Inquilab Logo

تعلیمی نظام اور اِنسانی وسائل کی تباہی پر طلبہ کے ساتھ ہی والدین بھی بیداررہیں

Updated: April 14, 2024, 5:15 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ خصوصاً گزشتہ دہائی میں تعلیمی، معاشی، سماجی و معاشرتی نظام کس قدر تہہ و بالا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں ہمارے کالج کے طلبہ کو کس طرح کے اندیشے لاحق ہیں اور ان اندیشوں کے تئیں اُن کا کیا لائحہ عمل ہوناچاہئے۔

Here our nursery school is a business. Photo: INN
ہمارے یہاںنرسری اسکول ایک بزنس ہے۔ تصویر : آئی این این

ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ خصوصاً گزشتہ دہائی میں تعلیمی، معاشی، سماجی و معاشرتی نظام کس قدر تہہ و بالا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں ہمارے کالج کے طلبہ کو کس طرح کے اندیشے لاحق ہیں اور ان اندیشوں کے تئیں اُن کا کیا لائحہ عمل ہوناچاہئے:
اگرکوئی نو جوان سی اے یا کمپنی سیکریٹری بننے کا ارادہ کرتا ہے لیکن اس کے نظریات، حکومت کے نظریات کے خلاف ہوں تو اُسے ان حالات میں یہ سوچنا پڑ رہا ہے کہ اگر اپنے ادارے کے اکاؤنٹ میں صرف پانچ سو روپے کی کسی اِنٹری سے متعلق وہ تشفی بخش جواب نہیں دے پایا تو اس پر منی لانڈرنگ کا کیس رجسٹر ہو سکتا ہے اور اسے انکم ٹیکس سے لے کر انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ تک کا ’بلاوا‘ آجائے گا۔ 
  کوئی تعلیمی ادارہ قائم کرنا چاہے تو اس سے کہا جائے گا کہ تاریخ بہر حال وہی پڑھاؤ جو ہم لکھ کر دیں گے۔ اپنی مرضی سے کچھ نہ پڑھاؤ۔ کوئی نقطہ بھی ادھراُدھر نہ ہو۔ اسکول ہو، مدرسہ ہو یا پاٹھ شالہ۔ ہماری ہدایات سے انحراف کیا تو خیر نہیں۔ مزید سُن لو کہ ہر پاٹھ شالہ کے سامنے ایک عالیشان گئو شالہ بھی ہو جس طرح ہر میڈیکل کالج سے ایک اسپتال منسلک ہونا ضروری ہےاور انجینئر نگ کالج کیلئے ورکشاپ ضروری ہے، بالکل اسی طرح اگر آپ کو کسی پاٹھ شالہ کی منظوری چاہئے تو سب سے پہلے ایک گئو شالہ تعمیر کرو۔ ارے بھئی ۱۰۰؍ طلبہ کو آپ پڑھا ئیں گے وہاں ۵۰؍ گائیوں کو سنبھالنا کیا دشوار ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: نئے ووٹرس یعنی کالج کے طلبہ آئندہ انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں!

تاریخ اور پولٹیکل سائنس کا طالب علم حیران ہے یہ سوچ کر کہ اس ملک کو یہ کیا ہوگیا ہے کہ کوئی پارٹی دس سال تک ملک کا کچھ بھی بھلا نہ کرے بلکہ ملک کی معیشت و معاشرت کی اینٹ سے اینٹ بجادے لیکن فرقہ پرستی سے ماحول کو پولرائز کرکےایک بار پھر ۵؍ سال کیلئے برسر اقتدار آ جائے؟ اس نے سیاسی سائنس کی کسی تاریخ میں ایسا پڑھا نہ سُنا۔ 
 آج معاشیات کا طالب علم حیران ہے کہ اسے کالج میں ملک کی اِکو نامی پر جو درس دیئے جارہے ہیں وہ وزارتِ مالیات کے اعداد و شمار کا مذاق اُڑا رہے ہیں، مثلاً نوٹ بندی کے ضمن میں ریزرو بینک کہتی ہے کہ۹۹؍ فیصد پُرانے نوٹ بینکوں میں جمع ہوگئے۔ بقیہ ایک فیصد غیر مقیم ہندوستانی جمع نہیں کر سکے یعنی نوٹ بندی سے کچھ بھی کالا دھن ظاہرنہیں ہوا مگر حکومت مصر ہے کہ ملک کی معاشی حالات میں سدھار ہوا ہے۔ 
 ایک طالب علم یہ سوچ کر ڈسٹرب ہو جاتا ہے کہ وزارتِ دفاع کے ساتھ بھی ایسا مذاق ہو سکتا ہے۔ پھر وہ یہ سوچ کر خوش ہونے لگتا ہے کہ اب سوِل سروسیز والوں کو وزیر بھی بنایا جاتا ہے لیکن اس کی ساری خوشیاں دوسرے لمحے کا فور ہو جاتی ہیں، جب وہ یہ سوچتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے بیورو کریٹس کو زندگی بھر برسر ِاقتدار پارٹی کی جی حضوری کرنی ہوگی اور سیاست دانوں کو پسند آنے والے فیصلے ہی انھیں زندگی بھرکرنے ہوں گے تا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک آدھ منسٹری یا گورنری حاصل ہو جائے! 
 دیکھا آپ نے کہ حکومت کی سیاسی چالوں سے نئی نسل کس طرح متاثر ہورہی ہے اور ملک کا تعلیمی و سماجی نظام کسی طرح پامال ہو رہا ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ برسوں کے ندیدہ سیاستداں اس نظام پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ درجنوں ٹیمیں سنگھ پریواری نصاب کو نافذ کرنے کیلئے دن رات محنت کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کو حملہ آور ثابت کر کے ان کی پوری تاریخ کو اس ملک سے مٹانے کیلئے علی الاعلان کوششیں جاری ہیں۔ پہلے ڈھکے چھپے انداز میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلا یا جاتا تھا اب سرکاری مہر ہاتھ میں لے کر کہا جاتا ہے کہ اکبر اور مہارانا پرتاپ کی جنگ یا شیواجی اور اورنگ زیب کے معر کے ہندو مسلم تصادم تھے۔ 
 تعلیمی نظام بے حال، بدحال اور نڈھال تو ہو ہی چکا ہے مگر سنگھ پریواری حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس نے تعلیمی نظام میں اصلاحات کے بجائے ملازمتیں فراہم کی ہیں۔ جی ہاں مگر صرف ایک سیکٹر میں اس حکومت نے ہزاروں پڑھے لکھے، بے روز گار نو جوانوں کو یہ کام دیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا میں حکومت کے خلاف منہ کھولنے والوں پر فوری حملہ کر دیں۔ اُن کی ساری باتوں کو غلط ثابت کریں، ان پر فقرے کسیں اور ان کا مذاق اڑائیں لہٰذا آج ملک کی ہر زبان کے سوشل میڈیا میں جواب دے پانے والے نو جوانوں کی بھرتی کی گئی ہے۔ جو سوشل میڈ یا پرکسی بھی خبر پر حکومت کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان ایک کرتے ہیں۔ جھوٹے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں، لہٰذا کسی موضوع پر اگر سوشل میڈیا میں حکومت کے خلاف پانچ آراء آتی ہیں تو حکومت کی حمایت میں پانچ سو۔ اس حکومت نے انجینئر نگ، کمپیوٹرس اور آئی ٹی گریجویٹس کو بھی عوام النّاس کو بہکانے اور پھٹکارنے کے کام پر مامور کیا ہے۔ یہ ہے اس حکومت کی روزگار گارنٹی پالیسی! معاشیات کے طلبہ کو ہم یہ بتانا چاہیں گے کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں ۲۰؍ فیصد قدرتی وسائل کا ہاتھ ہوتا ہے، ۱۶؍ فیصد انفراسٹرکچر کا اور۶۳؍ فی صد حصہ ہوتا ہے : ہیومن ریسورسز یعنی انسانی وسائل کا اور اس ملک پر گزشتہ دس سالہ موجودہ حکومت اپنی تعریف و توصیف میں نوجوان نسل کے سارے انسانی وسائل کو ضائع کر رہی ہے۔ یہ معاملہ بڑا سنگین ہے۔ ہم تین چار مسلم گریجویٹس سے واقف ہیں جو حکومت کے گُن گان کرنے پر مامور ہوئے ہیں، جن کا کام یہ ہے کہ حکومت کی ہر پالیسی چاہے وہ کتنی ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو، اس کی تعریف و توصیف کی جائے، نت نئے نعرے ایجاد کئے جائیں، حکومت کی پالیسیوں کے خلاف لکھنے والے کا مذاق اڑایا جائے۔ وہ نو جوان کہتے ہیں کہ یہ ملازمت گھر بیٹھے ہے اور جب تک کوئی بڑا جاب نہ مل جائے تب تک ماہانہ آٹھ دس ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا اس طرح استحصال اس سے قبل کبھی نہیں ہوا ہو گا۔ 
 اس ملک کے ہر سسٹم میں ہمیشہ ہی سے بیوروکریٹس کا عمل دخل رہا ہے۔ اسلئے سنگھ پریوار والوں کا ہمیشہ ایک ہی ٹارگیٹ رہتا ہے: بیورو کریسی! حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو، برسر اقتدار محاذ بایاں ہو یا دایاں، بیورو کریٹس میں ایک بڑی تعداد ہمیشہ سنگھی ذہنیت کے ہوتے رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ ہی سے اپنے ایجنڈے کے تئیں کمیٹیڈ رہتے ہی ہیں البتہ اسی ذہنی کرپشن کی بناء پر وہ عناصر ہر طرح کی بدعنوانی میں ملوث ہو جاتے ہیں لہٰذا اس تعلیمی نظام میں ہونے والی بدعنوانیوں کی فہرست دیکھ لیجئے : 
 (۱) بدبختی سے اس ملک کے تعلیمی نظام کیلئے کام کرنے والوں نے ہمیشہ کو تاہ چشمی سے کام لیا ہے۔ لہٰذا تعلیم کو اوّلیت کبھی حاصل نہیں ہوئی۔ بجٹ بنتے گئے مگر تعلیم سے پوری بے پروائی، کسی بھی ملک میں تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا کم از کم۶؍ فیصد حصہ صَرف ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں وہ ابھی تک ۴؍ فیصد سے زیادہ نہیں بڑھا۔ 
 (۲) اس تعلیمی نظام نے صرف دکانداری کو ہی بڑھاوا دیا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی نظام بھی کمرشیل بن گیا ہے۔ جہاں جہاں تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے وہاں اسے جاری کرنا اور انھیں قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن سرکار نے یہ سارا نظام آؤٹ سورس کر دیا ہے۔ اب انگوٹھے چھاپ دھنّا سیٹھ اپنی کالی پیلی دولت سے تعلیمی ادارے قائم کر رہے ہیں۔ جھوٹا آڈٹ پیش کررہے ہیں اور طلبہ سے لاکھوں روپے اینٹھ رہے ہیں۔ 
(۳) کچھ ایسا سسٹم وجود میں آگیا کہ چھ سال کی عمر کے بچّے کو پہلے ( الف ) مدرس ٹاڈلر میں پڑھنا ہے (ب) پھر پلے گروپ ( ج ) اس کے بعد نرسری (و) پھر جونیئر کے جی (و) اس کے بعد سینئر کے جی اور پھر پہلی جماعت۔ ان سارے درجات کے وجود میں آنے کے آج تجارتی زاویے نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ والدین کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جتنا بستہ بھاری ہوگا، بچّےکی تعلیم اتنی اعلیٰ درجہ کی ہوگی۔ ڈُگ ڈُگی بجا بجا کر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ان کے یہاں جونیئر کے جی سے بچّے کے بستے میں آپ کو لیپ ٹاپ دکھائی دے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK