Inquilab Logo

ایسے لوگوں کو جوغزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرسکے،قرآن نے متخلفین کہا ہے

Updated: December 01, 2023, 1:22 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں غزوۂ تبوک کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں پڑھئے کہ آپؐ سے فرمایا گیا کہ جب یہ منافقین عذر پیش کرنے کے لئے آپ کے پاس آئیں تو آپ ان سے فرمادیں کہ فضول جھوٹے عذر نہ کرو، ہم تمہاری بات کی تصدیق نہیں کرینگے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے تمہارے تمام حالات، تمام خیالات، دلوںمیں چھپی ہوئی تمہاری خباثتیں اور تمہارے ارادے سب کچھ ہم پر ظاہر کردیئے ہیں۔

A view of the exterior of the Prophet`s Mosque where pilgrims can be seen walking towards the mosque. Photo: INN
مسجد نبویؐ کے بیرونی حصے کا ایک منظر جہاں زائرین کو مسجد کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر : آئی این این

بیس دن تبوک میں قیام کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی افواج کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف واپسی کا قصد فرمایا۔ مدینے کے لوگوں کو آپ کی واپسی کی خبر ملی تو بڑے بچے اور عورتیں سب کے سب استقبال کے لئے باہر نکل آئے، بچیوں نے ثنیۃ الوداع کے مقام پر استقبالیہ گیت گائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے مسجد تشریف لے گئے، دو رکعت نماز ادا فرمائی اور لوگوں کے پاس تشریف فرما ہوئے۔ اس موقع پر وہ لوگ حاضر خدمت ہوئے جو مختلف اسباب کی بنا پر تبوک نہیں جاسکے تھے، یہ چار طرح کے لوگ تھے، کچھ لوگ وہ تھے جن کو کوئی شرعی عذر تھا اور و اپنے اس عذر کی وجہ سے تبوک نہیں گئے تھے، کچھ لوگ وہ تھے جن کو کوئی شرعی عذر نہیں تھا وہ جاسکتے تھے مگر نہیں گئے، کچھ دیہات کے رہنے والے منافقین تھے، یہ لوگ بھی نہیں گئے تھے اور کچھ مدینہ کے رہنے والے منافقین بھی نہیں گئے تھے، یہ تمام لوگ حاضر ہوئے۔ انہوں نے اپنے نہ جانے کی وجوہات بیان کیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کے معاملات اللہ کے حوالے کردئے کہ وہی تم لوگوں کا فیصلہ کرنے والاہے۔
شرعی عذر رکھنے والے متخلفین
ایسے لوگوں کو جو غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرسکے قرآن کریم نے متخلفین کہا ہے، جو لوگ کسی شرعی عذر کی وجہ سے نہیں گئے، قرآن کریم کی سورۂ توبہ میں ان کے متعلق حسب ذیل دو آیتیں نازل ہوئیں :
’’کمزور لوگوں پر (جہاد میں نہ جانے کا)کوئی گناہ نہیں ، نہ بیماروں پر، اور نہ ان لوگوں پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے، جب کہ وہ اللہ اور اس کے لئے مخلص ہوں ، نیک لوگوں پر کوئی الزام نہیں ، اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے، اور نہ ان لوگوں پر(کوئی گناہ ہے) جن کا حال یہ ہے کہ وہ جب تمہارے پاس اس غرض سے آئے کہ تم انہیں کوئی سواری مہیا کردو اور تم نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر میں تمہیں سوار کرسکوں تو وہ اس حالت میں واپس گئے کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسوؤں سے بہہ رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘(التوبۃ: ۹۱، ۹۲) 
ان دونوں آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین لکھتے ہیں کہ کم زوروں سے مراد یہاں عمر رسیدہ لوگ بھی ہیں اور بچے بھی، بعض لوگوں نے کم عقلوں کو بھی اس میں شامل کیا ہے، یہ لوگ حقیقت میں معذور تھے،ان میں کچھ اپنی عمر کی اس منزل میں تھے کہ ان سے سفر کرنا دشوار تھا اور اگر کسی طرح گرتے پڑتے وہ وہاں پہنچ بھی جاتے تو تلوار اٹھانا ان کے بس کی بات نہیں تھی، بعض حضرات نابینا تھے، بہت سے لوگ ایسے تھے جو جہاد میں جانے کے لئے بے قرار تھے مگر ان کے پاس سواری کا انتظام نہیں تھا، سفر طویل تھا، اور موسم گرم تھا، اس صورت میں پیدل چلنا بے حد مشکل تھا،ایسے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر بھی ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ اس غزوے میں جانے کا شوق رکھتے ہیں مگر ہمارے پاس سواری نہیں ہے۔ آپؐ کے پاس بھی کوئی اونٹ یا گھوڑا انہیں دینے کے لئے نہیں تھا، آپؐ نے معذرت کردی، ایسے لوگ نہایت افسردہ ہوکر واپس ہوئے، بعض لوگ تو رونے بھی لگے، اتنے میں چھ اونٹ آپؐ کے پاس آگئے، آپؐ نے یہ اونٹ ان کو بلا کر دے دیئے، ایک مالدار صحابی نے ان حضرات کو روتے ہوئے دیکھا تو ان کے لئے سواری کا انتظام کردیا، تین آدمیوں کے لئے سواری کا انتظام حضرت عثمانؓ نے کردیا، حالاں کہ اس سے پہلے وہ بڑی تعداد میں اونٹ دے چکے تھے۔ 
اس کے باوجود بھی کچھ لوگ باقی رہ گئے، جن کےلئے سواری کا انتظام نہ ہوسکا، حالاں کہ وہ دل سے چاہتے تھے کہ اس غزوے میں شریک ہوں ، اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے، اس لئے ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوا، بلکہ اللہ نے ان کا عذر قبول فرمالیا۔ (تفسیر الطبری: ۱۰/۲۱۱، تفسیر القرطبی: ۸/۲۲۶)
منافقین کا عذر لنگ
حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جد بن قیس ؓ صحابی کو جہاد میں نہ جانے کی اجازت دے دی تو چند منافقین خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور کچھ حیلے بہانے پیش کرکے جہاد میں نہ جانے کی اجازت مانگی، آپؐ نے اجازت تو دے دی، لیکن یہ بھی سمجھ گئے کہ یہ لوگ جھوٹے عذر کررہے ہیں ، قرآن کریم نے ایسے لوگوں کو درد ناک عذاب کی سزا سنائی ہے، بعض منافقین وہ بھی تھے جنہوں نے اتنی دیدہ دلیری دکھائی کہ وہ جہاد میں نہ جانے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے بھی نہیں آئے، البتہ جب آپؐ واپس تشریف لے آئے تو معذرتیں پیش کرنے کے لئے آگئے، اس سلسلے میں سورۂ توبہ کی آیات نمبر ۹۴؍ تا ۹۶؍ میں ان منافقین کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین حکم دیئے گئے:
پہلا حکم تویہ ہے کہ جب یہ منافقین عذر پیش کرنے کے لئے آپ کے پاس آئیں تو آپ ان سے فرمادیں کہ فضول جھوٹے عذر نہ کرو، ہم تمہاری بات کی تصدیق نہیں کریں گے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ہمیں تمہارے تمام حالات، تمام خیالات، تمہاری تمام شرارتیں اور دلوں میں چھپی ہوئی تمہاری خباثتیں اور تمہارے ارادے سب کچھ ہم پر ظاہر کردیئے ہیں ، اس سے تمہارا جھوٹاہوناہم پر واضح ہوگیاہے،اس لئے عذر بیان کرنا فضول ہے،اس آیت میں ان کو مہلت بھی دی گئی ہے کہ اب بھی وقت ہے، توبہ کرکے نفاق چھوڑ سکتے ہو اورسچّے پکّے مسلمان بن سکتے ہو، آئندہ اللہ اور اس کے رسول تمہارا اعمال دیکھیں گے کہ وہ کیسے ہیں ، انہی کے مطابق تمہارا فیصلہ ہوگا، اگر تم توبہ کرکے سچّے پکّے مسلمان بن گئے تو تمہارے گناہ معاف ہوجائیں گے، ورنہ یہ جھوٹے حیلے بہانے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ 
دوسرا حکم دوسری آیت میں دیا گیا ہے کہ یہ لوگ آپؐ کی واپسی کے بعدجھوٹی قسمیں کھا کرآپؐ کو مطمئن کرنا چاہیں گے، ان کا مقصد اس سے یہ ہوگا کہ آپؐ ان کی اس غیر حاضری کو نظر انداز کردیں ، اس پر ملامت نہ کریں ، آپ ان کی یہ خواہش پوری کردیں ، ان کو ملامت نہ کریں ، نہ ان کو سرزنش کریں ، تاہم ان سے اچھے تعلقات بھی نہ رکھیں ، کیوں کہ ملامت سے توکوئی فائدہ نہیں ، جب ان کے دل میں ایمان ہی نہیں ہے اور اس کی طلب وخواہش بھی نہیں تو انہیں ملامت کرنے سے کیا فائدہ، فضول اپنا وقت کیوں ضائع کیا، اور ان سے اچھا تعلق رکھنے میں یہ نقصان ہے کہ یہ منافق ہیں ، بلکہ درحقیقت کافر ہیں ، اہل کفر ونفاق سے دوستی نقصان دہ تو ہوسکتی ہے نفع بخش نہیں ہوسکتی۔
تیسرا حکم تیسری آیت میں یہ ہے کہ یہ لوگ قسمیں کھا کر آپؐ کو اور مسلمانوں کو راضی کرنا چاہیں گے، اس کے متعلق حق تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمادی ہے کہ ان کی یہ خواہش پوری نہ کی جائے، آپؐ ان سے راضی نہ ہوں ، اور یہ بھی فرما دیا کہ بالفرض آپؐ راضی بھی ہوگئے تو ان کو کوئی فائدہ اس لئے نہیں ہوگاکہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہیں ہے، اور اللہ کیسے راضی ہوسکتا ہے جب کہ یہ کفر ونفاق پر قائم ہیں ۔ (معارف القرآن: ۴/۴۴۴، ۴۴۵) 
متخلفین صحابہؓ
بعض صحابۂ کرامؓ بھی بلاعذر پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھے، ان میں سے بعض حضرات صحابہؓ کو غلطی کا احساس ہوا اور وہ بعد میں روانہ ہوئے، جیسے حضرت ابوذرغفاریؓ بعد میں نکلے، دراصل ان کا اونٹ انتہائی لاغر اور کمزور تھا، انہیں خیال ہوا کہ کچھ دنوں میں وہ کھا پی کر سفر کرنے کے قابل ہوجائے گا تب میں حضور سے جاکر مل لوں گا، لیکن جب اونٹ کی طرف سے مایوس ہوگئے تب کمر پر سامان لاد کر پیدل ہی نکل کھڑے ہوئے، اور تن تنہا تبوک جا پہنچے،ان کا پورا قصہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے، اسی طرح حضرت ابو خیثمہؓ کا قصہ بھی گزرا ہے کہ ایک دن انہیں خیال آیا کہ حضورؐ گرمی کے موسم کی سختی برداشت کررہے ہیں اور میں یہاں ٹھنڈے کمروں میں آرام کررہا ہوں ، اس خیال کے بعد انہوں نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا، اونٹ پر سامان رکھا اور روانہ ہوگئے، یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تبوک میں جاکر ملے۔
کچھ ایسے حضرات صحابہؓ بھی لشکر میں شامل نہ ہوپائے تھے، جنہیں بہ ظاہر کوئی عذر نہیں تھا، بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لائے تب یہ حضرات ندامت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے کوئی عذر نہیں تراشا، نہ کوئی حیلہ بہانہ کیا، بلکہ سچے دل سے یہ اعتراف کرلیا کہ ہم بغیر کسی عذر کے نہیں گئے، ہم جاسکتے تھے، ہمیں جانا چاہئے تھا، یہ ہماری بڑی غلطی ہے اور ہم اس پرانتہائی شرمندہ ہیں ، صحیحین میں ان حضرات میں سے تین کے نام بھی آئے ہیں ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت ہلال بن امیہؓ،اور حضرت مرارۃ بن الربیعؓ، چنانچہ ان کے بارے میں سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۱۱۸؍ بھی نازل ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا معافی نامہ قبول نہیں فرمایا، بلکہ ان سے اعراض فرمایا اور صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہ ان سے دور رہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK