Inquilab Logo

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے وقت سرسید نے تعلیم کے ساتھ ہی تربیت کو بھی لازمی قرار دیا تھا

Updated: February 04, 2024, 4:44 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

انہوں نے صاف کہا تھا کہ ’’تعلیم اگر اس کے ساتھ تربیت نہ ہو اور جس تعلیم سے قوم قوم نہ بنے وہ تعلیم در حقیقت کچھ قدر کے لائق نہیں ہے۔‘‘

Sir Syed Ahmed Khan. Photo: INN
سرسید احمد خان۔ تصویر : آئی این این

ہم جائزہ لے رہے ہیں اور نئی نسل کو آگاہ بھی کررہے ہیں کہ ملک میں ہماری ملّت کے بیش قیمت اثاثےیعنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ماضی، اُس کیلئے ہمارے اکابرین کی قربانیاں کیا تھیں کیونکہ موجودہ فرقہ پرست حکمران اس ادارے کو اقلیتی ادارہ ہی ماننے سے انکار کر رہے ہیں ۔ 
 ’ تہذیب الاخلاق‘ کے اجراء سے قبل۱۸۶۴ء میں سرسید نے غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی تھی اور۱۸۶۶ء میں اس سوسائٹی کا اخبار بنام ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ جاری کیا تھا جو سرسید کے آخر دم تک جاری رہا۔ جس کا ادار یہ سرسید خود بڑے ہی اہتمام کے ساتھ لکھتے رہے تھے۔ یہ اخبار اینگلواُر دو تھا یعنی اس کا ایک کالم اردو میں اور دوسرا انگریزی میں ہوا کرتا تھا۔ اس اخبار میں تعلیمی، علمی، سیاسی اور معاشرتی موضوعات کے علاوہ دینی اور اخلاقی موضوعات پر بھی بڑے ہی فکر انگیز مضامین شائع ہوتے رہے۔ علاوہ ازیں انگریزی اخبارات کے اہم مضامین کے تراجم کے علاوہ سائنٹفک سوسائٹی کے بینر تلے منعقد سرسید کے لیکچرس کے اقتباسات بھی اس اخبار کی زینت بنتے رہے۔ غرض کہ شمالی ہند کے مسلمانوں میں عصری تعلیم کیلئے رغبت پیدا کرنے میں اس اخبار نے ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ 
 سرسیّد کی ان تمام کوششوں کے باوجود مسلمانوں کا ایک طبقہ عصری تعلیم کو پسند نہیں کررہا تھا، اسلئے سرسید کو سب سے پہلے تعلیم کی تعریف وضع کرنے اور اسلام کو کھلے دماغ کے ساتھ سمجھنے کی دعوت دینے کیلئے محنت کرنی تھی۔ اس کوشش میں انہوں نے قرآن کی تفسیر لکھی۔ یہاں سرسید سے کچھ فکری لغزشیں سرزد ہوئیں اور اس بناء پر قوم کی بڑی اکثریت پھر ان کی کوئی بات سننے کیلئے تیار نہیں تھی اور اس حد تک کہ سرسید کے ایک تہذیب الاخلاق کے جواب میں نور الآفاق، لوح محفوظ، نور الانوار، شہاب ثاقب اور تائید لاسلام کے نام سے کئی پرچے نکالے گئے جن کا مقصد یہ تھا کہ سرسید کی تحریر اور فکر کی نفی کی جائے اور عام مسلمانوں میں سرسید کی تحریک کو سبوتاژ کیا جائے۔ اگر سرسید نے قرآن کی تفسیر لکھنے کے بجائے جوکہ اُن کا علاقہ نہیں تھا، سیدھے سیدھے مسلمانوں میں جدید علوم کے حصول کی رغبت پیدا کرنے کے کام میں لگ گئے ہوتے تو زیادہ اچھا رہتا۔ 
 قوم کے بائیکاٹ کی وجہ سے اپنی تعلیمی تحریک کی مالی امداد کیلئے سرسید کو انگریزوں پر انحصار کرنا پڑا تھا حالانکہ چندے کے تعلق سے انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے ہر خاص و عام کو جھنجھوڑنے کی سعی تو کی تھی: ’’ہندوستان کے رئیسوں کی فیّاضی کی مثالیں زیادہ تر اس میں ہیں کہ فلاں امیر نے اپنے بیٹے کی شادی میں اس قدر روپیہ خرچ کیا تھا۔ انگلستان کے امیروں کی فیاضی کی زیادہ تر مثالیں اس میں ہیں کہ فلاں امیر نے اپنا کل سرمایہ تعلیم کیلئے وقف کر دیا بلکہ دو تین ہفتہ ہوئے کہ میں نے ایک اخبار میں دیکھا کہ پروفیسر ٹنڈیل صاحب نے امریکہ کے مختلف مقامات میں علمی مضامین پر۵۳؍ لیکچر دیئے۔ پروفیسر ٹنڈیل نے ۷۸۹۷۵ ؍ روپے ان لیکچروں کے ذریعے کمایا اور اس غریب عالم نے وہ کل رو پیہ اپنی قوم کی ترقی کیلئے وقف کر دیا۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی: ماضی،حال اور مستقبل

لیکن ان کی اس بات کاکچھ زیادہ اثر نہیں پڑا۔ ۱۸۷۳ء تک کے کل چندہ ۷۴؍ ہزار۵۰۰؍ روپیہ ۵آنہ ۶؍ پائی میں وائسرائے ہند لارڈ بروک کا۱۰؍ہزار روپیہ، سرولیم میور اور لندن، ایڈیٹر اور اسکاٹ لینڈ کے انگریز شرفاء کا چندہ سب سے اہم تھا۔ کاش! قوم نے اس فقیر کو اپنے کشکول کو انگریزوں کے سامنے دراز کرنے پر مجبور نہ کیا ہوتا تو سرسیّد کو ایسے ایسے سمجھوتے کرنے نہ پڑے ہوتے جو اُن کے ضمیر کو گوارا نہ تھے۔ مثلاً مدرستہ العلوم کا قیام جو بنیاد تھی ان کی تعلیمی تحریک کی اس کا سنگ بنیاد ملکہ وکٹوریہ کی سالگرہ کے دن رکھنا پڑا اور جب یہ مدرسہ ایم اے او کالج کی شکل میں اختیار کر گیا تب اس کی تقریب سنگ بنیاد میں سرسیّد کو وائسرائے ہند لارڈلٹن کو نہ صرف مدعوکرنا پڑا بلکہ انہیں ایک سپاس نامہ بھی پیش کرنا پڑا۔ اپنی قوم کے مستقبل کے لئے فکر مند مگر اسی قوم کا ٹھکرایا ہوا ایک بے بس انسان اور کر بھی کیا سکتا تھا!
 ہمارے یہاں کچھ نقادوں کو ہمیشہ ہی سے اس بات کا شکوہ رہا ہے کہ سرسیّد کے نظریہ تعلیم ہی میں کچھ نقص تھا کہ وہ تعلیم، تعلیم کی رَٹ لگا رہے تھے مگر اس میں تربیت کا عنصر عنقا تھا اور چونکہ اس کی بنیادہی غلط تھی اسلئے اس درخت پر کیسے پھل لگنے کی امّید تھی وغیرہ۔ یہ الزام درست نہیں ہے۔ دراصل ایم اے او کالج کی بنیاد کے وقت ان کے بیان کا ایک جملہ جو کسی ضرب المثل کی طرح مشہور ہوا اور جواُن کی تعلیمی تحریک کی بنیاد تھاوہ یہ تھا’’ فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا اور سائنس ہمارے بائیں ہاتھ میں اور کلمہ لا الہ الا للہ کا تاج ہمارے سر پر۔ ‘‘ 
 تعلیم کے ساتھ تربیت کے تعلق سے سرسید نے دل کی گہرائی سے یہ کہا تھا:’’ اے عزیز و !تعلیم اگر اس کے ساتھ تربیت نہ ہو اور جس تعلیم سے قوم قوم نہ بنے وہ تعلیم در حقیقت کچھ قدر کے لائق نہیں ہے۔ پس انگریزی پڑھ لینا اور بی اے، ایم اے ہو جاتا جب تک اس کے ساتھ تربیت اور قومیت کی فیلنگ نہ ہو ہم قوم کو قوم اور ایک معزز قوم نہیں بنا سکتے۔ ‘‘
  سرسیّد کو اس بات کا احساس شدّت کے ساتھ تھا کہ حکومت کے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم اور تربیت کا کوئی اہتمام نہیں ہے لہٰذا ایسے تعلیمی اداروں کا قیام ناگزیر ہے جن میں دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا نظم بھی ہو لہٰذا ایک بار آپ نے فرمایا تھا’’پھر غور کرو موجودہ کالجوں میں مذہبی تعلیم نہیں ہے اور ہم کو اپنے نو جوان بچّوں کو دینی اور دنیوی دونوں تعلیم دینی ہیں اور اس کے ساتھ تربیت۔ پس اس کا سامان قوم پر جمع کرنا واجب ہے۔ ‘‘
 سرسیّد دنیاوی جدید تعلیم، سائنس ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کے پچھڑے پن سے یقیناً پریشان تھے۔ مغرب میں انگریز و دیگر یورپی اقوام کی سائنس ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے مقابلے مسلمانوں کے ان علوم سے منہ پھیر لینے پر وہ بڑے دُکھی تھے اسلئے وہ بار بار اس قوم کو جدید علوم کے حصول کیلئے تحریک دے رہے تھے البتہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ وہ دینی و اخلاقی تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے کی اہمیت سے غافل تھے بلکہ ہمارے طلبہ کو عصری تعلیم کے ساتھ اتنی ہی مقدار میں دینی تعلیم بھی دی جائے اس خیال کا ان سے بڑا مبلغ میری نظر سے نہیں گزرا۔ لہٰذا وہ اس ضمن میں لکھتے ہیں :
 ’’مکتب کے اخلاقی و مذہبی خیالات درست رکھنے کی فرائض منصبی ادا کرنے کو اس ماحول کے ساتھ ایک یا دو با وقار، پاکیزہ صفت، پاکیزہ صورت، سمجھ دار مقدّس عالم رکھنا چاہئے جس کا ادب لوگوں کے دل پر ہوتا کہ اس بناء پر سرسیّد نے کالج میں دینیات کی تعلیم کا ایک مستقل نظم قائم کیا تھا ( ہمارے موجودہ تعلیمی ادارے کچھ غیرت سے کام لیں کہ ہمارے وہ تعلیمی ادارے جن کے نام کے ساتھ لفظ ’ اسلام‘ جُڑاہوا ہے ان میں بھی دینی و اخلاقی تعلیم کا ایسا کوئی نظم آج بھی رائج نہیں ہے ) سرسید نے ڈیڑھ صدی قبل اپنے کالج میں ناظم دینیات کا منصب قائم کیا تھا۔ اس پر اوّلین تقرری مولانا عبداللہ انصاری کی عمل میں آئی تھی جو دارالعلوم دیو بند سے فارغ تھے اور ان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ طلبہ کی دینی و اخلاقی زندگی کی پوری باریکی سے نگرانی کریں، ان کو نماز، دوسرے مذہبی فرائض کا پابند بنانے اور انہیں قرآن وسنّت پر کار بند کرنے کیلئے پندو نصیحت اور فہمائش کا طریقہ اختیار کریں۔ ‘‘ 
 یہی نہیں نماز کیلئے طلبہ کی حاضری اور غیر حاضری کے ساتھ تادیبی کاروائی کیلئے سرسید نے لکھا تھا: ’’بہتر ہوگا کہ جو شخص حاضری لیتا ہے وہ ان لوگوں کے نام سے جو بلا وجہ اکثر جماعت سے غیر حاضر ہوتے ہیں مولوی صاحب کو اطلاع کرے گا اور مولوی صاحب کسی وقت ان کو علاحدہ تخلیہ میں بلا کرنصیحت کریں گے اور سمجھا دیں گے کہ نماز پڑھنی اور جماعت میں شریک ہونا چاہئے۔ ‘‘ 
 کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ سرسیّد کے تصوّر تعلیم میں کوئی نقص تھا اور کوئی خامی تھی ؟ جی نہیں ! ان کی درسگاہ پر اب تک جو جو پہاڑ ٹوٹے اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK