Inquilab Logo

نئے ووٹرس یعنی کالج کے طلبہ آئندہ انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں!

Updated: April 07, 2024, 1:19 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

جونیئر کالج کےکروڑوں طلبہ امسال ووٹ دیکر اپنے سب سے بڑے جمہوری فرض کو پہلی بارادا کریں، انہیں  چاہئے کہ ووٹ دینے سے پہلے ملک کی معیشت، روزگار کی کیفیت، اگنی ویر اسکیم اور دیگراہم امور کا جائزہ لیں۔

This year 12.5 million young voters will exercise their right to vote for the first time. Photo: INN
امسال۷ ۱۲ء۵؍ لاکھ نوجوان ووٹر پہلی بار اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ تصویر : آئی این این

آئندہ ماہ ملک کے عام انتخابات میں ہمارے نئے ووٹرس یعنی جونیئر کالج کے کروڑوں طلبہ اپنا سب سے بڑا جمہوری فرض ادا کریں گے۔ اب تو نویں اوردسویں جماعت ہی سے سیاسی سائنس مضمون کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ووٹ دینے والے ہمارے نوجوان سیاستدانوں کو اندھا دھند ووٹ دیں گے۔ بھلا ہو موجودہ الیکٹرانی و سوشل میڈیا کا جس کے ذریعہ سیاستداں اور اُن کی بازیگری بڑی آسانی سے بے نقاب ہورہی ہے۔ حالاتِ حاضرہ سے آگہی اور اُن پر اُن کی اپنی رائے، اپنا نظریہ صرف بیداری کا ثبوت نہیں بلکہ سارے مقابلہ جاتی امتحانات کی ایک بڑی ضرورت بھی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی و تعلیمی محاذ پر اس ملک کی بدحالی سے ہمارے نوجوان بخوبی واقف ہیں۔ ان سارے معاملات کا براہِ راست اثر ہمارے نوجوانوں کی زندگی پر ہورہا ہے۔ کچھ اس حدتک کہ کتنی بڑی تعداد میں ہمارے شہری اپنی شہریت ترک کررہے ہیں وہ اعداد و شمار پوشیدہ نہیں ہیں۔ 
 ہمارے نوجوان ووٹ دینے سے پہلے اِن موضوعات پر نوٹس تیار کرلیں : (الف) ملک کی حقیقی معیشت (ب) ۱۰؍برسوں میں روزگار کی کیفیت (ج) حکومت ہی کی جانب سے نوجوانوں کی اسرائیل اور دیگر جنگ زدہ ممالک میں روزگار کیلئے بھرتی (د) دفاعی ملازمتوں کی ’اگنی ویر‘ جیسی اسکیم سے مکمل تباہی (و) ہر سُو اور ہر سطح پر بدعنوانی (ہ) الیکٹورل بونڈ کے ذریعے رشوت خوری کی بدترین روایت (ل) آزادیٔ تحریر و تقریر پر حملہ (م) عدلیہ پر شکنجہ (ن) فرقہ پرستی کی کھُلی چھوٹ وغیرہ۔ 
 نوجوانو! ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات کسی لحاظ سے ’عام‘ نہیں ہیں۔ اس ملک کی سا لمیت اور بقا میں یہ انتخابات انتہائی کلیدی کردار ادا کرنے والے ہیں۔ ۱۹۷۳ء میں بھی طلبہ اور اُن کی تنظیموں نے اہم رول ادا کیا تھا۔ ایک بار پھر ہمارے کیمپس کو جگانا ہے۔ ۱۸؍سے ۲۵؍سال کے طلبہ کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اُنھیں متحرّک ہونا ہے۔ یہ بڑااہم بلکہ مقدّس فریضہ ہے جس میں سارے طلبہ کو حصہ لینا ہے: (الف) ریلی میں حصہ لے کر (ب) نکّڑ ناٹکوں کے ذریعے (ج) دف اور تھالی ہاتھ میں لے کر (د) پولنگ بوتھ پر ووٹروں کو جانے کی ترغیب دے کر وغیرہ۔ اس ملک کو بچانے کے لیے طلبہ کوبہر حال حرکت میں آناہے۔ جس سے جو بن پڑے بس اپنے حصّے کی ایک شمع روشن کرے۔ 

یہ بھی پڑھئے: نوجوانو! اُٹھو زندگی کے اُجالے آپ کا انتظار کر رہے ہیں

 نوجوانو! ہمارے تعلیمی نظام اور اُس کے ذریعے اس ملک کے سارے نظام ہمیں بچانے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ جونیئر کالج سے لے کر یونیورسٹی کے ریسرچ کے طلبہ تک ہمارے لگ بھگ آٹھ دہائی پُرانے تعلیمی نظام اور اُس کے نشیب و فرازکو بخوبی سمجھیں :
 انگریز جب اس ملک سے چلے گئے تب اپنے ہر نظام پر اپنی ایسی دہشت چھوڑ گئے کہ اُن کے قائم کردہ نام نہاد اُصولوں سے انحراف کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ حتّیٰ کہ دستورِ ہند کی تیاری میں سارے سرکردہ اراکین قانون ساز نے انگریزی دستور ہی کو آخری اور ناقابلِ تنسیخ سمجھا۔ سارے قوانین، ضوابط، نظم، اُصول انتظامیہ یا دستورِ تعلیم سبھی لگ بھگ نقل ہیں انگریزوں کے۔ اکابرینِ ملک نے انگریزی و یورپی فکر کو حرف آخر سمجھ لیا۔ اس وقت وزارتِ تعلیم اس دَور کے سب سے بڑے مفکّر مولانا آزادکو سونپی گئی جو تقسیم ِ ہند کے سانحے سے مکمل ٹوٹ چکے تھے۔ البتہ تعلیمی نظام میں اپنی فکر کی چھاپ انہوں نے چھوڑی اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، نیز چنداعلیٰ تکنیکی ادارے کھرگ پور و مدارس وغیرہ میں قائم بھی کئے، البتہ اس دَور سے حکمراں کانگریس پارٹی میں زعفرانی عناصر اپنی جگہ بناتے گئے۔ یہ وہ عناصر تھے جو ابھی ابھی پدرِقوم کے خون سے اپنے ہاتھ سُرخ کر چکے تھے۔ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ملک صدیوں سے غلام تھا اور آزاد ہو چکا ہے جس میں مسلمانوں کو اُن کا حصہ مل چکا ہے۔ اب اُن کا یہ زعفرانی راشٹرہے۔ جس میں کسی اقلیت کو کوئی جگہ حاصل نہیں ہے۔ 
 نیت میں فتور ہو تو پاؤں بہک اور بھٹک جاتے ہیں۔ اس ملک کے کروڑوں معصوم ذہنوں پر تعصب کی کاشتکاری حکمرانوں کا واحد نصب العین و منصوبہ تھا اس لیے سارے سرکاری دانشوروں کو یک نکاتی پروگرام دیا گیا : نصاب اور بچّوں کے ذہنوں کو زعفرانی بنانا۔ لہٰذا تحقیق کی ساری سمتیں اُس جانب موڑی گئیں۔ دس سال قبل تعلیمی نظام کے زعفرانی کرن کی تحریک میں جنونیت آگئی۔ ۷۷؍برسوں سے اس تعلیمی نظام کو وہ نقصان نہیں ہوا جتنا بلا مبالغہ اِن دس برسوں میں ہوا۔ وجہ یہ کہ ۷۷؍ برسوں سے اس نظام کے بھگوا کرن کے صرف منصوبے بن رہے تھے۔ حالیہ دس برسوں میں ان پر سرکاری مہر کے ساتھ عمل درآمد شروع ہوگیا۔ ساتویں جماعت سے آگے کا طالب علم ان ساری اتھل پتھل اور انتشار سے متاثر ہورہا ہے۔ ملاحظہ کیجئے: 
 اسکولی طلبہ اور سارے نو جوان سوچ رہے ہیں کہ اس ملک میں اس عظیم الشان ملک میں کوئی بھی برسرِ اقتدار آ سکتا ہے۔ کوئی بھی حتیّٰ کہ باباؤں کے بابا بھی یا ایسا کوئی شخص بھی جس کی اصل جگہ تہاڑ جیل ہے۔ 
  اس ملک میں وزارت تعلیم جیسے اہم ترین محکمے کو کسی کے بھی حوالے کیا جا سکتا ہے۔ چاہے اس کا تعلیمی اُمور سے دُور دُور تک کوئی سروکار نہ ہو۔ چاہے اس کی اپنی ڈگری اور تعلیمی قابلیت مشکوک ہو۔ میٹرک فیل یا پاس۔ وہ شخص اس ملک کے انتہائی قابلِ وقار اعلیٰ تعلیمی وتحقیقی اداروں کے سربراہان کا انتخاب کرے گا۔ ۱۵؍ اور۱۸؍ سال کی کڑی جانفشانی کے بعد حاصل ہونے والی سند ہمیں کنوکیشن کی تقریب میں اس اَن پڑھ، گنوار شخص کے ہاتھوں دی جائے گی۔ 
 اچانک پورے ملک کو معلوم ہو جاتا ہے کہ سائیکالوجی، سوشیالوجی، انتھر اپولوجی اور بائیولوجی پر ’گائے لوجی‘ بھاری ہے۔ بلکہ گائے لو جی ہی سب کچھ ہے۔ 
 بیرسٹری کی سند حاصل کرنے کیلئے ہمارے ملک کا نوجوان جب انگلستان کی اُڑان بھرتا ہے تب وہ یہ سوچتا ہے کہ اسے واپس آکر لاء کی پریکٹس اس اس دھرتی کے اس واحد ملکمیں  کرنی ہے جہاں انسان کے قتل کی سزا بھی ۱۴؍ سال قید ہے اور جانور کے قتل کی بھی۔ جہاں چھوٹے چھوٹے جرائم کی تحقیق میں بڑی عرق ریزی ہوتی ہے لیکن ماب لِنچنگ میں کسی معصوم انسان کا قتل ہوتا ہے تو سیاست داں ’سرکار‘ جانچ ایجنسیاں اور عدلیہ صرف ’سوری‘ کہتی ہیں کہ وہ بھیٖڑ کا تشد دتھا، اب پوری بھیٖڑ کے خلاف کیا کیس بنائیں ؟
 میڈیا کی اعلیٰ تعلیم کیلئے روانہ ہونے والے نوجوان کا ضمیر صرف یہ سوچ سوچ کر ملامت کرتا ہے کہ اُسے اس فیلڈ میں اس لیے جانا ہے کہ اُسے کوئی پیڈ میڈیا ہاؤس جوائن کرنا ہے۔ جہاں اسے اخبار یا الیکٹرانک میڈیا کے مالکین کے ’بِگ باس‘ کی تعریف و توصیف میں زمین آسمان ایک کرنا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایمر جنسی بس لگ چکی ہے، لب کشائی کی ذرّہ برابر بھی جرأت نہیں کرنی۔ وہ حیران بھی ہے کہ حکومت وقت کے ساتھ میں ہولینے سے کیسے ہر قسم کے پاپ دُھل جاتے ہیں۔ 
 اگر کچھ پڑھے لکھے نو جو ان کوئی این جی او قائم کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہ سوچ کر سہم رہے ہیں کہ نہ جانے کب سرکاری عتاب اُن پر نازل ہوجائے۔ کب اُن پر یواے پی اے جیسے ظالم قانون کا بھی اطلاق ہوجائے اور کب اُن کو کسی دہشت گرد تنظیم سے بھی جوڑدیا جائے۔ (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK