ملک کی مشہور سماجی اور علمی شخصیت ڈاکٹر گوہر رضا نے کہا کہ آج تعلیمی نصاب کا پورا ڈھانچہ ہی غیرسائنٹفک سوچ اور کہانیوں و قصوں پر مبنی ہے۔
EPAPER
Updated: October 28, 2024, 5:32 PM IST | Muhammad Tariq Khan | Mumbai
ملک کی مشہور سماجی اور علمی شخصیت ڈاکٹر گوہر رضا نے کہا کہ آج تعلیمی نصاب کا پورا ڈھانچہ ہی غیرسائنٹفک سوچ اور کہانیوں و قصوں پر مبنی ہے۔
ملک کی مشہور سماجی ،علمی اور ادبی شخصیت ڈاکٹر گوہر رضا ایک جدید فکری اور سائنٹفک فکرو نظریہ کے مالک ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف اور ایک اچھے شاعر ہیں۔ان کے تین شعری مجموعے ’ پہلاترک‘ ،’گرد سنگ‘ اور ’تسکین‘ شائع ہو چکے ہیں۔ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلتے مذہبی قدامت پسندی و جنون کے ماحول پر ان کی ایک کتاب جو ہندی میں ہے’متھکوں سے وِگیان تک‘شائع ہوئی ہے۔اسی کی تشہیر کے سلسلے میں وہ لکھنؤ آئے ہوئے تھے۔نمائندہ انقلاب نےان سے ملک کے موجودہ حالات پر طویل گفتگو کی۔اس گفتگو کے بعض اہم اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں ۔
ملک کا سماجی و معاشی طور پر مستقبل کیا ہے اور اسے وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟کے جواب میں ڈاکٹر گوہر رضا نے کہا کہ حالانکہ وہ معاشیات کے ماہر نہیں ہیں،پھر بھی اپنے دوست اور ملک کے مایہ ناز اکنامسٹ ارون کمار کی کتاب میں درج ان کے تجزیہ کے مطابق ملک کی معاشی حالت اس مقام پر جا پہنچی ہے کہ جہاں سے اس کو سنبھالنا نہایت دشوارہے۔انہوں نے ارون کمار کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نوٹ بندی نےملک کی غیر منظم صنعت کی کمر کو توڑ کر رکھ دیا ہے ،یہی وہ سیکٹر تھا کہ جو۹۰؍ فیصد ملازمتیں مہیا کراتا تھا جبکہ منظم صنعت تو صرف۱۰؍ فیصد ہی ملازمتیں دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں بے روزگاری کا تناسب تیزی سے گزشتہ دس برسوں میں بڑھا ہے۔رہی سہی کسر ایف ڈی آئی نے پوری کر دی ،جس کی وجہ سے ملک کا بیشتر سرمایہ بیرونی ممالک منتقل ہو گیا۔ اس میں سب سے زیادہ شیئر چین کے پاس ہے۔چین نے صارفیت و چھوٹی صنعت کے پورے بازار پر غلبہ حاصل کر لیا ہے جس کی وجہ سے ملک کی ریڑھ کی ہڈی یعنی چھوٹی صنعتوں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔اب دوسری بڑی آفت آرٹی فیشیل انٹلیجنس( ـاے آئی )بھی ملک میں دستک دے چکی ہے۔اس کے آنے سے لاکھوں کی تعداد میں پھیلا کال سینٹروں کا جال ختم ہو جائے گا، نتیجے میں کروڑوں نوجوان بے روز گار ہو جائیں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر گوہر رضانے کہا کہ ملک کے وزیر اعظم ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہے ہیں اور سائنٹفک فکر کو پیچھے دھکیل رہے ہیں لیکن ایک دن یہی ٹیکنالوجی ملک کے سماجی و معاشی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر دے گی۔عوام کو اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی۔
یہ بھی پڑھئے: ایک نو عمر گینگسٹر جوخود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگاہے
یہ پوچھے جانے پر کہ مودی اقتدار میں بابائوں کی ناز برداری بڑھنے سے ملک کوکیا نقصان پہنچنے جا رہا ہے؟ڈاکٹر رضانے کہا کہ مودی راج میں بابا جگہ جگہ اُگنے شروع ہو گئے ہیں۔سرمایہ داروں ،سیاست دانوں کے ساتھ ان کے ناپاک رشتوں کا ایسا تانا بانا جال کی شکل میں بن گیا ہے کہ اس میں سے ملک کا نکلنا دشوار نظر آ رہا ہے۔پاکستان اس مرض میں مبتلا ہو کر تباہ ہو چکا ہے، اس کا حشر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔آزادی کے بعد ہمارے ملک کو پنڈت جواہر لال نہرو نے سائنس اور منطق پر مبنی فکر سے ملک کے سماجی ،تعلیمی و معاشی نظام کی بنیاد رکھی تھی ۔ ہمارے سائنس اور سماجی نظریہ کے سبب ہی پوری دنیا میں ہندوستان کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ملک کا وزیر اعظم یہ کہتا ہے کہ ہمارے ملک کی بنیاد سائنس اور سائنٹفک ٹمپر پررہے گی تو نیچے انتظامی سطح تک ایک پیغام جاتا ہے اور ملک اسی راہ پر چلتا ہے جیسا کہ مودی کے آنے سے قبل چل رہا تھا۔بر خلاف اس کے جب ملک کا وزیر اعظم یہ کہتا ہے کہ نالے کی گیس سے چائے بنائی جا سکتی ہے اور پلاسٹک سرجری ہمارے ملک میں بہت پہلے سے تھی تو پھر کہانیوں اور قصوں کا غلبہ ملک میں اوپر سے لے کر نیچے تک ہو جاتا ہے ۔
گوہر رضا نے کہا کہ حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی کی بنیاد اسی طرح کی ذہنیت پر مرتب کی گئی ہے۔تعلیمی نصاب کا پورا ڈھانچہ ہی غیرسائنٹفک سوچ اور کہانیوں و قصوں پر مبنی ہے ۔اتنا ہی نہیں اب طبی سائنس میں بھی زمانے قدیم کی پیتھی کو بڑھاوا دینے کے کوششیں کی جا رہی ہیں ۔کورونا کی مہلک وبائی مرض کے وقت تین مرکزی وزراء کا ٹی وی پر آ کر بابا رام دیو کی کورونل دوا کی تشہیر کرنا اس کی ایک مضبوط مثال ہے۔گوہر رضا نے بتایا کہ انہوں نے انہی حالات سے عوام کو ہوشیار کرنے کے مقصد ہی کے تحت ہندی میں ایک کتاب’متھکوں سے وگیان تک‘ لکھی ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ ملک میں جمہوریت کا کیا مستقبل ہے ؟ انہوںنے کہا کہ فاشزم ہمیشہ جمہوریت کے بطن ہی سے پیدا ہوتا ہے، وہ خواہ جرمنی کا فاشزم ہو یا اٹلی کا ۔فاشزم کا ہدف ہی جمہوری یونٹوں کو اگر ختم نہ کر سکیں تو کمزور کرنا ہوتا ہے۔ آج ویسے ہی حالات ہمارے ملک میں نظر آ رہے ہیں۔پہلے میڈیا پر کنٹرول ،پھر افسر شاہوں کو فرقہ پرست بنانا اور ان کے ذریعہ معاشرے میں فرقہ پرستی کی فکر کو مضبوط کرنا ہے۔ بلڈوزروں کا استعمال اس کی ایک زندہ مثال ہے۔اس کام میں عدلیہ کو بھی کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
ای وی ایم کی معتبریت پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر رضا نے کہا کہ ہندوستانی سائنس دانوں کیلئے یہ کتنی قابل اہانت بات ہے کہ وہ ایک مشین کو کنٹرول نہیں کر سکتے جبکہ چاند اور مریخ پر بھیجے گئے راکٹ کو زمین سے بیٹھ کر کنٹرول کر سکتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ انسان کی بنائی ہوئی کوئی مشین ایسی نہیں جسے ہیک نہیں کیا جا سکتا ہو ۔ای وی ایم کے ذریعہ الیکشن مشینری کو بد عنوان بنایا جا رہا ہے ۔نہایت چالاکی اور سمجھداری کے ساتھ ای وی ایم کا کھیل انتخاب کے وقت کھیلا جاتا ہے ۔ان سیٹوں پر ہی ای وی ایم کو ہیک کیا جا تا ہے جہاں قریب کی ٹکر ہوتی ہے۔جب زیادہ ووٹنگ کسی بوتھ پر ہوتی ہے اوریک طرفہ ہوتی ہے تو اس بوتھ پر یہ کارستانی نہیں کی جاتی کہ گرفت میں نہ آ جائیں۔انہوںنے کہا کہ ای وی ایم کے اس کھیل کے سبب عوام کو ووٹنگ نظام سے اعتماد رفتہ رفتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے اور اگر یہ پوری طرح سے ختم ہو گیا تو ملک کے حالات پھر سری لنکا یا بنگلہ دیش جیسے ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سوال پر کہ مسلمانوں کی جان ومال پر کئے جا نے والے چوطرفہ حملوں پر انہیں کیا موقف اختیار کرنا چاہئے؟ کے جواب میں انہوںنے کہا کہ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مسلمان اور ان کی قیادت نے حیرت انگیز طور پر ابھی تک نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔انہیں یہی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔ ان کے اسی صبر و تحمل کے سبب اکثریتی طبقہ، جسے بڑے پیمانے پر بی جے پی اور آر ایس ایس اور ان کی ذیلی جماعتوں نے فرقہ پرست بنا ڈالا تھا، میں مسلمانوں کے تئیں نرمی پیدا ہوئی اور ان کی صفوں میں شگاف پڑنا شروع ہو چکے ہیں ۔
راہل گاندھی کی شخصیت پر پوچھے گئے سوال پر انہوںنے کہا کہ راہل نے حال کے دنوں میں اپنی سیاسی سرگرمیوں سے عوام کے دل کے تاروں کو چھوا ہے۔ بالخصوص نوجوانوں میں انہوںنے جوش اور امید کا ایک کرنٹ دوڑا دیا ہے۔ انہوںنے وہی کیا جو۲۰۱۴ء سے قبل سول سوسائٹی کے اکابرین کا ایجنڈہ تھا ۔
یہ پوچھے جانے پر کہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر ہر پارٹی نے حاشئے پر کیوں ڈال رکھا ہے؟ ڈاکٹر رضا نے کہا کہ اس کیلئے مسلمان خود ہی ذمہ دار ہیں۔ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات کے وقت جب راہل ، مسلم قائدین سے بات چیت کر رہے تھے تو انہیں بتایا گیا کہ مسلمانوں کا نام بھی زبان پر وہ نہ لیں،پہلے وہ انتخاب جیتیں۔گوہر رضا نے کہا کہ اسی وقت انہوں نے متنبہ کیاتھا کہ مسلمانوں سے بڑی فاش غلطی ہونے جارہی ہے ۔یہ آر ایس ایس کی چال تھی جو مسلم قائدین کے دماغ میں بٹھائی گئی تھی،مگر اُس وقت کسی نے ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔n