Inquilab Logo

سائیکل ریس

Updated: April 27, 2024, 1:20 PM IST | Muzaffar Hanafi | Mumbai

’’بھیا اگر تم یہ پمپ ریس میں ساتھ لے جانے کی اجازت دو تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘ ’’ہاں.... ہاں! شوق سے لے جاؤ....‘‘ اس نے خوشی سے اجازت دے دی۔ ’’نمبر سات کہاں ہے؟‘‘ لوگوں نے لاؤڈ اسپیکر پر آواز سنی۔

Cycle race. Photo: INN
سائیکل ریس۔ تصویر : آئی این این

پرویز نے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان سنا: ’’ریس میں حصہ لینے والے سب لڑکے اسٹینڈ پر آجائیں.... ریس میں حصہ لینے کیلئے....‘‘ بچوں کے کلب کے سیکریٹری مظہرالدین صاحب مائیکرو فون پر بول رہے تھے۔ کھیل کے سالانہ مقابلے جاری تھے۔ پرویز نے ذرا مایوسی کے ساتھ اپنی پرانی سائیکل کو اسٹینڈ کی طرف دھکیلا۔ مقابلے میں حصہ لینے والے سب ہی لڑکوں کے پاس نئی سائیکلیں تھیں لیکن پرویز کی سائیکل سب سے ردّی تھی۔
 اسے یہ مقابلہ جیتنے کیلئے اپنی پوری طاقت خرچ کر دینی تھی کیونکہ اول آنے والے لڑکے کے لئے انعام میں ایک پارکر فاؤنٹین پین رکھا گیا تھا جو پرویز کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ بچوں کے کلب کی طرف سے ہر سال پارک میں کھیلوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے اور سائیکل کی ریس ان سب میں زیادہ دلچسپ سمجھی جاتی تھی۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے کے لئے آتے تھے۔
 مظہر صاحب اب تک لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کر رہے تھے۔ پرویز جلدی سے سائیکل دھکیل کر اسٹینڈ کے سامنے لائن پر کھڑا ہوگیا۔ جہاں اس کے دوسرے ساتھی ریس شروع ہونے کے سگنل کا انتظار کر رہے تھے۔
 ’’اس سال ہم نے دوڑ کا طریقہ تبدیل کر دیا ہے۔‘‘ سیکریٹری نے کہا، ’’ہر لڑکے کا جو اس دوڑ میں حصہ لے رہا ہے، ایک نمبر مقرر کر دیا جائے گا اور لڑکوں کو پانچ پانچ منٹ کے بعد دوڑایا جائے گا۔ اس طرح جو لڑکا....‘‘
 ہجوم کے شور و غل کے درمیان پرویز نے کھیل کے قانون غور سے سنے۔ پچھلے سالوں کی بہ نسبت ریس کا فاصلہ اس سال سے زیادہ کر دیا گیا تھا اور قانون بدل دیئے گئے تھے۔ پہلے ریس شہر کی چوڑی سڑک پر ہوتی تھی جو محض ایک میل لمبی تھی اور سب لڑکوں کو ایک ساتھ چھوڑا جاتا تھا۔ لیکن اس بار ریس کا مقام شہر سے باہر ایک دائرے میں طے کیا گیا تھا جس کا فاصلہ پانچ میل تھا اور ساتھ ہی ساتھ ہر لڑکے کو پانچ پانچ منٹ کے وقفے کے بعد دوڑانا طے ہوا تھا۔
 ’’ہمیں خوشی اور فخر ہے۔‘‘ مظہر صاحب کی آواز اسے سنائی دی، ’’کہ اس مرتبہ ریس کا فیصلہ سائیکل کے مشہور چمپئن سلطان احمد کریں گے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: مختصر کہانی: چالاک گھوڑا

ریس میں حصہ لینے والے ہر لڑکے کو نمبروں کی ایک پٹی دے دی گئی۔ پرویز کا نمبر سات تھا۔ آخرکار سب تیار ہوگئے۔
 ’’دھائیں....‘‘ روانگی کی بندوق چھوٹی۔
 لوگوں کے ہجوم سے بڑی زور کا شور ہوا.... ٹائروں کے سرسرانے کی آواز سنائی دی اور پہلا لڑکا سائیکل پر سوار تیزی سے پیڈل مارتا ہوا جاتا دکھائی دیا۔ داہنی طرف میز پر بیٹھے ہوئے کلرک نے ڈائری میں وقت لکھ لیا۔
 پانچ منٹ کے بعد دوسرا سائیکل سوار روانہ ہوا۔پرویز ہر منٹ کے بعد زیادہ بے چین ہوتا جا رہا تھا۔ جس وقت چوتھا لڑکا روانہ ہوا ٹھیک اس سے کچھ پہلے پہلا لڑکا ہانپتا کانپتا واپس آگیا تھا، اس نے اپنا چکر پورا کر لیا تھا۔ کلرک نے گھڑی دیکھ کر اس کی واپسی کا وقت بھی نوٹ کر لیا۔ لوگوں کی دلچسپی اور بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ پرویز نے اپنے اوپر قابو پانے کی کوشش کی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کی باری بالکل قریب آگئی تھی۔ اچانک اس کا رنگ پیلا پڑ گیا اور وہ کانپنے لگا۔ بچوں کے کلب کے نگراں مجید صاحب وہیں قریب کھڑے تھے۔ انہوں نے پرویز کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا، ’’کیوں بیٹا؟ کیا بات ہے؟ طبیعت ٹھیک ہے نا؟‘‘
 ’’جی ہاں....‘‘ پرویز بھرائی ہوئی آواز میں بولا، ’’لیکن ذرا اسے دیکھئے....!‘‘ مجید صاحب نے اس کی اٹھی ہوئی انگلی کی طرف دیکھا۔ سائیکل کے اگلے پہیے میں ہوا بالکل نہیں تھی۔ انہوں نے ہمدردی سے پرویز کی طرف دیکھا۔
 ’’چچ چچ....‘‘ وہ بولے، ’’اس کا مطلب ہے تم ریس میں حصہ نہ لے سکو گے....‘‘
 ’’جی نہیں....‘‘ پرویز نے جلدی سے کہا، ’’پانچواں لڑکا اب روانہ ہو رہا ہے.... یعنی مجھے پندرہ ارے نہیں دس منٹ کی مہلت ہے۔‘‘
 وہ جلدی سے پلٹا اور قریب ہی کھڑے ہوئے ایک لڑکے سے جس کی سائیکل میں پمپ لگا ہوا تھا، کچھ کہنے ہی جا رہا تھا کہ وہ لڑکا خود ہی پمپ نکال کر اسے دینے لگا....
 ’’ہوا بھر کر دیکھو.... پنکچر نہ ہو تو اچھا ہے۔‘‘
 لائن سے ہٹ کر اس نے جلدی جلدی ٹیوب میں ہوا بھری اور پھر یہ سوچ کر کہ کہیں راستے میں ہوا پھر نکل گئی تو کیا ہوگا، اس نے لڑکے سے کہا۔ ’’بھیا اگر تم یہ پمپ ریس میں ساتھ لے جانے کی اجازت دو تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘
 ’’ہاں.... ہاں! شوق سے لے جاؤ....‘‘ اس نے خوشی سے اجازت دے دی۔
 ’’نمبر سات کہاں ہے؟‘‘ لوگوں نے لاؤڈ اسپیکر پر آواز سنی۔
 ’’جی ہاں....‘‘ وہ میدان کے باہر سے چیخا.... ’’مَیں پرویز احمد نمبر سات آرہا ہوں....‘‘ لیکن وہ ابھی اپنی جگہ سے دور ہی تھا کہ روانگی کی بندوق چھوٹی۔ وہ تیزی سے لپکا اور ججوں کے قریب سے گزرتے ہوئے بولا، ’’مجھے دیر ہوگئی جناب.... پھر بھی دوڑ میں شریک سمجھئے۔‘‘
 پرویز کو اچھی طرح معلوم تھا اس کے روانہ ہونے کا وقت ہی لکھا گیا ہے۔ جب بندوق چھوٹی تھی حالانکہ وہ اس کے کئی سیکنڈ بعد سائیکل پر بیٹھ پایا تھا۔ جب وہ لائن پر پہنچا تھا تو دس سیکنڈ گزر چکے تھے ویسے تو یہ وقت بہت کم ہے لیکن کسی دوڑ میں اتنی ہی دیر پہلے یا بعد میں پہنچنے سے ہی بہت اثر پڑتا ہے۔ اس نے کچکچا کر اپنے دانت بھینچ لئے اور ہینڈل پر جھک گیا۔
 تیزی سے پیڈل مارتے ہوئے پرویز نے حالات پر نظر ڈالی۔ اسے تمام لڑکوں سے تیز رفتاری میں مقابلہ کرنا تھا۔ جبکہ وہ دیر سے دوڑا تھا اور اس کی سائیکل کے ایک پہیے کی ہوا دھیرے دھیرے نکل رہی تھی۔ وہ شروع ہی سے اپنی پوری طاقت سے پیڈل مارنے لگا تھا جبکہ عام طور پر اتنی طاقت آخری لمحوں میں لگائی جاتی ہے۔ اسے معلوم تھا کہ پہلے ہی اسے دیر ہوچکی ہے اور اب اسے اپنی تمام کوشش سائیکل تیز چلانے میں لگا دینی ہے۔
 تھوڑی دیر بعد ہی اس کے ہاتھ کے انگوٹھے میں درد کرنے لگے جن سے اس نے پمپ کو ہینڈل کے ساتھ دبا رکھا تھا حالانکہ وہ زیادہ بھاری نہیں تھا پھر بھی اسے لٹکائے رکھنے میں دقت ہورہی تھی۔
 ’’چلتے رہو پٹھے! ہمت نہ ہارو....‘‘ اس نے اپنے آپ سے اس طرح کہا جیسے گھوڑ دوڑ میں کوئی جاکی اپنے گھوڑے کو پچکار رہا ہو اور اسی وقت اس نے خیال کی دنیا میں دیکھا کہ پارکر قلم اسے انعام میں دیا جا رہا ہے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھل اٹھی اور طاقت لگا کر اس نے اسپیڈ کچھ اور تیز کر لی۔

یہ بھی پڑھئے: عید کے کپڑے

دوسرے میل کے موڑ پر پہنچ کر وہ کچھ جھجکا۔ وہاں سے ایک پتلی سڑک اسی طرف جاتی تھی۔ جہاں پلٹ کر اسے جانا تھا۔ اس پتلی سڑک پر جانے سے تقریباً ایک میل کا چکر بچ جاتا تھا۔ لیکن قانون کے مطابق ان لوگوں کو صرف اس چوڑی سڑک پر ہی سفر کرنا تھا۔ ایک بار تو اس کا دل چاہا کہ اسی پتلی سڑک پر ہو لے۔ اس طرح اس وقت کی تلافی ہوسکتی تھی جو اسے دیر ہوجانے کی وجہ سے بڑھ گیا تھا۔ لیکن پھر اسکے اندر ایمانداری جاگی۔
 ’’نہیں.... مجھے کھیل کے قانون پر عمل کرنا ہے....‘‘ کہہ کر وہ چوڑی سڑک پر بڑھ گیا۔ جب وہ کچھ آگے چل کر سڑک کے ساتھ ساتھ گھوما تو اگلا پہیہ کھڑکھڑانے لگا۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ پمپ موجود تھا۔ جلدی سے اتر کر اس نے تیزی سے پہیے میں ہوا بھرنی شروع کی۔ اس کام میں جلدی کرنے پر بھی اسے تیس چالیس سیکنڈ لگ گئے اور جب ٹائر سخت ہوا تو اس کا سانس ڈھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ ہاتھوں میں سخت درد تھا۔ قمیص پسینے سے تر ہوگئی تھی اور شانے پتھر کی طرح سخت ہوگئے تھے۔ ہمت باندھ کر وہ پھر اچک کر سیٹ پر آگیا اور پیڈل مارنے لگا۔ اسٹینڈ اب زیادہ دور نہیں تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے۔ بس اتنا اطمینان اس کے دل کو تھا کہ اس نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ تماشائیوں کے قریب سے تیزی سے گزرتے ہوئے وہ لائن پر پہنچ کر سائیکل سے اتر گیا۔ اپنے بارے میں اتنا یقین پرویز کو ضرور تھا کہ وہ دوڑ ہار چکا ہے۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کی نگاہیں پرویز کو اپنا مضحکہ اڑاتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
 آخرکار دوڑنے والوں کا نتیجہ لاؤڈ اسپیکر پر سنایا گیا.... ’’سوار نمبر ایک‘‘ مظہرالدین صاحب بولے، ’’تیرہ منٹ بیس سیکنڈ۔ سوار نمبر دو.... تیرہ منٹ چار سیکنڈ۔‘‘ اور اسی طرح وہ تمام لڑکوں کی فہرست سناتے چلے گئے اور آخرکار دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ پرویز نے اپنا نمبر سنا: ’’نمبر سات، پندرہ منٹ چالیس سیکنڈ۔‘‘ کئی لوگ کھکھلا کر ہنس پڑے اس نے شرم کے مارے اپنی گردن جھکا لی۔ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کے قطرے چمکنے لگے اوسط وقت سے بھی تین منٹ لیٹ ہوگیا تھا وہ....
 اور جب اول آنے کا نام پکارا گیا تو اسے یقین نہ آیا۔ شاید اس کے کان دھوکہ دے رہے تھے۔ بچوں کے کلب کے سیکریٹری مظہرالدین صاحب اعلان کر رہے تھے، ’’جی ہاں.... نمبر سات ہی جیتا ہے.... خاموش رہئے.... شور نہ کیجئے آپ لوگ!‘‘
 تمام لوگ اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر پرویز کو یقین کرنا ہی پڑا۔ لوگ حیران تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ مظہرالدین صاحب نے سمجھایا، ’’پرویز ہی اوّل آیا ہے.... سلطان احمد صاحب جو سائیکل کے مانے ہوئے چمپئن ہیں ایک دن پہلے اپنی پوری طاقت سے اس سڑک پر سائیکل چلا چکے تھے۔ انہیں چودہ منٹ لگے تھے۔ اس شہر کے بچے کیا سائیکل چمپئن سے تیز چلا سکتے ہیں؟ سب لڑکے چودہ منٹ سے پہلے ہی آگئے۔ صرف پرویز دیر سے آیا ہے۔ پرویز کے علاوہ باقی سب لڑکوں نے کھیل کے قانون کو توڑ کر بے ایمانی کی ہے۔‘‘
 اب پرویز کو وہ پتلی سڑک یاد آئی جس سے دو میل کا چکر بچتا تھا۔ پرویز جو غلطی کرتے کرتے بچا تھا۔ وہی غلطی سب لڑکوں نے کی تھی۔
 سائیکل چمپئن سلطان احمد نے کھڑے ہو کر مائیکرو فون پر کہا، ’’کامیابی تک پہنچنے کے لئے بہت سے راستے ہیں لیکن سب سے چھوٹا راستہ ایمانداری، سچائی اور دلی لگن کا ہے....‘‘
 اور سب لوگوں نے تعریف کی نگاہوں سے پرویز کی طرف دیکھا۔ جو ’’پارکر‘‘ فاؤنٹین پین انعام میں لینے کیلئے پلیٹ فارم کی طرف جا رہا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK