یوگی سرکار نے اپنے وعدہ کیخلاف گورکھپور، حمیر پور اور علی گڑھ کے کئی ایسے اسکولوں کو دوسرے اسکولوں میں ضم کر دیا جن میں طلبہ کی تعداد ۵۰؍ سے زائد تھی۔
EPAPER
Updated: July 20, 2025, 5:42 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
یوگی سرکار نے اپنے وعدہ کیخلاف گورکھپور، حمیر پور اور علی گڑھ کے کئی ایسے اسکولوں کو دوسرے اسکولوں میں ضم کر دیا جن میں طلبہ کی تعداد ۵۰؍ سے زائد تھی۔
یوپی میں بی جے پی حکومت تعلیمی شعبے میں ایسا تجربہ کر رہی ہے جو غریبوں کو تعلیم سے محروم کر سکتا ہے۔ یوگی حکومت کا کہنا ہے کہ۵۰؍ سے کم تعداد والے پرائمری اسکولوں کو دوسرے اسکول میں ضم کرنے سے تعلیم کے معیار میں اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی وسائل کے بہتر استعمال کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ آئین کی رو سے عوام کو تعلیم فراہم کرنے کے سلسلے میں حکومت پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کے پیش نظر یوپی حکومت کی یہ دلیل نہ صرف لایعنی ثابت ہوتی ہے بلکہ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت لازمی بنیادی تعلیم کی فراہمی کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔ آئین کی دفعہ ۲۱؍ اے، ۶؍ سے ۱۴؍برس کے بچوں کیلئے مفت تعلیم کو لازمی قرار دیتی ہے۔ اس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایک کلومیٹر کے دائرے میں ۳؍سو افراد کی آبادی والے گاؤں میں اسکول قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس تناظر میں یوگی حکومت کا فیصلہ طلبہ کو ان کے آئینی حق سے محروم کرتا ہے۔ اسکولوں کے انضمام کے بعد تعلیمی معیار میں اطمینان بخش اضافہ ہو، اس کا بھی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس فیصلے کی تعمیل کے بعد اور پیچیدہ مسائل طلبہ اور اساتذہ کی کارکردگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ یوپی حکومت کے اس فیصلے پر روک لگانے کیلئے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تھی جسے عدالت نے خارج کر دیا۔ اب سپریم کورٹ اس پر شنوائی کیلئے راضی ہو گیا ہے اور آئندہ ہفتے اس پر عدالت عظمیٰ میں سماعت ہوگی۔
یوپی کے وزیر اعلیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ جن اسکولوں میں طلبہ کی تعداد ۵۰؍ سے زیادہ ہوگی انھیں دوسرے اسکول میں ضم نہیں کیا جا ئے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ۵۰؍ سے زیادہ تو ۵۱؍ بھی ہوتا ہے اور ۶۰؍ اور ۱۰۰؍ بھی توکیا حکومت ۵۱؍ طلبہ والے اسکول پراس فیصلے کو نافذ نہیں کرے گی؟ اس سوال کا کوئی واضح جواب حکومت اور محکمہ ٔ تعلیم کے افسران کی جانب سے نہیں دیا گیا ہے۔ میڈیا میں ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ گورکھپور، حمیر پور اور علی گڑھ کے کئی ایسے اسکولوں کو دوسرے اسکول میں ضم کر دیا گیا جن میں طلبہ کی تعداد ۵۰؍ سے زیادہ تھی۔ ان خبروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس فیصلے کو بہتر اور نتیجہ خیز طور پر نافذ کرنے کے سلسلے میں اب تک کوئی ایسا منصوبہ تیار نہیں کیا گیا جو اس کے درست ہونے کا جواز بن سکے۔ اس ریاست میں تعلیمی صورتحال بہت اطمینان بخش نہیں ہے اور یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں مختلف سطح کے سرکاری اسکولوں میں طلبہ کیلئے معیاری تعلیم کا بندوبست اور ان بنیادی ضرورتوں کا فقدان رہا ہے جو تعلیمی عمل کو آسان اور طالب علم کی شخصیت سازی میں معاون کردار ادا کرتے ہیں۔
یوگی حکومت کے حالیہ فیصلے پر سیاست کرنے والی کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے بھی اپنے دور اقتدار میں سرکاری اسکولوں کو بہتر بنانے کے سلسلے میں بہت زیادہ ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدام نہیں کئے۔ ریاست میں سرکاری اسکولوں کی حالت زار کوئی ایک دن، ایک سال یا کچھ برسوں کا قصہ نہیں بلکہ اسکولوں کی حالت بتدریج خراب ہوئی ہے اور بی جے پی سمیت دیگر پارٹیاں صرف زبانی دعوے ہی کرتی رہی ہیں۔ اس ریاست کی شرح خواندگی ۷۰؍ فیصد بھی نہیں ہے اور ادھر ایک دہائی کے دوران اقتدار کی جانب سے جو تجرباتی اقدام کئے گئے ہیں ان سے شرح خواندگی میں کوئی اضافہ درج نہیں کیاگیا۔ ان تجرباتی اقدامات کی وجہ سے سرکاری اسکولوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی اور طلبہ کو مجبوراً ان مہنگے نجی اسکولوں میں داخلہ لینا پڑا جو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے عوض میں اچھی خاصی رقم اینٹھتے ہیں۔ ایسے مہنگے اسکولوں میں وہ غریب بچے داخلہ لینے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے جن کے والدین محدود آمدنی اور کمر توڑ مہنگائی کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان والدین کی یہ خواہش انہی سرکاری اسکولوں میں پوری ہو سکتی ہے جن اسکولوں کا قیام آئین کی رو سے حکومتی ذمہ داری ہے۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ریاست میں سرکاری اسکولوں کے حالات تشویش ناک حد تک خراب ہیں۔ یوپی میں ایسے سرکاری اسکول خاصی تعداد میں مل جائیں گے جہاں پینے کا صاف پانی اور بیت الخلا جیسی بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ ایسے اسکولوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں جہاں کا تدریسی عملہ لیاقت اور ذہانت کی نچلی سطح پر براجمان ہے۔ ایسے اساتذہ علم و دانش کی سطح کو بلندی عطا کرنے والے اقدام سے زیادہ سیاست اور مذہب میں دلچسپی لیتے ہیں اور اسکولی اوقات میں بھی اس دلچسپی کا مظاہرہ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یوگی حکومت اگر واقعی ریاست میں سرکاری اسکولوں کی کارکردگی بہتر بنانے کی خواہاں ہوتی تو ان بنیادی مسائل کو حل کرنے پر غور کرتی نہ کہ اسکولوں کو ایک دوسرے میں ضم کر کے ان طلبہ کے تعلیمی عمل کو مزید پیچیدہ بناتی جو اپنے گاؤں کے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں ۵۰؍ سے بھی کم طلبہ کا اندراج از خود یہ واضح کر دیتا ہے کہ حکومت اس محکمے کی اصلاح کے تئیں زیادہ فکر مند نہیں ہے۔
یوپی حکومت کا یہ فیصلہ ان اساتذہ کو بھی نئے اور پیچیدہ مسائل سے دوچار کرسکتا ہے جن کا اسکول کسی دوسرے اسکول میں ضم ہوگا۔ دو اسکولوں کے انضمام کے بعد اگر اساتذہ کی تعداد مطلوبہ تعداد سے زیادہ ہوئی تو انھیں کس طرح کی ذمہ داری دی جائے گی، اس کے متعلق بھی واضح طور پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ اس فیصلے سے تشکیل پانے والی صورتحال طلبہ اور اساتذہ کو آمدو رفت کے مسائل سے دوچار کر سکتی ہے اور یہ مسائل فطری طور پر ان کی کارکردگی کو متاثر کریں گے۔ یوپی حکومت بنام معیاری تعلیم اسکولوں کے انضمام کا جو تجربہ کر رہی ہے اس کا ممکنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ غریب طلبہ کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم رہ جائے گی۔ اگر حکومت اس موضوع پر مخلص ہے تو اسے پارٹی سیاست سے اوپر اٹھ کر دہلی کی سابقہ حکومت کی کارکردگی کو پیش نظر رکھ کر کوئی نتیجہ خیز منصوبہ بنانا چاہئے۔