Inquilab Logo

ہمارے اساتذہ اور ماہرین تعلیم’ تعلیم نگاری‘ پرمحنت کریں، اُسےایک فن کے طور پر رائج کرنے کی کوشش کریں

Updated: March 03, 2024, 1:11 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

آج ہمارا روئے سُخن اساتذہ اور ادب کے طلبہ سے ہے۔ اساتذہ جو ابھی برسرِروزگار ہیں یا سبکدوش ہوچکے ہیں نیز ادب کے علاوہ دیگر شعبوں کے طلبہ بھی سنجیدگی سے توجہ فرمائیں۔ 

Teaching is not a profession but a mission. Photo: INN
تدریس پیشہ نہیں ہے بلکہ مشن ہے۔ تصویر : آئی این این

آج ہمارا روئے سُخن اساتذہ اور ادب کے طلبہ سے ہے۔ اساتذہ جو ابھی برسرِروزگار ہیں یا سبکدوش ہوچکے ہیں نیز ادب کے علاوہ دیگر شعبوں کے طلبہ بھی سنجیدگی سے توجہ فرمائیں۔ 
 اُردو کے ادب میں بے پناہ طاقت ہے، نثر، نظم غرض کہ ہر صنف میں اکابرینِ ادب نے اپنا وجود تک نچھاور کیا ہے اور ان سارے اصناف کی آبیاری کی ہے۔ آج ہم ادب کے طلبہ و اساتذہ کو بتانا چاہیں گے کہ ہماری زبان میں اَن گِنت اصناف موجود ہیں۔ ان ساری’نگاری‘میں کئی نے اپنی جڑوں کو مضبوط کیا ہے۔ نِت نئے تجربات کئے ہیں اور مختلف دلکش نمونے پیش کئے ہیں۔ آئیے ہم جائزہ لیں کہ ہماری زبان و ادب میں کون کون سی ’نگاریاں ‘ موجود ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:
 مضمون نگاری، افسانہ نگاری، خاکہ نگاری، کردار نگاری، ڈرامہ نگاری، نظم نگاری، انشائیہ نگاری، تبصرہ نگاری، تنقید نگاری، قصیدہ نگاری، مکتوب نگاری، نثر نگاری، تاریخ نگاری، ناول نگاری، مرثیہ نگاری، مقالہ نگاری، ترجمہ نگاری، سوانح نگاری، کالم نگاری، مزاح نگاری، سیرت نگاری، علامت نگاری، حقیقت نگاری، مرقع نگاری، قصّہ نگاری، روزنامہ نگاری، واقعہ نگاری، نامہ نگاری، تجزیہ نگاری، روزنامچہ نگاری، تلخیص نگاری، مکالمہ نگاری، فطرت نگاری، گیت نگاری، معیشت نگاری، جزئیات نگاری، موازنہ نگاری اور شخصیت نگاری وغیرہ۔ 
 ہماری زبان کے دانشور، اساتذہ، ادیب، شاعر، صحافی، نیز ماہرینِ تعلیم اس پر غور کریں کہ اس درجہ وسیع اس زبان میں ساری ’نگاریاں ‘ موجود ہیں مگر ان میں تعلیم نگاری کیوں نہیں ؟ ہمارے سارے ادباء، شعراء، اساتذہ و ماہرینِ تعلیم کسی نہ کسی اسکول یا تعلیمی ادارے سے فارغ ہوتے ہیں۔ آخر اُنھیں یہ احساس کیوں نہیں کہ تعلیمی دنیا کے بھی کچھ موضوع ہوتے ہیں، کچھ مسائل ہوتے ہیں اور کچھ اساتذہ نے، کچھ ماہرینِ تعلیم نے اُس ضمن میں کچھ وسائل کی گنجائش بھی پیدا کی گئی ہوگی۔ ہر ادارے میں بھانت بھانت کے بچّے موجود رہتے ہیں اُن کی اہمیت و استطاعت، اُن کے والدین کے رویے، کسی علاقے کے معاشرے کا تعلیم اور حصولِ تعلیم کے تئیں رویّہ، اس سب پر گفتگو تو ہوتی رہنی چاہئے اور اُن سب کے ضمن میں مشورے، سجھائو، عملی اقدامات کیلئے سرجوڑ کر توبیٹھیں اور تبھی ممکن ہے جب ہم ہمارے یہاں تعلیم نگاری کو رائج کریں۔ افسانہ نگاری سے لے کر مکالمہ نگاری اور قصیدہ نگاری سے لے کر انشائیہ نگاری تک کی ساری جہات میں جھنڈے گاڑنے والے یہ اہلِ دانش تعلیم نگاری کو اپنانے اور عام کرنے کیلئے کیوں تیار نہیں ہیں ؟ اس کی ایک بڑی وجہ ہے ہماری موجودہ رائج ذہنیت۔ آج ہم اس کا تجزیہ کریں گے۔ 

یہ بھی پڑھئے: طلبہ جانتے ہیں کہ اُن کا وقت کہاں اور کس وجہ سے ضائع ہورہا ہے لیکن کمزور قوتِ ارادی آڑے آتی ہے

 سب سے اچھا اُستاد، جو زندگی بھر طالب علم رہے:
 ہمارے بیشتر اساتذہ ڈگریوں کے حصول اور گورنمنٹ ایڈیڈ اداروں میں ملازمت، اسی کو تدریسی پیشہ سمجھتے ہیں، دراصل یہ لفظ ’پیشہ‘ ہی غلط ہے، کامیاب و سرخرو قومیں اِسے تدریسی مشن سمجھتی ہیں۔ علم حاصل کرنا، اپنی معلومات کو اَپ ڈیٹ کرنا، اپنی خود کی تعلیمی نفسیات کی تخلیق کرنااب ہمارے تعلیمی اداروں میں بہت کم دِکھائی دیتا ہے۔ اکثر ہمیں، اپنے تعلیمی اداروں میں کچھ اس طرح کی باتیں سنائی دے رہی ہیں :
 (۱) ہمیں کون کیا سکھائے گا ؟ ہم گزشتہ تین دہائیوں سے تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ 
 (۲) ہم ہر روز دو ہزار چہرے پڑھتے ہیں۔ جی ہاں دو ہزار طلبہ میرے اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ 
 (۳) ہمارے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے۔ ۲۵؍ سال کا تدریس کا تجربہ ہے ہمیں۔ 
 ( ۴) آپ کو معلوم ہے ہم ایم اے، ایم ایڈ اور ایم فل ہیں۔ تعلیمی نفسیات ہمیں دوسروں سے سیکھنی ہوگی ؟
 (۵) طلبہ کے نفسیاتی اور ان کے تعلیمی مسائل ہمیں کون سکھائے گا ؟ معلوم ہے ہمیں آدرش شکشک کا ریاستی سطح کا ایوارڈ مل چکا ہے اور نیشنل ایوارڈ کیلئے فائل او پر تک جا چکی ہے؟
 اگر ہمارے تعلیمی اداروں سے اور ہمارے معماران قوم یعنی اسا تذہ سے اس طرح کی باتیں سننے میں آئیں  گی تو اس سے کیا ہوگا اور کیا ہوا ؟ ظاہر ہے یہی ہوا کہ : (الف) ہمارے بیشتر تعلیمی ادارے سرکاری ادارے بن کر رہ گئے۔ (ب) وہ سرکاری ایس ایس کوڈ کے غلام بن کر رہ گئے۔ (ج) ان تعلیمی اداروں پر ایک طرح کا جمود طاری ہو گیا۔ (و) ہم اپنے تعلیمی نظام، اپنے طرز تعلیم و تدریس میں نت نئی باتیں پیدا کرنے اور نت نئے تجربات کرنے میں ناکام رہے۔ (ہ) ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں تعلیم و تدریس کی ناکامی کیلئے والدین، طلبہ، انتظامیہ، معاشرہ اورحکومت وغیرہ کو ذمہ دار ٹھہرانے کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 
 مندرجہ بالا تمام واقعات کی بنا پر ہر کسی کو بھاگنے کے نت نئے راستے مل گئے۔ ذمہ داری کا احساس فنا ہو گیا اور اسی بنا پر ہمارے ان جہاندیدہ اور تجربہ کار اساتذہ سے کسی نے یہ پوچھا کہ :
 (۱) اگر آپ تدریس کے پیشے سے تین دہائیوں سے وابستہ رہے تو علم، تعلیم اور تدریس کے عنوان پر ہر دس سال میں ایک کتاب اس لحاظ سے کم از کم تین کتا بیں کیوں نہیں لکھیں ؟
  (۲) اگر آپ ہر روز دو ہزار چہرے پڑھتے تھے تو پھر کبھی اُن سے متعلق ۲۰۰؍ الفاظ پرمشتمل کوئی مضمون کیوں نہیں لکھا ؟
 (۳) تدریس کا ربع صدی کا آپ کا تجربہ ہے، ماشاء اللہ !نئے اساتذہ آپ کے مشاہدات و تجربات سے فیض یاب ہوں اُس کیلئے۲۵؍ برسوں میں آپ نے۲۵؍ مضامین کیوں نہیں لکھے؟
  (۴) آپ ایم اے، ایم ایڈ، ایم فل ہیں، بہت خوب ! یہ تو حکومت کی اور یونیورسیٹیوں کی ڈگریوں کے نام ہیں جن کے نصاب میں شامل تعلیمی نفسیات کی کچھ کتابیں تو آزادی ہند سے قبل کے ایڈیشن تھے اور بجلی کی رفتار (اب تو الیکٹرو میکینک شعاعوں کی رفتار کہنا مناسب ہے ) سے زیادہ تیزی سے نالج بڑھ رہا ہے اُس میں وہ تعلیمی نفسیات کتنے کارگر ہیں ؟ پھر آپ کا طرز تدریس بی ایڈ /ایم ایڈ کے نصاب ہی کا طواف کیوں کر رہا ہے؟ اُس سے ہٹ کر آپ نے اپنی قوم کے بچّوں کی نفسیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے تدریس کے کون سے نت نئے ضابطے معلوم کر لئے ؟ اور انہیں دوسرے اساتذہ تک پہنچانے کیلئے کن ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا ؟
 محترم اساتذہ کرام !
 ہم آپ سے صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آپ اپنے سارے احساسات، مشاہدات، تجربات، علوم اور نالج کو اللہ کیلئے دنیا والوں میں بانٹ کر جائیں، انہیں دے کر جائیں، لے کر نہیں کیونکہ آپ کے پاس علم کتنا ہے وہ زیادہ اہم نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ آپ نے وہ علم کتنے لوگوں میں بانٹا اور کتنے لوگوں تک پہنچایا۔ اس کیلئے تعلیم نگاری کا چلن ہمارے معاشرے کے تعلیمی اداروں میں رائج ہونا ضروری ہے۔ 
قسم ہے قلم کی!
 یاسیت، مایوسی سے لبریز و منفی فکر کے حامل ذہن اکثر یہ سوالات کرتے رہتے ہیں کہ آخر اپنے مشاہدات، احساسات و تجربات کو قلم بند کر کے کیا حاصل ہوگا؟ کیا واقعی اس سے کچھ فرق پڑتا ہے؟ کیا قلم میں واقعی کوئی طاقت پوشیدہ ہوتی ہے؟
 یہ سوال کرنے والے اللہ کے کلام سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اس کا ئنات میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا، اللہ نے اپنے کلام میں قلم کی قسم بھی کھائی اور ایک سورہ قلم بھی موجود ہے کتاب مبین میں ! لہٰذا حضورؐ کے حاکمانِ وقت کو مکتوبات ہوں یا فاران کی چوٹیوں سے آپ کے خطبات، غرض کہ دنیا کے سارے انقلابات میں تحریر و تقریر کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے۔ اسلئے ہمارے اساتذہ کرام مفکرین اور اسکالرس کو سمجھ لینا چاہئے کہ صرف تبدیلی نہیں بلکہ انقلاب کیلئے بھی سب سے مؤثر ہتھیار قلم ہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK