ہندوستانی انتخابی قانون اس واضح اصول پر قائم ہے کہ آپ وہیں ووٹ دے سکتے ہیں جہاں آپ عام طور پر رہتے ہوں۔ محض کسی اور جگہ جائیداد رکھنے، آبائی گاؤں سے جذباتی تعلق یا پولنگ سے کچھ وقت پہلے عارضی قیام سے کسی طرح بھی عام رہائش ثابت نہیں ہوتی۔
EPAPER
Updated: December 14, 2025, 12:00 PM IST | S. Y. Quraishi | Mumbai
ہندوستانی انتخابی قانون اس واضح اصول پر قائم ہے کہ آپ وہیں ووٹ دے سکتے ہیں جہاں آپ عام طور پر رہتے ہوں۔ محض کسی اور جگہ جائیداد رکھنے، آبائی گاؤں سے جذباتی تعلق یا پولنگ سے کچھ وقت پہلے عارضی قیام سے کسی طرح بھی عام رہائش ثابت نہیں ہوتی۔
ان دنوں اس طرح کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں کہ دہلی، ہریانہ اور دیگر ریاستوں سے بڑی تعداد میں لوگ انتخابی دنوں میں بہار کا رخ کر کے عارضی طور پر ووٹر فہرست میں اپنا نام درج کراتے ہیں اور ووٹ ڈال کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں دہلی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی مثال کثرت سے دی جا رہی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر دہلی میں اپنا نام حذف کرا کے بہارکی ووٹر لسٹ میں درج کرایا اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ اگر یہ دعوے درست ہیں تو یہ طریقہ ٔ کار براہِ راست قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ہندوستانی انتخابی قانون ایک نہایت واضح اصول پر قائم ہے کہ آپ وہیں ووٹ دے سکتے ہیں جہاں آپ عام طور پر رہتے ہوں۔ محض کہیں جائداد رکھنے، آبائی گاؤں سے جذباتی تعلق یا پولنگ سے کچھ وقت پہلے عارضی قیام سے کسی طرح بھی عام رہائش ثابت نہیں ہوتی۔
قانونی بنیاد:عام رہائش کی اصل روح
نمائندگیِ عوام ایکٹ ۱۹۵۰ء (آر پی اے ۱۹۵۰ء) کے تحت ہر شخص کا اندراج اسی حلقے میں ہو سکتا ہے جہاں وہ عام طور پر رہتا ہو (سیکشن ۱۹)۔ سیکشن ۱۷؍ اور ۱۸؍مزید وضاحت کرتے ہیں کہ کسی شہری کا نام دو حلقوں میں بیک وقت درج نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ایک ہی حلقے میں دو بار۔ سیکشن ۲۰؍’’عام رہائش‘‘ کی وہ تعریف فراہم کرتا ہے جو صرف کاغذی ثبوتوں پر نہیں بلکہ حقیقی، مسلسل اور عملی رہائش پر مبنی ہے۔ اس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جائیداد کی ملکیت کو رہائش کا ثبوت نہیں سمجھا جا سکتا۔ سیکشن ۳۱؍کسی بھی غلط یا گمراہ کن بیان، مثلاً ایک حلقے میں موجود اندراج چھپا کر دوسرے حلقے میں فارم جمع کرانےکو قابلِ سزا جرم قرار دیتا ہے۔ قانون میں ’چھ ماہ‘ کا لفظ نہیں، تاہم انتخابی افسران عملًا اسی مدت کو رہنمائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کوئی شخص کسی حلقے میں واقعی رہتا ہے یا نہیں۔ بی ایل اوزکے نوٹس میں بھی یہی مدت بطور معیار درج ہوتی ہے۔
یہ نقل مکانی نہیں بلکہ حکمتِ عملی ہے؟
اگر ووٹروں کو منصوبہ بندی کے تحت باہر سے لا کر کمزور دعوؤں کی بنیاد پر درج کیا گیا ہو اور وہ بعد میں دوبارہ اپنی پرانی ریاست میں اندراج کرانے والے ہوں، تو یہ حقیقی نقل مکانی نہیں بلکہ دانستہ غلط بیانی اور دھوکہ دہی ہے۔ ایسی کوشش حلقہ جاتی نمائندگی کے بنیادی تصور کو مسخ کرتی ہے، کیونکہ منتخب نمائندہ دراصل انہی شہریوں کی ترجمانی کرتا ہے جو علاقے کی سہولیات، ڈھانچے اور انتظامی فیصلوں کے نتائج روزمرہ کی زندگی میں جھیلتے ہیں۔
حل:شفافیت کا تحفظ، مگر شہریوں پر بوجھ نہیں
اصلاح کی ضرورت حقیقی نقل مکانی کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنے سے نہیں پوری ہوگی، بلکہ فرضی یا وقتی اندراج کے رجحان کو روکنے سے ہوگی۔ اس کیلئے درج ذیل عملی اقدامات انتہائی مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔
۱۔ تحقیقات اور درستگی کا موجودہ اختیارفعال کیا جائے:
قانون پہلے ہی اجازت دیتا ہے کہ ’’عام رہائش‘‘ ختم ہونے کی صورت میں نوٹس، سماعت اور تفتیش کے بعد نام حذف کیا جائے۔ بی ایل اوز کو پڑوسیوں سے تصدیق، موقع کا معائنہ اور واضح رپورٹ پیش کرنی چاہئے۔
۲۔ بین ریاستی ڈی-ڈپلی کیشن کو مضبوط بنایا جائے:
ای آر او۔ نیٹ، اس طرح تشکیل دیا جائے کہ وہ ایسے افراد کو فوراً نشان زد کرے جو حال ہی میں کسی دوسری ریاست میں درج رہے ہوں۔ ایسے معاملات میں خودکار طور پر مضبوط ثبوت طلب کیے جائیں۔
۳۔ سخت مگر محدود فوجداری کارروائی
فارم ۶؍میں جھوٹی معلومات فراہم کرنا جرم ہے۔ چند واضح اور نمونہ ساز مقدمات خوفِ قانون پیدا کر سکتے ہیں، بغیر اس خطرے کے کہ عام شہری خوفزدہ ہوں۔
۴۔ انتخابات کے بعد سائنسی آڈٹ
حساس علاقوں میں نئے ووٹروں کا چند ماہ بعدحقیقی جائزہ لیا جائے۔ اگر معلوم ہو کہ بڑی تعداد عملی طور پر موجود ہی نہیں، تو یہ ٹھوس شواہد فراہم کرے گا۔
۵۔ حقیقی نقل مکانی کرنے والوں کا تحفظ
خود تصدیق شدہ پتہ، آجر یا ادارے کی سند اور بی ایل اوکی تصدیق کے بعد اندراج کو یقینی بنایا جائے تاکہ محنت کش اور غریب شہری غیرضروری رکاوٹوں کے شکار نہ ہوں۔
دہلی کے پروفیسر کی مثال اصول کا امتحان
اگر مذکورہ پروفیسر واقعی دہلی سے منتقل ہو کر بہار میں مقیم ہو گئے ہیں تو ان کا بہار میں اندراج درست اور دہلی کا حذف ہونا لازمی ہے، لیکن اگر انہوں نے محض ووٹ ڈالنے کیلئے عارضی اندراج کرایا اور اب پھر دہلی میں نام لکھوانا چاہتے ہیں تو یہ وہی رویہ ہے جس کیلئے قانون واضح طور پر کارروائی کی ہدایت دیتا ہے۔ اصل مقصد کسی فرد کو نشانہ بنانا نہیں، بلکہ اس اصول کی پاسداری ہے جو ووٹر فہرست کو انتخابات کی بنیاد بناتا ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ انتخابی فہرست ہماری جمہوریت کا نرم ترین مگر سب سے اہم پہلو ہے۔ اسے شفافیت، جانچ اور تحریری فیصلوں کے ذریعے محفوظ بنایا جانا چاہئے، نہ کہ بلا وجہ شہریوں کو مشکوک سمجھ کر۔ جہاں غلط بیانی ثابت ہو وہاں حذف اور قانونی کارروائی ضروری ہے اور جہاں شہری حقیقتاً نقل مکانی کر چکا ہو وہاں مکمل تحفظ لازم ہے۔ بصورت دیگر ایسا کچھ نہیں ہونا چاہئے۔
ایک آخری جملے میں واضح کرتا چلوں کہ آپ وہیں ووٹ دیتے ہیں جہاں آپ رہتے ہیں۔ نہ اس جگہ جہاں آپ کا آبائی مکان خالی پڑا ہو، نہ وہاں جہاں سیاسی ضرورت کے تحت آپ کو لے جایا جائے اور نہ وہاں جو پولنگ کے دن آپ کو سہل لگے۔ عام رہائش ایک لچکدار مگر اصولی معیار ہے جو طلبہ، مزدوروں اور بے گھر افراد تک سب کو سمیٹ سکتا ہے، لیکن اسے انتخابی فائدے کیلئے من چاہا رنگ نہیں دیا جا سکتا۔ انتخابی ’سیاحت‘ دیکھنے میں دلچسپ ہو سکتی ہے، مگر یہ جمہوریت کو کمزور کرتی ہے۔ اس دروازے کو قانون، شفافیت اور غیر جانبداری، نوٹس، سماعت اور مدلل فیصلے کے ذریعہ بند کرنا ہوگا۔ یہی راستہ ووٹر فہرست، ووٹ اور ووٹر تینوں کی حرمت کا اصل محافظ ہے۔