Inquilab Logo

ثناء خوان تقدیس مشرق کیلئے لمحۂ فکریہ

Updated: January 16, 2024, 1:57 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بعض واقعات اتنے اندوہناک ہوتے ہیں کہ ذہن ماؤف ہوجاتا ہے اور یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں رہتا کہ ان پر ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہئے۔ گوا کی ایک لرزہ خیز واردات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سمجھ

Suchna Seth, the female CEO of Bangalore. Photo: INN
بنگلور کی خاتون سی ای او سوچنا سیٹھ ۔تصویر : آئی این این

بعض واقعات اتنے اندوہناک ہوتے ہیں  کہ ذہن ماؤف ہوجاتا ہے اور یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں  رہتا کہ ان پر ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہئے۔ گوا کی ایک لرزہ خیز واردات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سمجھ میں  نہیں  آتا کہ اپنے چار سالہ بیٹے کا گلا گھونٹ دینے والی اُس خاتون کو، جو خود کو ایک اسٹارٹ اَپ کی سی ای او کہتی ہے، قابل نفریں  تصور کیا جائے یا قابل ہمدردی۔ ذہن کہتا ہے کہ وہ قابل نفریں  ہے اور اُسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے۔ دل کہتا ہے کہ ایک ماں  اپنی سگی اولاد کو کبھی اِس انجام تک نہیں  پہنچا سکتی، یقیناً وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ چکی ہوگی اور شوہر سے انتقام لینے کی غرض سے اُس نے ایسا قدم اُٹھایا ہوگا، جیسا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران اُس نے پولیس کو بتایا ہے۔مگر، یہ یاد رہے، وہ کوئی مظلوم عورت نہیں  ہے جس نے ظلم سے تنگ آکر بیٹے کو قتل کردیا اور پھر خود بھی موت کو گلے لگانے والی تھی۔ وہ کسی سنگین بیماری میں  مبتلا خاتون بھی نہیں  تھی جسے مستقبل میں  اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔ وہ نہایت غریب عورت بھی نہیں  تھی جو معاشی تنگی اور فاقہ کشی سے عاجز آکر اپنے بچوں  کو موت کی نیند سلا کر خود بھی اس دُنیا سے رخصت ہوجاتی ہے۔وہ خاصی تعلیم یافتہ اور خود کفیل عورت ہے۔ شوہر سے تعلقات خراب ہونے کے بعد طلاق کا کیس عدالت میں  زیر سماعت تھا۔ عدالت نے شوہر کو یہ اجازت دی کہ وہ مہینے میں  ایک مرتبہ بیٹے سے مل سکتا ہے تو اُس سے برداشت نہیں  ہوا۔ وہ نہیں  چاہتی تھی کہ اُس کا شوہر بیٹے سے ملے۔ اسی مقصد سے اُس نے پہلے تو بیٹے کا گلا گھونٹ دیا اور پھر، جیسا کہ پولیس نے بتایا، خود بھی اپنی نبض کاٹنے کی کوشش کی۔ مگر کیا اصل حقیقت یہی ہے یا پردے کے پیچھے کچھ اور ہے؟ اس کا علم تفتیش کے بعد ہوگا، فی الوقت تو یہ سوچ کر ہی دل بیٹھ رہا ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ 
 ہرچند کہ ماضی میں  بھی ایسے کیسیز ہوئے ہیں  جن میں  ماں  نے اپنے ہی جگر گوشے کو ابدی نیند سلا دیا مگر ماں  کی ممتا دُنیا کی ناقابل تردید حقیقت ہے اسلئے اِس نوع کی وارداتیں  ہمیشہ استثنائی قرار پاتی ہیں  لہٰذا لوگ کبھی برہمی اور کبھی رنج و غم کا اظہار کرنے کے بعد معمول کی زندگی میں  لوَٹ آتے ہیں ۔ کبھی ایسا ہو کہ ایک ماں  سفاکی پر اُتر آئے اور غیظ و غضب کے عالم میں  اپنے بچے کا گلا گھونٹ دے تو دُنیا نے دیکھا ہے کہ وہ بچے کی نعش پر بیٹھ کر روتی ہے اور خود کو لعنت ملامت کرتی ہے۔ زیر بحث واقعہ میں  اس خاتون نے بچے کو غالباً ایک بورے میں  باندھ دیا اور اُس کے اوپر کھلونے رکھ دیئے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔اس کے بعد اُس نے موٹر گاڑی کرائے پر لی اور گوا سے کرناٹک کیلئے عازم سفر ہوئی۔ وہ کرناٹک کی حدود میں  داخل ہوچکی تھی چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ماں ، بچے کو مارڈالنے کے بعد اُس کے جسد خاکی کے ساتھ دو سو کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کرسکتی ہے؟
 ایسی مائیں  ماں  کے نام پرکلنک، ممتا کی رُسوائی کا باعث اور انسانیت کی مجرم ہیں ۔ جھگڑا بیوی اور شوہر کا تھا۔ اس میں  بیٹے کا کیا قصور تھا؟ اُسے کس جرم کی اتنی اندوہناک سزا دی گئی؟ وسیع تر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے واقعات اس لئے رونما ہوتے ہیں  کہ لوگوں  میں  خوفِ خدا نہیں  رہا؟ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ سماج میں  جرائم کی ضرورت سے زیادہ تشہیر جرم کی ترغیب کا سبب بن رہی ہے؟ کچھ بھی ہو، سماج کو اس پر غور کرنا ہی ہوگا تاکہ خدانخواستہ وہ وہ دن نہ آئے جب بچے اُن ماں  باپ پر، جن میں  جھگڑا ہو، شبہ کرنے لگیں  کہ یہ اُن کا گلا گھونٹ سکتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK