انسان کی علمی استعداد کا انحصار مطالعہ پر ہے۔ جتنا زیادہ مطالعہ وسیع ہوگا اُتنی ہی علمی استعداد میں پختگی ہوگی۔
EPAPER
Updated: April 28, 2023, 1:33 PM IST | Mufti Muhammad Aslam Jami | Mumbai
انسان کی علمی استعداد کا انحصار مطالعہ پر ہے۔ جتنا زیادہ مطالعہ وسیع ہوگا اُتنی ہی علمی استعداد میں پختگی ہوگی۔
انسان کی علمی استعداد کا انحصار مطالعہ پر ہے۔ جتنا زیادہ مطالعہ وسیع ہوگا اُتنی ہی علمی استعداد میں پختگی ہوگی۔ اسی لئے جذبہ مطالعہ کو آفرید کرنے کے لئے اسلاف کی سوانح حیات کے مطالعہ کی ترغیب دی جاتی ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہے وہ بلندیوں کو دیکھ کر بلند ہونا چاہتا ہے جبکہ پستیوں میں رہ کر اس کی خدا داد صلاحیتوں کی وسعتیں سمٹنے لگتی ہے۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے والے شاہین کا نظارہ ہی کسی شجر بلند کی شاخ پر نشیمن بنانے کا جذبہ ابھارتا ہے۔ اولوالعزم اور باہمت رجال کی داستانوں کے مطالعہ سے انسان کے اندر عزم، ہمت اور حوصلہ و جرأت کا بیج پیدا ہوتا ہے اور خاکستر میں دبی ہوئی چنگاریاں فروزاں ہوتی ہیں۔
حضرت مولانا قاری عبدالستار فرماتے ہیں کہ علم میں ترقی اور مضبوط استعداد پیدا کرنے کیلئے مطالعہ اور کتب بینی نہایت ضروری ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جتنے لوگ علمی میدان میں بامِ عروج پر پہنچے ہیں وہ مطالعہ کی راہ ہی سے پہنچے۔ بدونِ مطالعہ نہ استعداد پیدا ہوسکتی ہے اور نہ ہی علم میں کمال آسکتا ہے۔
امام بخاریؒ سے پوچھا گیا کہ حفظ کی دوا کیا ہے؟ فرمایا کتب بینی۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒمطالعے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مطالعے کی مثال ایسی ہے جیسے کپڑا رنگنے کے لئے پہلے دھویا جاتا ہے، پھر رنگ کے مٹکے میں ڈالا جاتا ہے۔ اگر پہلے دھویا نہ جائے تو کپڑے پر داغ پڑجاتے ہیں اسی طرح مطالعہ نہ کیا جائے تو مضمون اچھی طرح سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک جگہ فرمایا کہ مطالعہ مفتاحِ استعداد ہے اور اسی کی برکت سے استعداد اور فہم پیدا ہوتی ہے۔ ابو القاسم اسماعیل بن ابو الحسن عباد کو خلیفہ نوح بن منصور نے وزارت کی درخواست کی، تو ابو القاسم نے جواباً لکھا کہ مجھے وزارت سے معاف رکھئے، کتابوں کے مطالعے ہی میں مجھے وزارت کیا بادشاہی کا مزہ آرہا ہے۔ (انوار المطالع فی ہدایات المطالع جدید ، ص۱۷)
مطالعہ سے ذہن کھلتا ہے، نتائج سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، دانائی کی باتوں سے مطلع ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے، فصیح اللسانی عطا ہوتی ہے، غور و فکر کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے، علم میں ثبات و پختگی ہوتی ہےاور شبہات ختم ہوتے ہیں۔ مطالعہ انسان کو مکدر خیالات میں مبتلا ہونے سے بچاتا ہے، تنہائی کا غم دور ہوتا ہے اور تحریر و تقریر میں شگفتگی و جاذبیت پیدا ہوتی ہے۔
مولانا عبید اختر رحمانی شوقِ مطالعہ پیدا کرنے کے تئیں تحریر فرماتے ہیں کہ شوق بڑی چیز ہے اور شوق کے تیشے سے مشکلوں اور رکاوٹوں کا پہاڑ کھودکر جستجو کی جوئے شیر نکالی جاسکتی ہے لیکن لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ شوق کیسے پیدا ہو؟ اصل بات تو یہ ہے کہ علم کا شوق، علم سے محبت ایک فطری اور وہبی عطیہ ہے لیکن شوق پیدا کرنے کے کچھ مادی اسباب و وسائل بھی ہیں۔ اس کا سب سے موثر طریقہ یہی ہے کہ صاحبان عزم و ہمت کی سوانح اور تراجم کو پڑھا جائے، ان کی سیرت و زندگی اور اخلاق و کردار کا مطالعہ کیا جائے ، یہ معلوم کیا جائے کہ علم کی شمع بننے میں کتنی بار پروانوں کی طرح جلنا پڑا، علم و فضل کا آفتاب و ماہتاب بننے کیلئے رکاوٹوں اور مشکلات نیز صبر آزما اور جاں گسل آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، ان پر کیسے کیسے سخت لمحات آئے اور انہوں نے کس طرح مشکلات و مصائب کا سامنا کیا اور اپنی منزل پر پہنچ کر دم لیا۔ انسان آسمان علم کے جگمگاتے ستاروں یعنی ائمہ مجتہدین،فقہاء،علماء، محدثین، قراء، مجاہدین، صاحب عزم و عزیمت کے احوال پڑھتا ہے تو اس کے دل میں بھی ویسا ہی بننے کی اور کچھ کر دکھانے کی امنگ لہریں لینے لگتی ہے اور یہی شوق کا پہلا مرحلہ ہے۔علماء اور ائمہ نے ذوق وشوق پیدا کرنے میں بزرگوں کے واقعات کو بہت ہی مؤثر مانا ہے ۔ یہ نفسیاتی حقیقت بھی ہے اور بزرگوں کا ارشاد بھی کہ ذوق و شوق پیداکرنے، حوصلہ اور عزم بیدار کرنے کیلئے بزرگوں کے واقعات، علماء کے حالات، محدثین اور صاحبان عزم وعزیمت کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔
دور حاضر میں اس موضوع پر کئی اچھی کتابیں لکھی گئی ہیں، مثلاً، مولانا نواب حبیب الرحمن خان شروانی کی لکھی ہوئی ”علماء سلف“ اور ”نابینا علماء“ شوق وامنگ پیدا کرنے کیلئے بہت اچھی کتاب ہے۔ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے تو علمائے سلف کو اپنی محسن کتابوں میں شمار کیا ہے۔
دور حاضر میں شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کے قلم سے منصئہ شہود پر آنے والی کتابیں قيمة الزمن عند العلماءاور صفحات من صبر العلماء على شدائد العلم والتحصيلبھی اس باب میں لا جواب ہیں۔ اس کے علاوہ سیر اعلام النبلاء، تذكرة الحفاظ، وفيات الاعيان، طبقات الشافعيه للسبکی اور تذکرہ و تراجم کی دیگر کتابیں پڑھنی چاہئیں، اس سے ایک طرف جہاں ہم اپنے اکابر اسلاف کی سیرت و سوانح سے واقف ہوں گے، وہیں ہم میں بھی ان جیسا بنے کا شوق اور ولولہ پیدا ہوگا۔
( یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ، مطالعہ کے اصول و آداب،ص ۸۰۷ ۔مصنف مولانا ابن الحسن عباسی ؒ )