Inquilab Logo

ایسا بحران اور ایسی خاموشی

Updated: June 11, 2022, 11:39 AM IST | Mumbai

ایک طرف مہنگائی، بے روزگاری، معیشت کی زبوں حالی اور دیگر سنگین مسائل ہیں تو دوسری طرف نپور شرما اور نوین جندل کا پیدا کردہ تنازع۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ایک طرف مہنگائی، بے روزگاری، معیشت کی زبوں حالی اور دیگر سنگین مسائل ہیں تو دوسری طرف نپور شرما اور نوین جندل کا پیدا کردہ تنازع۔ حکومت کو دونوں ہی سے نمٹنا ہے۔ دونوں ہی کا قابو سے باہر ہونا حکومت کی ساکھ کیلئے نقصان دہ ہے۔ ایک طرف عوام کی پریشانی اور مسلسل پریشانی ہے تو دوسری طرف اقلیتوں اور سرودھرم سمبھاؤ میں یقین رکھنے والے ہندوستانی شہریوں کا کرب اور متعدد ملکوں کا احتجاج ہے۔ ارباب ِاقتدار نے پہلے تو سوچا ہوگا کہ نپور اور نوین کا معاملہ بڑھا تو مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ سے عوام کی توجہ ہٹائے رکھنے کا ایک اور بہانہ میسر آجائیگا۔ شاید اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ مسلم ممالک آگ بگولہ ہوجائینگے۔ جب ان کا شدید ردعمل سامنے آنے لگا تو حکومت فکرمند ہوئی، اس نے متعلقہ ملکوں میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کیا اور اُنہیں، اُن ملکوں کی حکومتوں کو یہ سمجھانے پر مامور کیا کہ ہندوستان ایک تکثیری سماج ہے جہاں ہزاروں سال سے الگ الگ مذاہب کے ماننے والے مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ اس سلسلے میں ملک کے سیکولر نظریات اور سیکولر آئین کا بھی حوالہ دیا گیا مگر ردعمل ظاہر کرنے والے ملکوں کی تعداد کے بڑھنےاور ۱۶؍ تک پہنچ جانے کے سبب حکومت کی پریشانی بھی بڑھ گئی۔ اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ہندوستان کی جو رُسوائی ہوئی ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ملک کے سینئر لیڈر سیتا رام یچوری نے ایک بیان میں کہا کہ ہندوستان کو اس قسم کے بحران کا کبھی سامنا نہیں رہا۔  اپنی شبیہ کے تعلق سے فکرمند ہونے کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ، حکومت کو اب بھی اُمید ہے کہ سفارتی سطح پر اس بحران سے نمٹ لیا جائیگا۔ ہم یہ گمان اس بنیاد پر قائم کررہے ہیں کہ نپور شرما کو معطل کرنے اور نوین جندل کو پارٹی سے نکالنے کے علاوہ جمعرات تک کوئی اور قدم نہیں اُٹھایا گیا تھا۔ جمعرات کو ۳۲؍ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جن میں نپور اور جندل کے علاوہ یتی نرسمہا نند، پوجا شکون پانڈے کے نام ہیں۔ اسی ایف آئی آر میں حیرت انگیز طور پر اسدالدین اویسی اور صبا نقوی کے بھی نام ہیں۔ شاید یہ نام اُن مشتعل ہندوتوا وادیوں کو بہلانے پھسلانے یا اعتماد میں لینے کیلئے ہیں جو سابق ترجمان نپور اور نوین کے خلاف ہونے والی کارروائی پر ’’سچے ّہندوتوا وادی‘‘ ہونے کا ثبوت دینا چاہتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بی جے پی اور حکومت کے خلاف ناراضگی ظاہر کررہے ہیں۔ ہمارا یہ قیاس کہ حکومت اب بھی پُر اُمید ہے اس امر سے بھی تقویت پاتا ہے کہ اب تک پارٹی یا حکومت کے کسی اہم عہدیدار نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ اتنے بڑے بحران پر، جو بڑے نقصان کا باعث بنا اور جس کی وجہ سے ہماری عالمی ساکھ مجروح ہوئی، حکومت کے اہم وزراء اور بی جے پی کے اہم لیڈروں کی خاموشی نئی نہ ہونے کے باوجود حیرت انگیز ہے۔ یہ وقت تھا کہ عوام کو اعتماد دلاتے ہوئے کہا جاتا کہ پارٹی کے خاطی ترجمانوں کے خلاف ابتدائی کارروائی کی گئی ہے، مزید کارروائی ہوگی، متنازع بیان سے حکومت اور پارٹی کا تعلق نہیں ہے، حکومت اور پارٹی ایسے کسی بیان کو درست نہیں مانتے، یہ ملک مذاہب عالم کے احترام میں یقین رکھتا ہے اور ملک کی مذہبی اقلیتوں کو مطمئن رہنا چاہئے کہ حکومت اُن کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں ہونے دے گی۔ یہ بیان ضروری تھا مگر ندارد ہے۔ اتنے نقصان کے باوجود ایسی خاموشی نہایت تکلیف دہ اور افسوسناک ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK