ایک گیت جس کی اپنی زمانوی اہمیت اورتاریخی حیثیت ہے، اسے اپنے وقت وحالات وپس منظر سے نکال کرآج موضوع بحث بنانا اس کی اہمیت کم کرنے کے مترادف ہے، نئی نسل بالخصوص جین زی حکومت کے ا س اقدام کوقبولیت نہیں بخش سکتی۔
EPAPER
Updated: December 14, 2025, 3:43 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
ایک گیت جس کی اپنی زمانوی اہمیت اورتاریخی حیثیت ہے، اسے اپنے وقت وحالات وپس منظر سے نکال کرآج موضوع بحث بنانا اس کی اہمیت کم کرنے کے مترادف ہے، نئی نسل بالخصوص جین زی حکومت کے ا س اقدام کوقبولیت نہیں بخش سکتی۔
مشہور موسیقار وشال ڈاڈلانی کا ایک ویڈیو گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھاجس میں انہوں نے وندے ماترم پر پارلیمنٹ میں کئے گئے ۱۰؍گھنٹے کے مباحثہ پرتھوڑے مختلف انداز میں اپنی رائے رکھی تھی۔ انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ اپنی پوسٹ شیئر کی ’’ہیلو بھائیواور بہنوں، آپ سب کیلئے خوشخبری ہے۔ گزشتہ روز ہماری پارلیمنٹ میں وندے ماترم پر۱۰؍گھنٹے تک بحث ہوئی جو ایک مشہور دیش بھکتی کا گیت ہےجسے بنکم چند رچٹرجی نےلکھا تھا۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اس بحث کے سبب ملک میں بے روزگاری کامسئلہ حل ہوگیا، انڈیگوکا مسئلہ حل کرلیاگیا، فضائی آلودگی کا مسئلہ دور ہو گیا۔ ایک نظم پر ۱۰؍گھنٹے مباحثہ مگر ان مسائل کا ذکرتک نہیں۔ ظاہر ہے یہ سارےمسائل حل کر لئے گئے۔ اس مباحثہ کا یہی حاصل رہا۔ ‘‘
وشال ڈاڈلانی موسیقار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نظم، گیت اورموسیقی کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور یہ عوامی جذبات سے کس طرح جڑے ہوتے ہیں لیکن وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ کسی فن پارہ کو وہیں موضوع بحث بنایاجانا چاہئے جہاں بنائے جانے کا اس کا حق ہے۔ مثال کے طورپر کسی نجی محفل میں یا گلوکاری کے کسی ریالٹی شو میں۔ فرض کرلیں کہ ایک ریالٹی شومیں جس میں خودوشال ڈاڈلانی جج ہیں، اگر کوئی شریک مقابلہ ’وندے ماترم‘ گاتا ہےتو اس کی گائیکی بھی وہ جج کریں گے اور پھر اس نغمہ پر وہ اپنی رائے بھی دیں گے اوروہاں اس گیت کے تعلق سے جو پیغام دیکھنے اور سننے والوں تک پہنچےگا وہ اپنے اندر جذبات کا سمندر لئے ہوگا۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ گیت اور اس گیت سے وابستہ تاریخ تازہ ہوجائےگی یا نئی نسل کےلوگ انٹرنیٹ پر سرچ کرکے اس گیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اب جبکہ اس گیت کوایک سیاسی پلیٹ فارم پر موضوع بحث بنا دیا گیا، اسے لازمی کرنے یا نہ کرنے پربحث شروع کردی گئی، اس صورت میں اس کا انجام پھر وہی ہونا ہےجو ہر سیاست زدہ موضوع کا ہوتا ہے۔ مختصراً یہ کہ یہ گیت پارلیمنٹ میں موضوع بحث بن کرمتنازع بن گیاجبکہ اس گیت کی اپنی تاریخی اہمیت ہے۔ اس سے اسی طرح عوامی جذبات جڑے ہیں جس طرح قومی ترانہ ’جن گن من‘ سے۔
جہدوجہد آزادی کے دوران یہ گیت مجاہدین آزادی کی زبان پر تھا جس پر برطانوی حکومت نےپابندی بھی لگا دی تھی۔ یہ گیت گانے والے آزادی کے کئی متوالوں کوقید کی سزا بھی دی گئی، اس کے باوجودگانے والوں نے یہ گیت گانا جاری رکھا۔ ۱۸۹۶ء میں کلکتہ کانگریس سیشن میں رابندر ناتھ ٹیگورنے بھی یہ گیت گایاتھا۔ یعنی یہ گیت اپنی زمانوی اہمیت وحیثیت رکھتا ہے۔ اسے آج موضوع بحث بنانااس کی اہمیت کو کم کرنے کے مترادف ہے۔
جس دور میں آزادی کی جدوجہد جاری تھی، اس دورمیں ملک کے کونے کونے کے سےایسے ہی دلوں میں جوش اور ولولہ بھرنے والے نعرے دئیے جاتے تھےاور گیت گائے جاتے تھے۔ مثلاً’ انقلاب زندہ باد‘، ’سوراج میرا پیدائشی حق ہے اورمیں اسے لےکررہوں گا‘، تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دوں گا‘ اور سب سے اہم ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘۔ مذکورہ نعروں اورمذکورہ آخری ترانہ جدوجہد آزادی کی شناخت ہے۔ ان کے بغیر کےآزادی کی داستان پوری نہیں ہوتی لیکن انہیں اگر سیاست اورپھرپارلیمنٹ کا موضوع بنادیاجائےتو پھر سوال یہ ہوگا کہ ان پر کس پہلو سے بحث کی جائے۔ یہ نغمہ اوریہ نعرےسیاسی کشمکش کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ ان سے مجموعی طورپرپورے ملک کےجذبات بھی جڑے ہیں اوران کی اپنی مقامی اور علاقائی اہمیت بھی ہے۔ ایسے گیتوں اور نعروں کو اگرپارلیمنٹ میں بحث کیلئےرکھاجائےگا تو اس سے ارباب اقتدار سوائے اس کے اور کیا حاصل کرلیں گےکہ اس سے ان کی پارلیمانی طاقت واضح ہوجائےگی۔ وندےماترم اور اس طرح کا ہر نغمہ اپنے اندر جو پیغام اورطاقت رکھتا ہے وہ اس کے وقت کے لحاظ سے ہے۔ ’وندے ماترم‘ کو قومی گیت کی حیثیت سے ۱۹۳۷ءمیں انڈین نیشنل کانگریس کے ذریعے اپنایا گیاتھااورجس کمیٹی نے اس گیت کو اپنانے کی منظوری دی تھی اس میں مولانا آزاد، جواہرلال نہرو، سبھاش چندر بوس، اچاریہ دیواور رابندرناتھ ٹیگور شامل تھے۔ اس وقت اسے اپنانا وقت کا تقاضا تھا۔ اس وقت اس کے حق میں ماحول تھا۔ اس وقت یہ موضوع بحث تھاہی نہیں کہ اسے گانا لازمی ہے یا نہیں ۔ وندےماترم سے متعلق جوش وجذبہ دراصل تحریک آزادی کاجوش وجذبہ تھا جس سےعوام کو نہ الگ کیاجاسکتا تھا اورنہ جس کے تعلق سے ان میں کوئی پھوٹ ڈالی جاسکتی تھی۔
اس گیت کو لازمی کرنے کی کوشش اسے اپنے وقت وحالات وپس منظر سےنکال کرآج کے ماحول میں رکھنے کی کوشش ہے جس کا اس گیت سے تعلق نہیں ہے۔ آج ملک آزاد ہے۔ آج اس گیت کا احترام اوراس کی تاریخی اہمیت عوام کے دلوں میں ہے لیکن یہ جین زی کا ملک ہے اورجین زی کسی بھی قسم کا تسلط قبول نہیں کرسکتی اور اس بات سے شایدحکومت میں شامل بیشتر معمرلیڈران واقف نہیں۔ بنگال میں ہی جین زی کا سروے کرالیاجائےاور ان سے وندے ماترم کو لازمی کرنے کے تعلق سے رائے پوچھ لی جائے، یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس کا کوئی خاص دلچسپی سے جواب نہیں دیں گے۔ اس کی وجہ یہی ہےکہ جین زی کواس طرح کے معاملوں سے دلچسپی ہے ہی نہیں۔ جین زی یعنی جدید نسل کام چاہتی ہے، روزگار چاہتی ہے، پیسہ چاہتی ہے، سہولتیں چاہتی ہےاورسب سے بڑھ کر عزت ووقار اورامن سے جینا چاہتی ہے۔ نیپال اور بنگلہ دیش جیسے پڑوسی ممالک میں نئی نسل کا غصہ کیوں پھوٹ پڑا۔ یہ غصہ اور برہمی اقتدار کےجبر کے خلاف تھی، ارباب اقتدار کی پُرتعیش زندگی اور عوام کو مسائل کے بھنور میں چھوڑدینے کے خلاف تھی۔ ہندوستان میں بھی نوجوان نسل کا تناسب کافی زیادہ ہےجس نے نوٹ بندی بھی دیکھی ہےاور لاک ڈاؤن بھی، اس نسل نے پیپر لیک کے خلاف آوازبھی اٹھائی ہے اورتقرری کیلئے راتیں سڑکوں پرگزاری ہیں۔ اس نسل کے سامنے پارلیمنٹ میں اگرایک نظم پر بحث کیلئے ۱۰؍گھنٹے مختص کئے جائیں اورپھراس کا بھی کچھ حاصل نہ ہوتواس پر کیارائے قائم کی جائے۔ یعنی ایک توموضوع بذات خودلا حاصل اور اس پر بحث کا نتیجہ بھی لا حاصل۔
وشال ڈاڈلانی نےاپنے پوسٹ کردہ ویڈیو میں یہ نشاندہی بھی کی کہ پارلیمنٹ کی کارروائی میں ایک منٹ کیلئےڈھائی لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ۱۰؍ گھنٹے۶۰۰؍منٹ پر مشتمل ہوتے ہیں ، آپ خود حساب کر لیجئے۔ ‘‘پارلیمنٹ کےایک اجلاس میں کروڑوں روپے بہ آسانی خرچ ہوجاتے ہیں اور ان میں بحث کیلئے ایسے موضوعات کا انتخاب کرنا جن کاآج کےحالات سے کوئی تعلق ہی نہیں، وقت اورپیسے دونوں کی بربادی ہے۔ حکومت کااس بحث سے مقصود ملک کی قومی شناخت وعلامت کو مستحکم کرنا تھا، لیکن اس بحث سے یہ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ پارلیمنٹ میں اس پر زیادہ تر حکومت اوراپوزیشن ایک دوسرےکو مورد ا لزام ہی ٹھہراتے نظر آئے۔ یہ موقع حالانکہ وندے ماترم کے ۱۵۰؍ سال پورے ہونے کی مناسبت سے تھا لیکن اپوزیشن نے اس پر تنقید کی کہ یہ موضوع آئندہ سال ہونے والے مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کی مناسبت سے بحث کیلئے لایا گیا ہے۔ اس کے بعدکچھ دیگر موضوعات بھی زیر بحث آئے جن میں دہلی میں آلودگی کا مسئلہ بھی تھا۔ دونوں ایوانوں میں یہی صورتحال رہی۔ ابھی پارلیمانی اجلاس کچھ دن اور چلیں گے، ان میں حسب دستور کچھ بل منظور کر لئے جائیں گے اورکئی منظور کر بھی لئے گئے ہیں جن میں عوامی امتحانات میں شفافیت کا بل، اسپورٹس گورننس بل، جوہری توانائی بل، قومی شاہراہوں سے متعلق بل اور دیگر اہم بل شامل ہیں۔ سوال یہ ہےکہ یہ اور ایسے کئی اہم بل ہیں جن کا تعلق براہ عوامی سہولتوں اور مراعات سےاورعوامی زندگی بہتر بنانے سے ہےلیکن یہ موضوع بحث ہوکر بھی موضوع بحث نہیں بنتے۔ وندے ماترم جس سے ملک کے عوام واقف ہیں بلکہ بچہ بچہ یہ نغمہ جانتا ہے، اس پر اصرار ہےجبکہ اس طرح کے بلوں کوبس پارلیمنٹ میں پیش کرکےمنظور یا مستردکردیاجاتا ہےاور وندے ماترم کی طرح ان کی کوئی تشہیر نہیں ہوتی۔ اس سے حکومت اور اس کے ہم نوا میڈیا کی ترجیحات بھی واضح ہوتی ہیں اوردونوں کی ذہنیت بھی بے نقاب ہوکررہ جاتی ہے۔