوئی بھی ذی فہم شخص مسلم آبادی کے تعلق سے کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہو سکتا،  لہٰذا  ۲۰۱۹ء میں جب ایک بڑے اشاعتی ادارے’ہارپر کولنس‘ نے یہ کتاب شائع کی تو اس کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ میڈیا نے اس کتاب کو موضوع بحث بنایا۔ قریشی صاحب  کے انٹرویوز اور کتاب پر بحث کے درجنوں پروگرام منعقد ہوئے۔ اسی طرح  ملک کے دانشور طبقے اور خصوصا پالیسی سازوں کو مسلم آبادی کے موضوع پرغور کرنے کا کا ایک نیا زاویہ ملا۔
شہاب الدین یعقوب قریشی سابق آئی اے ایس افسر ہیں اور ملک کے چیف الیکشن کمشنر جیسے اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس کتاب کے علاوہ دیگر۲؍ کتابوں کے مصنف ہیں۔ ملک و ملت کیلئے ایک دردمند دل بھی رکھنے کے ساتھ ہی اپنی بات کو سلیقے کے ساتھ پیش کرنے کے فن میں بھی مہارت رکھتے ہیں ۔ ٹی وی چینلوں پر اکثر مدعو کئے جاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر سوشل میڈیا کے ذریعہ بھی اپنے خیالات کا اظہار بے باکی کے ساتھ کرتے ہیں۔ گرچہ یہ کتاب بنیادی طور پراکیڈمک نوعیت کی ہے لیکن ایس وائی قریشی نے اپنے اسلوب کے ذریعہ اسے کافی حد تک دیگر قارئین کے لئے بھی قابل فہم بنا دیا ہے۔
 ہم پانچ ہمارے پچیس ! یہ جملہ اکثر ہم نے سنا ہے۔ عام لوگوں کے ذہنوں پر یہ تاثر گہرائی سے نقش  ہے کہ  مسلمانوں میں میں تعداد ازدواج بہت عام ہے۔ اور ان کی بڑھتی ہوئی آبادی کہ ایک بڑی وجہ بھی ہے کہ ان کی کئی بیویاں ہوتی ہیں۔ قریشی وضاحت کرتے ہیں کہ تعداد ازدواج  کا آبادی میں اضافے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  ہندوستان میں ’جینڈر ریشیو‘ یعنی صنفی تناسب عورتوں کے خلاف ہے ۔ فی ایک ہزار مردوں کے  مقابل عورتیں صرف ۹۲۴؍ ہی ہیں۔ ایسے میں دراصل تعدد ازدواج آبادی میں اضافے کا باعث بننا ممکن ہی نہیں ہے۔ پھردرحقیقت زمینی صورتحال بھی بالکل مختلف ہے۔ اسلام تعدد ازدواج کی مشروط اجازت دیتا ہے جبکہ ۱۹۵۵ء کے ہندو میرج ایکٹ کے مطابق ہندوؤں، سکھوں ، بودھوں اور جینیوں کیلئے ایک سے زائد شادیوں کی ممانعت ہے۔ اس کے باوجود تعدد ازدواج مسلمانوں میں سب سے کم ہے۔ حکومت ہند کی ۱۹۷۴ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اس معاملے میں باالترتیب قبائلی، بدھسٹ،جین اور ہندو ،مسلمانوں سے آگے ہیں۔
 مصنف نے ۱۹۵۱ء سے ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے اعداد وشمار  کے مطابق یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ ۱۹۸۱ء سے مسلسل مسلم آبادی میں نمو کی شرح کم ہو رہی ہے ۔ کمی کی یہ شرح  ہندو آبادی میں کمی کی  شرح سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم آبادی ہندوؤں کے مقابلے تیزرفتاری سے کم ہو رہی ہے۔ یہ حقائق عمومی پروپیگنڈے اور عوامی تاثر کو سختی سے رد کرتے ہیں۔کتاب میں ایک دلچسپ ریاضیاتی حساب ، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر دنیش سنگھ اور دیگر اساتذہ کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔ آبادی میں اضافہ اور دونوں گروہوں یعنی ہندو اور مسلمانوں کی حقیقی آبادی کے فرق کو دیکھتے ہوئے یہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ سیکڑوں برسوں کے بعد بھی اس بات کا امکان نہیں کہ محض آبادی میں اضافے کی وجہ مسلمان تعداد میں ہندوؤں سے بڑھ جائیں گے لہٰذ ا ہندوؤں میں پھیلایا جانے والا خدشہ  بالکل ہی غلط ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات ابھیجیت بنرجی بھی ایک تقریر میں اس خدشے کو بے بنیاد بتا چکے ہیں۔
 کتاب نہ صرف مفروضوں کی تردید پر توجہ مرکوز کرتی ہے بلکہ حکومت کی پالیسیوں اور متوازن آبادی کے ہدف کو حاصل کرنے کے منصوبے کی تاثیر کا تجزیہ کرکے ہندوستان میں آبادی پر قابو پانے کے ڈھانچے کی بھی وضاحت کرتی ہے۔اپنی اس تحقیقی کتاب کے ذریعہ مصنف نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مذہب کے بجائے دیگر عوامل جیسے غربت، خواتین کی حیثیت، طبی سہولیات کی عدم دستیابی اور کچھ دوسری معاشی اور سماجی محرومیاں ہیں جن پر کسی بھی گروہ کی آبادی میں اضافے کا انحصار ہوتا ہے۔ ہندوستان میں بھی خواندگی کی سطح، شادی کی عمر، ذرائع ابلاغ کی پہنچ اور اقتصادی عوامل جیسےکئی عوامل ہیں جن میں مسلمانوں کی نسبتاً پسماندگی ہندو اور مسلم کے درمیان آبادی کی تفریق کا باعث بنی ہے، لیکن پچھلی چند دہائیوں میں تعلیم کے فروغ اور معیار زندگی میں بہتری کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی شرح پیدائش میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
 کتاب خواتین کو بااختیار بنانے اور انہیں تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی فراہم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، کیونکہ وہ آبادی میں اضافے کے کلیدی محرک ہیں۔ قریشی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ اوپر سے نیچے کے طریقوں کے بجائے آبادی کے مسائل کیلئے غیرمرکزی، مقامی اور کمیونٹی پر مبنی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ مصنف نے مجموعی بہبود کو بہتر بنانے اور غربت کو کم کرنے کیلئے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال سمیت انسانی وسائل میں سرمایہ کاری کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
 کتاب میں ایک تفصیلی باب، فیملی پلاننگ اور اسلامی احکامات  کے عنوان سے ہے۔مصنف نے قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور معروف علمائے کرام کی آرا کے ذریعہ خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق اسلام کی پوزیشن کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیگر مذاہب اس ضمن میں کیا ہدایات دیتے ہیں، اس کی بھی وضاحت کی ہے۔ اس حوالے سے سعودی عرب ،انڈونیشیا اور مختلف مسلم ممالک کے حالات بیان کئے ہیں۔ آبادی سے متعلق  پالیسیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ایران اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں  خاندانی منصوبہ بندی پروگرام کی روداد بیان کی ہے۔
 کتاب کو نو ابواب کے تحت تقسیم کیا گیا ہے جو ایک دوسرے سے منطقی طور پر جڑے ہوئے ہیں تاکہ ہندوستان میں آبادی میں اضافے کی پیچیدہ نوعیت کی وضاحت کی جا سکے۔  مذہبی آبادی کے کثیر جہتی پہلوؤں کو انتہائی معروضی اور سائنسی طور پر دیکھا جا سکے۔ آبادی کے دھماکے پر بہت سی قابل ذکر اور علمی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن ایس وائی قریشی کی  یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ اعداد و شمار اور دلائل کو تقابلی تناظر میں رکھتی ہے۔ خاص طور پرمختلف مذاہب کے درمیان جس پر بہت کم کام ہوا ہے۔  روایتی خرافات کا پردہ فاش کرتے ہوئے ایس وائی قریشی آبادی کی حرکیات اور زرخیزی، ترقی کے انتخاب اور سیاست کے درمیان پیچیدہ باہمی تعلقات پر غور و فکر کے نتیجے کو پیش کرتے ہیں۔ یہ کتاب مسلم آبادی کے سلسلے میںمسلم افکار پر دستیاب موجودہ  لٹریچر میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK