• Mon, 04 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مہاراشٹر کی سیاسی پچ پرمقابلہ کبھی اتنا خطرناک اور غیر متوقع نہیں تھا

Updated: October 06, 2024, 3:04 PM IST | Mumbai

گزشتہ ۵؍ سال کے دوران سیاسی پچ پر اتنے بڑے اور ایسے غیر متوقع الٹ پھیر ہوئے ہیں کہ اگر سچن جیسے ماہر بلے باز بھی کھیل رہے ہوتے تو بلاشبہ کلین بولڈ ہوجاتے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ملک کے مایہ ناز کرکٹر سچن تینڈولکر کے آبائی شہر ممبئی اور آبائی ریاست مہاراشٹر میں گزشتہ ۵؍ سال کے دوران سیاسی پچ پر اتنے بڑے بڑے اور ایسے غیر متوقع الٹ پھیر ہوئے ہیں کہ اگر سچن جیسے ماہر بلے باز بھی اس میچ میں کھیل رہے ہوتے تو بلاشبہ کلین بولڈ ہوجاتے۔ ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تک  اس سیاسی پچ پر کبھی  شرد پوار  اور ادھو ٹھاکرے کی گوگلی، کبھی ایکناتھ شندے کے بائونسر، کبھی فرنویس کے  یارکر تو کبھی اجیت پوار کی غیر متوقع سوئنگ نے سیاسی لیڈران کی وفاداریاں یعنی بلے بازی کو مشکل سے مشکل بنائے رکھا ۔  ایسے میں یہ بڑا سوال پیدا ہو رہا ہے کہ  اگلے چند ماہ میں ہونے والے مہاراشٹر الیکشن میںکیا کوئی پارٹی سنچری بھی بناسکے گی کیوں کہ اس وقت مہاراشٹر کی سیاسی پچ پوری طرح سے غیر متوقع اچھال اور شدید اسپن کا مظاہرہ کررہی ہے ۔ ایسے میں کسی بھی پارٹی کے لئے سنچری بنانا مشکل نظر آرہا ہے۔
  گزشتہ الیکشن میں  حالات ایسے نہیں تھے ۔ بی جے پی اور غیرمنقسم شیو سینا نے  اکثریت حاصل کرلی تھی ۔ بی جے پی اس وقت سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ اسے ۱۰۵؍ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ حالانکہ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کو ۱۲۲؍ سیٹیں ملی تھیں اور اس لحاظ سے بی جے پی کا ۲۰۱۹ء کا مظاہرہ خراب تھا لیکن وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی مگر ملک کی سیاست کے اصل ’چانکیہ‘ شرد پوار نے  وہ گوگلی پھینکی کہ دیویندر فرنویس ، امیت شاہ اور وزیر اعظم مودی کلین بولڈ ہو گئے ۔ حالانکہ ڈھائی سال بعد فرنویس نے اسی پچ پر اسی گوگلی کا استعمال کرتے ہوئے شیو سینا کے دو ٹکڑے کئے اور پھر این سی پی کے بھی ٹکڑے کردئیے ۔ تب سے ایکناتھ شندے کی سرکار جاری ہے لیکن لوک سبھا انتخابات کے بعد سے حالات قدرے مختلف ہو گئے ہیں۔ مہا وکاس اگھاڑی کے لئے بلے بازی بڑی حد تک آسان ہو گئی ہے ۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اسمبلی  انتخابات سے قبل مہا وکاس اگھاڑی کو معمولی برتری حاصل ہے اور مہایوتی یعنی حکمراں محاذ اس معمولی برتری کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔گزشتہ ایک دہائی میں اور خاص طور پر گزشتہ ۵؍ سال میں  ریاست میں سیاست کے دائو پیچ کسی سنسنی خیز ٹیسٹ میچ کی طرح پل پل بدلتے رہے ہیں۔ بی جے پی کے طاقتور ہوجانے کی وجہ سے مقابلہ مہاراشٹر کی حد تک برابر کا ہو گیا ہے لیکن بی جےپی نے ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنے کے جس لالچ کا مظاہرہ کیا ہے وہ مہاراشٹر کی تہذیب اور ثقافت کبھی نہیں رہا ہے۔ گزشتہ ڈھائی سال میں جس طرح سے حکمراں محاذ نے سیاسی دائو پیچ کے ذریعے اپنے مخالفین پر حملے کئے ہیں ان سے ہمیں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والی مشہور ’باڈی لائن ‘ سیریز کی یاد آگئی جب انگلش ٹیم نے آسٹریلیا کے عظیم بلے باز سر ڈان بریڈ مین کے بلے کو خاموش رکھنے کے لئے یہ خطرناک حکمت عملی اپنائی تھی ۔اس سیریز میں کئی بلے باز بری طرح زخمی ہو ئے تھے۔ مہاراشٹر میں بھی اس وقت مہایوتی کی جانب سے اسی باڈی لائن حکمت عملی کا استعمال کیا جارہا ہے جس کے تحت کبھی مہا وکاس اگھاڑی کے لیڈروں کو جیل میں ڈالا جاتا ہے تو کبھی فرقہ واریت کا گھنائونا کارڈ کھیل کر ریاست کے مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا جاتا ہے۔ 
 مہاراشٹر کے سیاسی منظر نامہ کو اگرہم کسی ٹیسٹ میچ سے تشبیہ دیں یا اس کا موازنہ کریں تو غلط نہیں ہو گا کیوں کہ جس طرح سے ٹیسٹ میچ میں مخالفین کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اورایک دوسرے کو شکست دینے کے لئے حکمت عملی اپنائی جاتی ہے اسی طرح سے اس وقت مہاراشٹر میںسیاسی طور پر ہو رہا ہے۔کرکٹ کبھی شرفاء کا کھیل کہلاتا تھا لیکن ٹی ٹوینٹی کی آمد نے اس کے تمام اصول و ضوابط کو سر کے بل اُلٹ دیا ہے۔ وہی حال مہاراشٹر میں سیاست کا کیا گیا ہے۔ ۲۰۱۹ء سے قبل مہاراشٹر میں سیاسی اختلافات کے باوجود لیڈروں کے درمیان ایک دوسرے کا احترام موجود تھا، ایک  یا دو لیڈروں کے پارٹی بدلنے کی خبریں بھی آتی تھیں لیکن کسی بھی مخالف پارٹی کو ختم کردینے یا دھاندلی کے ساتھ اس پر قبضہ کرلینے کی روایت کبھی نہیں رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے انصاف پسند افراد کو اپنی جانب سے خط جاری کرنا پڑا تھا اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ اور نائب وزرائے اعلیٰ کی مذمت کرنی پڑی تھی کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ’’ان آنکھوں نے بالشت بھر زمین کیلئے سگے بھائی کےذریعے بھائی کا قتل ہوتے دیکھا ہے!‘‘

مہاراشٹر کے سیاسی ماہرین موجودہ منظر نامہ میں کانگریس کو کسی حد تک برتری دے رہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ یہ پارٹی برسوں بعد ریاست کی سب سے بڑی پارٹی  بن کر ابھرے گی لیکن اسے اپنے دم پر اکثریت نہیں ملے گی لیکن  بہر حال مہا وکاس اگھاڑی کو اکثریت مل جائے گی ۔ اس وقت مہاراشٹرمیں کئی بڑے مسائل نے سر اٹھا رکھا ہے ۔ سیاسی ، سماجی اور معاشی محاذ پر مہاراشٹر کو جو برتری حاصل تھی وہ اب کرناٹک ، تلنگانہ ، گجرات اور تمل ناڈو کے پاس چلی گئی ہے۔ریاست میں سماجی سطح پر مختلف ریزرویشن کے لئے روزبروز تحریکیں چلائی جارہی ہیں، اساتذہ  اپنی اپنی مانگوں کو لے کر روزانہ کہیں نہ کہیں ہڑتال کررہے ہیں ، ممبئی میں احتجاج کررہے ہیں، ریاست میں بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ، تعلیمی نظام  پوری طرح سے ڈگمگایا ہوا ہے ، سیاسی سطح پر جس قوت ارادی کی ضرورت ہے اس کا مکمل طور پر فقدان ہے ، معاشی محاذ پر ممبئی اور اطراف کے علاقوں کے علاوہ پوری ریاست بری طرح  متاثر ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ معاشی محاذ پر صرف ممبئی میں اکنامک سرگرمیاں جاری ہیں جبکہ ریاست کے دیگر حصوں میں  بے روزگاری نے پھن اٹھا رکھا ہے ۔ ان حالات میں مہایوتی  نے لاڈلی بہن اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ یہ اسکیم الیکشن سے چند ماہ قبل جاری کرنے سے مہایوتی کوبڑی حد تک فائدہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے کیوں کہ اس اسکیم سے استفادہ کرنے والی خواتین کی بہت بڑی تعداد ہے جو یہ چاہیں گی کہ الیکشن کے بعد بھی یہ اسکیم اسی طرح جاری رہے ۔ اس ایک اسکیم کے علاوہ مہایوتی کے پاس کوئی بڑی حصولیابی نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے مہایوتی اور مہا وکاس اگھاڑی کے درمیان جو فرق لوک سبھا کے نتائج کے بعد واضح ہوا ہے کہیں وہ کم نہ ہو جائے ، مہاوکاس اگھاڑی کو اس کا توڑ بہت جلد پیش کرنا ہو گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK