آج ملک بھرمیں ہندی زبان کو تعلیمی اِداروں میں لازمی طورپر پڑھانے کے معاملے پر ایک طوفان برپا ہے، آج ہم اس صورتِ حال اور اِس کے نتائج کا جائزہ لیں گے۔
EPAPER
Updated: July 06, 2025, 1:04 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
آج ملک بھرمیں ہندی زبان کو تعلیمی اِداروں میں لازمی طورپر پڑھانے کے معاملے پر ایک طوفان برپا ہے، آج ہم اس صورتِ حال اور اِس کے نتائج کا جائزہ لیں گے۔
آج ملک بھرمیں ہندی زبان کو تعلیمی اِداروں میں لازمی طورپر پڑھانے کے معاملے پر ایک طوفان برپا ہے، آج ہم اس صورتِ حال اور اِس کے نتائج کا جائزہ لیں گے۔
حکومت کی منشا کیا ہے؟
موجودہ حکومت کا ایجنڈا کیا ہے اور اِس کے ہر اقدام میں اس کی منشا کیا ہے، وہ ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ حکومت سنگھ پریوار کی بنیادی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور حکومت کے وزراء سے لے کر معمولی ورکرتک اُن کے تئیں مکمل کمیٹیڈہیں۔ ۵؍ہزار برسوں کی تاریخ میں پہلی بار گنجوں کو ناخن ملے ہیں اسلئے وہ باولے ہوچکے ہیں اور بدحواسی میں ہر وہ کام کر رہے ہیں جو جمہوریت اور انسانیت کے خلاف ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں کئی سارے جمہوری اِدارے تہس نہس ہوچکے ہیں اور جو چند بچے ہوئے ہیں اُن پر شب خون کے سارے منصوبے تیار ہیں۔ تعلیمی نظام اُن میں سے ایک ہے جس میں نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعے اُتھل پُتھل کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ جس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مذہبی فرقہ پرستی کے ساتھ ساتھ لسانی عصبیت اور تنگ نظری کا ماحول تیار کرنا۔ فرقہ پرستی کا تانڈو مچانے کیلئے اُن کے پاس نہایت آسان اور آزمودہ نسخے ہیں : مسلمانوں کے خلاف لنچنگ، شریعت میں مداخلت، مساجد کی تہہ میں مورتیاں تلاش کرنا اور وقف کی جائیدادوں پر قبضہ کرنا وغیرہ۔ لسانی تنگ نظری کیلئے اِس حکومت نے راستہ یہ اپنایا کہ ہندی زبان کو پورے ملک پر تھوپاجائے۔
کثیر اللسّان بننا ہے مگر.....
اِن کالموں میں ہم نوجوانوں کو ہمیشہ کثیر اللسان بننے کا مشورہ دیتے آئے ہیں، البتہ سنگھ پریوار کا مقصد او رمنصوبہ کچھ مختلف ہے۔ سنگھ پریوار گزشتہ ایک صدی سے ایک ہی نشے میں دُھت ہے اور وہ ہے: ہندو، ہندی، ہندوستان۔ گولوالکر سے لے کر موجودہ چیف تک سبھی اِنہی تین الفاظ کی مالا جپتے رہے ہیں اور اپنے ہزاروں گروکُل سے شیشووِہارتک کے کروڑوں طلبہ کا ذہن بھی آلودہ کر رہے ہیں۔
اکھنڈ بھارت سپنے کے سوداگر
سِوِل سروسیز جیسے امتحانات میں شریک ہونے والے ہمارے طلبہ کو آج ہم سنگھ پریوار سے متعلق چند حقائق (اور اُن کی فکر کے چند تضادات) متعارف کراناچاہیں گے:
(۱) ۱۰۰؍سال پُرانی اِس تنظیم کے بانی ہیڈگیوار تھے۔
(۲)یہ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں یعنی برہمنوں کی تنظیم ہے اور منوسمرتی کو اِس ملک کا آئین بنانا چاہتی ہے۔
(۳) اِسی پریوار سے وابستہ ونایک دامودر ساورکر نے سب سے پہلے دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی اور اپنے مضامین کے ذریعے عوام کو باورکرایا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ مسلمانوں کے ایک طبقے نے اس تھیوری کو قبول کرلیا۔ اس طرح ۷۰۰؍برس تک پورے بِرّ صغیر پر حکومت کرنے والی قوم ٹکڑوں میں بٹ گئی۔
(۴) پورا سنگھ پریوار ملک کی آزادی کے خلاف تھا، محض اسلئے کہ مسلمان اور سکھ قوم ملک کی آزادی میں پیش پیش تھیں، اسلئے اس پریوار کی انتہا پسندی یہ تھی کہ اُس نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ مجاہدینِ آزادی کی مخبری کی، معافی نامے لکھے اور انگریزوں سے پنشن بھی لی۔
(۵) سنگھ پریوار کو یومِ آزادی، یومِ جمہوریہ، ترنگا وغیرہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کیوں کہ اِس نے تحریکِ آزادی میں حصّہ نہیں لیا اور اُن کی پوری تاریخ میں ایک بھی مجاہد آزادی پیدا نہیں ہوا۔ وہ سردار پٹیل کو آزادی کا ہیرو اور سنگھ پریوار سے وابستہ بتاتے رہے البتہ تاریخ کا ایک معمولی طالب علم جب اُن سے پوچھتا ہے کہ آخر مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد سردار پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی کیوں لگائی، تب وہ خاموش ہوجاتے ہیں۔
(۶) اِس تنظیم کے تعلق سے البتہ ہمیں تعجب اس بات کا ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار میں کافی ذہین افراد موجود ہیں وہ اپنے مُکھیا کی اس بات پر یقین کیسے کرتے ہیں کہ ایک روز اکھنڈ بھارت وجودمیں آئے گا، جس میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی شامل رہے گا اور یہ خواب دِکھاکر دنیا بھر سے فنڈجمع کر لیتے ہیں۔ جی ہاں ! سنگھ پریوار اپنے پیروکاروں کو ایک ہی سپنا بیچ رہا ہے اور اُس کا نام ہے: اکھنڈ بھارت۔
ایک مُلک، ایک زبان، ایک....
اس ملک کے دانشوروں نے ماہرینِ تعلیم سے یقیناً موجودہ حکومت کو یہ مشورہ دیا ہوگا کہ اس ملک کو ایک رکھنا ہے تواِ س میں ایک زبان، ایک تہذیب، ایک کلچر، ایک رہن سہن، ایک کھانا پینا جیسا احمقانہ خیال بھی کسی ذہن میں پیدا نہیں ہونا چاہئے البتہ موجودہ حکومت کا المیہ یہ ہے کہ وہ اِسی پریوار کا حصّہ ہے۔ اس کی نظرمیں راشٹر پتی، پردھان منتری اور چیف جسٹس وغیرہ کے اوپر بھی ایک بڑا عہدہ ہوتا ہے اوروہ ہے : سرسنگھ چالک یعنی آرایس ایس چیف، موجودہ حکومت کیلئے تو وہ وہی مرتبہ رکھتے ہیں جو انگریزوں کے دَور میں کوئن ایلزا بیتھ اورکنگ جارج ششم کا تھا۔ سرسنگھ چالک کا ایک ہی نعرہ ہے: ہندو، ہندی، ہندوستان، وہ چاہتے ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہو، خانہ جنگی ہی کیوں نہ برپا ہو البتہ غیرہندی ریاستوں پر بھی ہندی کو تھوپاجائے اوراس کا آغاز مہاراشٹر سے کیا جائے۔ اس ریاست کے وزیر اعلیٰ ناگپور کے اور جی میرے آقا، کہنے والے برہمن ہیں لہٰذا اپنے’شہنشاہ‘ کی خواہش پوری کرنے کیلئے وہ جان کی بازی لگادینے پر آمادہ ہیں۔
شمالی ہند بمقابلہ جنوبی ہند
اپنے اقتدار، اپنی اکثریت، ای ڈی /آئی ٹی سے اپوزیشن کو ڈرانے اور دھمکانے کی خصلت کے نشے میں اس حکومت اور اِس کے آقا اس ملک کی تاریخ سے بھی آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔ کوئی اُنھیں یاد دلائے کہ جنوبی ہنداورشمالی ہند کی سوچ، فکر، تہذیب و زبانیں سب الگ الگ ہیں۔ جنوبی ہند کی دراوڑ زبانیں عالمی زبانوں کی طرح ترقی یافتہ اور کامیاب ہیں۔ اُنھیں ہندی زبان کو تھوپنے پر اعتراض ہے، سنگھ پریوار یاد رکھے گا کہ جنوبی ہند والوں کو ہندی سے ایک زمانے میں بیر اس شدّت تک تھا کہ دُوردرشن کے آغاز کے دس سال تک تمل ناڈو نے ہندی زبان کی خبریں اور سیرئیل تک پر پابندی لگائی تھی۔ شمالی ہند والوں کی ایک ہی ضد ہے کہ اُن ہی کی ریاست سے ملک کا وزیر اعظم منتخب ہو۔ ہندی ہی کے ایشو پر ہندی ریاستیں (اُتر پردیش، اُتراکھنڈ، بِہار، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ) اس طرح ووٹنگ کرتی بھی آئی ہیں کہ ہندی علاقے کا شخص ہی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہو۔ جنوبی ہند کی ریاستیں ہمیشہ سراپا احتجاج میں رہتی ہیں۔
دراصل سنگھ پریوار یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہندوستانی آئین نے کسی بھی واحد زبان کو قومی زبان قرار نہیں دیا۔ پنڈت نہرو نے بھی ’ہندستانی‘ (اُردوآمیز ہندی) کو اپنانے کا مشورہ دیا تھا اور سنگھ پریوار مُصر ہے کہ وہ سنسکرت آمیز ہندی کو ہی قبول کرے گی۔ پہلے آکاش وانی، پھر دُوردرشن اور سرکاری حکم نامے وغیرہ کے ذریعے سنسکرت آمیز ہندی کو پورے مُلک پر تھوپنے کی دانستہ اور شرانگیز حرکتوں کی وجہ ہی سے جنوبی ہند کی ریاستیں سخت نالاں ہیں۔ سنگھ پریوار سنسکرت اور ہندی کے علاوہ ساری زبانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ ہندی زبان کی عمر محض ۸۰۰؍سال ہے جب کہ تمل ۲؍ہزار سال پُرانی زبان ہے۔ تیلگو، ملیالم، کنّڑ اور تمل زبانوں کے پاس بے پناہ ادبی ورثہ موجود ہے مگر سنگھ پریوار سنسکرت اور سنسکرت آمیز ہندی کو پورے مُلک پر تھوپنا چاہتا ہے اور موجودہ سرسنگھ چالک تو اس ہندی پریم میں ایسے اندھے ہوئے جا رہے ہیں کہ وہ اپنی مادری زبان مراٹھی کی جڑیں بھی اُکھاڑنے پر امادہ ہیں اور اس بناء پر جنوب کی چار ریاستوں کے ساتھ اب مہاراشٹر کی (۱۲؍ کروڑ میں سے) ۸؍کروڑ مراٹھی آبادی بھی مشتعل ہے البتہ سنگھ پریوار اپنے، ہندی، ہندو، ہندوستان کے دیرینہ خواب کو پورا کرنے پر اس قدر اُتاولا ہے کہ اُسے کسی عوامی احتجاج یا انتشار کی بھی فکر نہیں ہے۔ کوئی اُس سے یہ دریافت کرتا ہے کہ آخر ہندی ریاستوں میں سہ لسانی فارمولے پر عمل کیوں نہیں ہورہا ہے، وہاں پر جنوبی ہند کی کسی زبان کو پھلنے پھولنے کا موقع کیوں نہیں ملتا؟ ہمیں تو خدشہ یہ بھی ہے کہ یہ سنگھ پریوار یہ سوال کرے کہ آخر مُلک کا قومی ترانہ بنگالی زبان میں کیوں ہے، ہندی یا سنسکرت میں کیوں نہیں ؟