Inquilab Logo

افسانوں کے شیدائیوں کیلئےاسٹوڈیو تماشا کا ریڈنگ سیشن

Updated: September 21, 2020, 9:29 AM IST | Mubasshir Akbar

نچیکیت دیوستھالی ، الکا شرما اور سپن سارن نےمنٹو کی چند غیر معروف کہانیوں کی ریڈنگ کی جبکہ اسلم پرویز نے ان کہانیوں پر روشنی ڈالی اور ان کی تفہیم میں سہولت پیدا کی

Story reading session
اسٹوری ریڈنگ سیشن

  ’تماشا تھیٹر ‘ کےنام   سے معروف، تھیٹر کمپنی گزشتہ تین برسوں سے ادب سے جڑی سرگرمیاں ، ثقافتی سرگرمیا ں اور مختلف زبان و ادب کے فن پاروں کوتھیٹر پر پیش کرنے کا کارنامہ انجام دے رہی ہے۔ یہ تھیٹر گروپ سنیل شان  باگ اور سپن سارن کی سرپرستی و نگرانی میں جاری ہے جبکہ اردو کے معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار اسلم پرویز بھی اس سے اہم رکن کے طور پر وابستہ ہیں۔ یہاں کہانیوں کی ڈرامائی ریڈنگ بھی ہوتی ہے ، ان کہانیوں کےکرداروں پر گفتگو ہوتی ہے اور ان کرداروں کی ہر پرت ،ہر تہہ کو کھنگالا جاتا ہے۔ گزشتہ ۳؍ سال سے یہ گروپ  ایک اسٹوڈیو میں اپنے پروگرام منعقد کرتا تھا لیکن  لاک ڈائون کی وجہ سے  ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے اسی لئے اب تماشا تھیٹر نے آن لائن طریقہ اپنالیا ہے اور زوم میٹنگ ایپ پر یہ پروگرام منعقد کیا جارہا ہے جس کے لئے معمولی فیس بھی رکھی گئی ہے تاکہ لوگ اس میں شامل ہونے کی اہمیت کو بھی سمجھیں اور کہانیوں کی ریڈنگ سے بھی پوری طرح لطف اندوز ہوں۔  اس گروپ نے اب تک متعدد ادیبوں کی کہانیوں کے ریڈنگ سیشن منعقد کئے ہیں جن میں اردو کے بھی متعدد افسانے شامل ہیں۔ ان میں سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی اکثریت ہے۔ افسانوں کے شیدائیوں کے لئے یہ گروپ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے کیوں کہ یہاں پرنہ صرف افسانوں کی ریڈنگ ہو تی ہے بلکہ ان کی تفہیم کا انتظام بھی کیا جاتا ہے ۔
  اس بارے میں اسلم پرویز کہتے ہیں کہ اردو افسانے میں منٹو کی حیثیت ایک استعارے کی ہے۔ اس نے اردو افسانے کو کئی شاندار اور جاندار کردار عطا کئے ہیں ۔اس کا تخلیق کیا ہوا ہر کردار اپنی منفرد داخلی و خارجی جہت رکھتا ہے۔یوں تو منٹو نے مردانہ کردار بھی خلق کئے ہیں اور نسوانی کردار بھی لیکن منٹو کی دلچسپی مردانہ کرداروں کے مقابلے میں نسوانی کرداروں میںزیادہ رہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ منٹو کی کہانیوں کے اکثر نسوانی کردار متنازع رہے ہیں مگر انہیں مقبولیت بھی اتنی ہی حاصل ہوئی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ تماشا تھیٹر نے ’اردو ہے جس کا نام ‘  کے عنوان سے منٹو کی کہانیوں کے نسوانی کرداروں پر ایک سیشن منعقد کیا ۔  اس سیشن  میں ’زوم ایپ انوائٹ‘ کے ذریعے راقم نے بھی شرکت کی اورتماشا اسٹوڈیوکے اراکین کی کاوشوں کو دیکھا   ۔ 
 اسٹوڈیو تماشا کی روح رواںسپن سارن  نے بتایا کہ  اردو ریڈنگ کا ان کا پروگرام ہمیشہ سب سے مقبول رہتا ہے  اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسے آن لائن بھی  جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ اس  طرح  کے پروگراموں میں ہرچند کہ ابتدا میں اردو والوں کی شرکت کم رہی لیکن بعد میں اس میں تھوڑا اضافہ ضرور ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ صرف اردو والے ہی نہیں بلکہ جب ہم دیگر زبانوں کا کوئی پروگرام کرتے ہیں تب بھی یہی حال رہتا ہے لیکن جیسے جیسے لوگوں کو معلوم ہو تا کہ اس معیار کا کوئی پروگرام منعقد کیا جارہا ہے تو پھر وہ شرکت بھی کرتے ہیں۔  
  مذکورہ سیشن میں نچیکیت دیوستھالی ،  الکا شرما  اور خود  سپن  نے منٹو کی چند غیر معروف لیکن  عورت کے کردار کے ارد گرد گھومتی کہانیوں کی ریڈنگ کی  جبکہ اسلم پرویز نے ان کہانیوں میں موجود عورتوں کے کردار پر روشنی ڈالی اور ان کی تفہیم میں سہولت پیدا کی ۔ اسلم پرویز اس سیشن کے روح رواں بھی تھے اور پروگرام کا پورا خاکہ بھی انہوں نے ہی تیار کیا تھا ۔ اس سے قبل  جہانوی شریمنکر نے اردو زبان کومنظوم خراج تحسین پیش کیا۔ ہر چند کہ یہ آن لائن سیشن تھا لیکن کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم کہانی سننے کے لئے کسی آن لائن میڈیم کا سہارا لے رہے ہیں بلکہ محسوس ہوا کہ آمنے سامنے بیٹھ کر کہانیاں سن رہے ہیں۔ اسٹوڈیو تماشا کا یہ سیشن اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل رہا کہ اردو  افسانے پرغالباً  پہلی مرتبہ اس طرح کا آن لائن پیڈ سیشن رکھا گیا تھا جس کی کافی پذیرائی ہوئی اور متعدد افراد نے اس سیشن سے استفادہ کیا۔ ۹۰؍ منٹ تک جاری رہنے والے سیشن  کے دوران ۳؍ کہانیاں پڑھی گئیں جبکہ ۳؍ نظموں کی قرأت کی گئی ۔ اسلم پرویز نے منٹو کے فن پر اپنی دسترس کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر کہانی کے اختتام پر اس کے کرداروں سے متعلق سیر حاصل گفتگو کی اور اس کے پس منظر اور پیش منظر کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی ۔ یاد رہے کہ اگلے ماہ اسٹوڈیو تماشا کا ایک اور سیشن منعقد کیا جائے گا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK