• Sun, 14 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مساجد تو اللہ کے گھر ہیں مگرمدینہ مسجد اور مرشد آباد کی بابری مسجد میں فرق ہے

Updated: December 14, 2025, 3:45 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

پنجاب میں تعمیر ہونے والی مسجد کی بنیاد محبت پر ہے جس میں سکھ بھائیوں کی معاونت بھی شامل ہے جبکہ مغربی بنگال میں مسجد کی تعمیرکے نام پر سیاست کا پہلو حاوی ہے جس میں ایک ایسا لیڈر پیش پیش ہے جو برسوں تک بی جے پی کے نظریات کی تشہیر کرتا رہا ہے۔

It is on the occasion of the inauguration of the mosque in Malir Kotla, in which Sikh brothers are also seen along with Muslims. Photo: INN
مالیر کوٹلہ میں مسجد کے افتتاح کے موقع کی ہے جس میں مسلمانوں کےساتھ سکھ بھائی بھی نظر آرہے ہیں۔ تصویر: آئی این این

دلوں اور نیتوں کا حال تو وہی جانے جو اس کائنات کا خالق ہے اورجس کے قبضہ قدرت میں ہم سب کی جان ہے لیکن اس نےہم انسانوں کو سوچنے سمجھنے کا جو شعور عطا کیا ہے، کچھ دیکھنے سننے کے بعداچھے برے میں فرق سمجھنے اورتمیز کرنے کی جو صلاحیت ودیعت کی ہے اور جو حواس بخشے ہیں، اس کی بنا پر یہ ضروری ہے کہ ہمارے سامنے جو صورتحال درپیش ہو، اس میں کسی نتیجے پر ضرور پہنچا جائے۔ 
گزشتہ ہفتے ملک میں ۲؍ اہم واقعات رونما ہوئے۔ دونوں کا تعلق مسلمانوں سے ہے لیکن نوعیت جداگانہ اورمعکوس ہے۔ پہلا واقعہ مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع کا ہےجہاں ایک لیڈر نے ایودھیا میں ہندوتوا وادی جنونیوں کے ذریعہ شہید کی گئی بابری مسجد کی یاد میں ایک نئی بابری مسجد تعمیر کرنے کااعلان کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے اور خطے میں ایک نئی کشیدگی بھی پیدا ہوئی ہے۔ دوسرے واقعے کا تعلق پنجاب کے مالیر کوٹلہ ضلع سے ہے جہاں ایک گاؤں میں سکھ بھائیوں نےمسجدکیلئے نہ صرف اپنی قیمتی زمین عطیہ کی ہے بلکہ اس کی تعمیرمیں مالی اور اخلاقی تعاون بھی پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ سے اس خطے میں محبت کی ایک نئی فضا قائم ہوئی ہے۔ 
مسجد کوئی بھی ہو، اس بات پر ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ وہ اللہ کا گھر ہے، اسلئے اس کا تقدس اور احترام ہم پرلازم ہے لیکن مالیر کوٹلہ کی مدینہ مسجد اور مرشد آباد کی بابری مسجد میں بہت فرق ہے۔ پنجاب میں تعمیر ہونے والی مسجد کی بنیاد محبت پر ہے تو مغربی بنگال کی مجوزہ مسجد کی بنیاد سیاست اور نفرت پر ہے۔ 
ہمایوں کبیرکی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے بھی کہ بابری مسجد سے ہم ہندوستانی مسلمانوں کا جذباتی تعلق ہے، ہمارا خیال ہے کہ ہمیں مغربی بنگال میں نئی بابری مسجد کی تعمیر کی حمایت نہیں کرنی چاہئے۔ ہماری عقیدت مسجد سے ہونی چاہئے، بابری مسجد سے نہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو ایودھیا میں ایک مسجد شہید نہیں کی گئی تھی بلکہ اس حوالے سے ہندوستانی مسلمانوں کو ملک میں دوم درجے کا شہری ہونے کا احساس دلایا گیا تھا۔ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہا۔ بابری مسجد کی شہادت اور اس کی ملکیت سے متعلق عدالتی اور سیاسی فیصلوں سے بھی وقفے وقفے سے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی ہوتی رہی ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہ سکتا ہے۔ ایسے میں، میں اس خیال کا حامی ہوں کہ بابری مسجد کی شہادت کو ہمیں یاد رکھنا چاہئے، اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے لیکن اسے یاد رکھنے کاکچھ طریقہ ہونا چاہئے۔ کسی دوسری جگہ پر نئی بابری مسجد کی تعمیر اس مسئلے کا قطعی حل نہیں ہے۔ 
بابری مسجد کو ہم نے کتنا یاد رکھا ہے، نئی نسل میں اس یاد کو ہم نے کس حد تک منتقل کیا ہے اور اس تعلق سے ہماری کیا منصوبہ بندی ہے، اس کی ایک مثال ملاحظہ کریں۔ اسی سال دسمبر کے پہلے ہفتےکی بات ہے۔ میری ملاقات ۱۸؍ سے ۲۰؍ سال کی عمر کے ’انڈر گریجویشن‘ کے کچھ طلبہ سے ہوئی۔ میں نے ان سے بابری مسجد کے متعلق سوال کیا۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ۹۰؍ فیصد سے زائد طلبہ کو بابری مسجد اور ۶؍ دسمبر سےمتعلق کچھ معلوم ہی نہیں ہے اور جن طلبہ کو اس تعلق سے کچھ معلوم ہے، وہ بھی حد درجہ ناقص اور خام ہے۔ جن لوگوں کو یہ بات معلوم تھی کہ ہندوتوا وادی جنونیوں کے ہاتھوں بابری مسجد شہید کردی گئی، ان سے یہ پوچھنے پر کہ بابری مسجد کہاں تھی؟ ایک بار پھر افسوس ناک جواب برآمد ہوئے۔ بعض نے کہا دہلی تو بعض نے لکھنؤ بتایا اوربعض طلبہ کچھ بھی کہنے سے قاصر رہے۔ ایک دو طالب علم ہی یہ بتا سکے کہ بابری مسجد ایودھیا میں واقع تھی۔ 
میرا خیال ہے کہ یہی صورتحال دوسری جگہوں کی بھی ہوگی۔ یقین نہ آئے تو اس عمر کے دوسرے بچوں سے اس بارے میں پوچھ کر دیکھ لیں۔ بات صرف ۳۳؍ سال پرانی ہے۔ اتنے بڑے واقعے کو ہم اتنی جلدی کیسے بھول سکتے ہیں ؟ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۳ء اور اس کے بعد تین چار سال تک اور... ہم نے اپنے کاروبار کو بند رکھ کراس سیاہ دن کو یاد کیا اور اپنے زخموں کو تازہ کیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ اس میں بتدریج کمی آتی گئی اور تازہ صورت حال یہ ہے کہ نئی نسل کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو کیا ہوا تھا۔ 
بابری مسجد کو یاد رکھنا ایک الگ بات ہے اور اس نام پر سیاست کرنا دوسری بات ہے۔ ہمایوں کبیر کامقصد و منشاء صاف نظر آرہا ہے جس کا اظہار خود انہوں نے کردیا ہے۔ ایک ہی سانس میں انہوں نے عقیدت و سیاست کو خلط ملط کردیا ہے۔ ۷؍ دسمبر کو ایک بڑی تقریب میں مسجد کا نام اور اس تعلق سے اپنے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ہم فروری میں ایک لاکھ لوگوں کو بلا کر قرآن خوانی کروائیں گے اور پھر بابری مسجد کا تعمیراتی کام شروع ہوگا۔ اس کے بعد جلد ہی ہم اپنی نئی پارٹی بنائیں گے جو مسلمانوں کیلئے کام کرے گی۔ ہماری پارٹی اسمبلی انتخابات میں ۱۳۵؍ سیٹوں پر الیکشن لڑے گی۔ اس تعلق سے ہم اویسی کی پارٹی سے رابطے میں ہیں اور اس کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتے ہیں۔ ‘‘
نئی ’بابری مسجد‘ کا سیاست سے براہ راست تعلق کس طرح ہے اور وہ اس کا استعمال کیسے کریں گے، انہوں نے واضح کر دیا ہے۔ 
اب ایک نظر ہمایوں کبیر پر بھی ڈالتے چلیں۔ کانگریس سے اپنا سیاسی کریئر شروع کرنے والے ہمایوں کبیر ۲۰۱۲ء میں ترنمول کانگریس میں آئے اور پھر پارٹی مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ۲۰۱۵ء میں وہاں سے ۶؍ سال کیلئے نکالے گئے۔ ۲۰۱۸ء میں انہوں نے بابری مسجد کی شہادت میں براہ راست ملوث رہنے والی جماعت بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی اور ۲۰۱۹ء میں اس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کاالیکشن بھی لڑا۔ ۹؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو جس وقت بابری مسجد سےمتعلق سپریم کورٹ کا افسوس ناک فیصلہ آیا تھا تو اُس وقت ہمایوں کبیر بی جے پی میں تھے اور اُس وقت بھی (۵؍ اگست ۲۰۲۰ء کو) ان کے گلے میں بی جےپی ہی کا پٹہ تھا جب بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا تعمیراتی کام شروع ہوا تھا۔ اُس دوران ان کی جانب سےکسی بھی قسم کا کوئی مزاحمتی اور مذمتی بیان ہماری نظروں سے نہیں گزرا۔ ۲۰۲۱ء میں ۶؍ سال بعد وہ ایک بار پھر ترنمول کانگریس میں واپس آگئے۔ 
سوال یہ ہے کہ۳۳؍ سال بعد اچانک بابری مسجد اُن کیلئے جذباتی مسئلہ کیوں ہوگیا؟ کسی کی نیت پرشک کرنا ہمارا کام نہیں لیکن یہ سوال تو بہرحال پوچھا ہی جاسکتا ہے کہ اب جبکہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جےپی ریاست میں ہندو مسلم کاماحول گرم کرکے اپنی جیت کا راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے، ہمایوں کو کبیر کو ’بابری مسجد‘ کی تعمیر کی بات کیوں سوجھی؟ ایک سوال اور۔ ۲۸؍نومبرکو ہمایوں کبیر نے ایک اشتعال انگیز بیان دیا تھا کہ ’’بابری مسجد کی تعمیر سے اگر کسی نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر۱۰۰؍ مسلمان شہید ہوئے تو وہ۵۰۰؍ کو اپنےساتھ لے جائیں گے۔ ‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا ان ۱۰۰؍ مسلمانوں میں انہوں نے اپنا بھی نام شامل رکھا ہے یا بھولے بھالے عوام کو بھٹی میں جھونک کر اپنا الّو سیدھا کرنے کی منصوبہ بندی ہے؟
اب ایسے میں بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ کیا ہمایوں کبیر جیسوں کے ’جذبات‘ سے ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئےہم بھی جذباتی ہوجائیں اور اپنے آس پاس کا ماحول خراب کربیٹھیں یا پھر اپنے اپنے علاقوں میں مالیر کوٹلہ جیسے حالات بنائیں جہاں مسلمانوں کے اخلاق سے متاثر ہوکر سکھ بھائیوں نے مدینہ مسجد کیلئے راہ ہموار کی، دامے درمے قدمے، سخنے تعاون پیش کیا اور مسجد کی تکمیل پر یہ خوبصورت جملہ ادا کیا کہ ’’مسجد بن جانے سے اب ہمارا گاؤں مکمل ہوگیا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK