Inquilab Logo

مشاعرہ سننےکےبعد گھرواپس ہونےکیلئےسہولت نہ ہونےکی وجہ سےممبئی سینٹرل بس ڈپومیں رات گزارنی پڑتی تھی

Updated: August 20, 2023, 2:50 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

پنویل کے ۷۵؍سالہ محمد اسلم یوسف پٹھان مالی دشواری کے سبب آئی ٹی آئی کی تعلیم پوری نہیں کرسکے، اس کے بعد عملی زندگی آبائی کاروبارمیں گزاری، شعر و ادب سے گہری دلچسپی رہی ہے، عمر کے اس مرحلے پر بھی پوری طرح مستعد ، فعال اور سرگرم ہیں

Muhammad Aslam Yusuf Pathan. Photo. INN
محمد اسلم یوسف پٹھان ۔ تصویر:آئی این این

محمد اسلم اپنی تعلیم پوری نہیں کرسکے تھے،اسلئے آبائی کاروبار سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ پنویل میں ساتویں جماعت کے بعد اُردومیڈیم کا اسکول نہ ہونے سے یہاں کے مسلم گھرانوں کےبچوں کومجبوراً مراٹھی میڈیم کےاسکول میں پڑھائی کرنی پڑتی تھی۔ چونکہ میرا تعلق کوکنی برادری سے ہے، اس لئے مجھے آٹھویں اورنویں جماعت کی پڑھائی مراٹھی میڈیم سے کرنےمیں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی لیکن متمول گھرانوں کے مسلمان ،جو اپنے بچوں کواُردو میڈیم سےپڑھانےکےخواہشمندتھے ،وہ بچوں کو ممبئی کے انجمن اسلام میں پڑھاتےاور ان کے قیام کا انتظام رشتےداروں اورعزیزوں کے گھروں پر کرتےتھے۔ یہ بچے عموماً اتوارکو اپنے گھر(پنویل) آتے تھے۔لیکن مالی اعتبار سےکمزور مسلمانوں کےبچےساتویں جماعت کے بعدمراٹھی میڈیم سے پڑھتے یا پڑھائی ترک کرکےکام کاج سے لگ جاتےتھے۔ ‘‘
آزادی کے وقت گاؤں میں ہونے والی تباہ کاریاں 
  ملک کی آزادی سےمتعلق آبائی ویندنےگائوں سے جڑی یادوں کا تذکرہ کرتےہوئے انہوں نے بتایاکہ’’آزادی کےوقت میں صرف ایک سال کاتھا۔ لیکن میرے والد نے ملک کی آزادی اور تقسیمِ وطن کے دورکی گہما گہمی کےبارےمیں بتایاتھاکہ فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے لوگ گائوں سے ہجرت کرنے پرمجبور تھے۔یہاں کے بیشتر لوگوں نے پنویل میں پناہ لی تھی ۔اسی وجہ سے ہم لوگ بھی گائوں چھوڑکر پنویل آکر بس گئے۔گائوں میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے۔ یہاں مسلمانوں کی کافی املاک تھی۔ یہاں ایک مسجد اور درگاہ بھی تھی۔آج یہ گائوں مسلمانوں سے خالی ہے۔والد محترم سے جب بھی گائوں کے بارے میں گفتگو ہوتی توان کی آنکھوں میں گاؤں کی تباہ کاریوں کا منظر ابھر آتا تھا اور وہ جذبات سے مغلوب ہوجاتے تھے۔ اس لئے ہماری کوشش ہوتی کہ ان سے گائوں کی باتیں نہ کی جائیں ۔‘‘
والدہ کے کہنے پراسٹو کی مرمت کاکام سیکھ لیا 
 اپنی عملی زندگی اور والدہ کی نصیحت سےمتعلق ایک جذباتی قصہ بتاتےہوئے اسلم پٹھان نے کہاکہ ’’آئی ٹی آئی کی پڑھائی ترک کرنے کے بعد ،روزگار کی تلاش شروع کی۔ اس دور میں پنویل کے بیشتر لوگ مہاراشٹرکی ایس ٹی بس میں ملازمت کیا کرتے تھے۔میں نے بھی بس کنڈکٹر کا بیج کسی طرح بنوالیا۔ والدہ کوبیج بنوانے کے بارےمیں معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ نوکری، ایک طرح کی غلامی ہے۔ تم اپنے والد کا اسٹو مرمت کا کام سیکھ لو ۔والد کوسہارا ملے گا اور ایک ہنر بھی سیکھ جائوگے۔ میں نےوالدہ کے فیصلے پرعمل کیا اور والد کےکام میں ہاتھ بٹانے لگا۔ اسٹو مرمت کے کام میں ہاتھ گندہ اورکپڑوں میں مٹی کے تیل ( گھاسلیٹ) کی بدبو برادشت کرنی پڑتی لیکن والدہ کی بات رکھنے کیلئے میں یہ کام کرتارہا اور کچھ مہینوں میں پورا کام سیکھ لیا۔والد محترم کے انتقال کےبعد تنہا اس کاروبارکوجاری رکھااور اس کام سے ہونےوالی آمدنی سے گھر اور بچوں کی پرورش کی۔ وہ دن یاد کرتا ہوں تو ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے۔ دکان پر اسٹو کی مرمت کیلئے گاہکوں کی بھیڑ ہوتی تھی۔ہم باپ بیٹےشام تک کام کرتے تھے ۔ طویل عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ والد کےنہ ہونے کااحساس آج بھی بہت ستاتاہے۔‘‘
ہند وستان پاکستان کے درمیان جنگ اور ہماری کیفیت
 اسلم پٹھان کے مطابق ’’ میں نے۳؍ جنگوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ ہندوستان اور چین کےدرمیان ہونے والی جنگ کافی عرصہ تک جاری تھی۔ اس وقت ملک کےوزیر دفاع کرشنا مینن تھے۔ اخبارات میں وزیر دفاع پرخوب تنقیدیں کی جارہی تھیں ۔ دوسری جنگ رن آف کچھ اور تیسری جنگ ہندوپاک کی تھی۔ اس زمانے میں ٹی وی نہیں تھا۔ لوگ ریڈیوپرجنگ کی خبریں سنا کرتے۔ملک کےمختلف حصوں میں شبہ کی بنیاد پرلوگوں کی گرفتاریاں کی جاتی تھیں لیکن پنویل میں کسی کو شک کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا گیا تھا،اس کے باوجود ماحول بہت زیادہ خوفناک تھا۔آج بھی جب ان جنگوں کے بارےمیں خیال آتاہےتو اس کے ایک ایک مناظر نظروں کےسامنے آجاتےہیں ۔‘‘
مشاعرے سننے کا شوق 
 شعر وادب سےاپنی دلچسپی کےبارےمیں اسلم پٹھان نےبتایاکہ ’’ یہ اس دورکی بات ہے جب پنویل سے ممبئی کیلئے صرف ایس ٹی بس کی سواری ہواکرتی تھی۔ عموماً ممبئی میں ہی مشاعرہ ہواکرتےتھے۔ مشاعرہ سننے کا بڑا شوق تھا۔مشاعرہ رات دیر تک جاری رہتا۔ مشاعرہ سننےکیلئے ایس ٹی بس سےشام کوممبئی پہنچ جاتےلیکن دیر رات مشاعرہ ختم ہونے کے بعد گھرواپسی کی سہولت نہ ہونے سےممبئی سینٹرل بس ڈپو میں رات گزارنی پڑتی۔اس کے باوجود مشاعرہ سننے کاجنون اس قد رغالب رہتا تھا کہ ڈپومیں رات گزارنے کااحساس تک نہیں ہوتا۔چونکہ متعدد دوست ساتھ ہواکرتے تھے،اسلئے کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی تھی۔مشاعرہ سننےکا شوق آج بھی برقرار ہے۔‘‘
لڑکیاں تعلیم درمیان ہی میں چھوڑ دیتی تھیں 
 اسلم پٹھان کےبقول ’’کسی دورمیں پنویل میں گرلز اسکول نہ ہونے سےمخلوط تعلیم کارواج عام تھاجس کی وجہ سےمتعدد لڑکیاں پڑھائی درمیان ہی میں چھوڑ دیتی تھیں ۔ان کےڈراپ آئوٹ کی تعداد زیادہ تھی۔ اس مسئلے کے حل کیلئے مرحوم معین الدین کریل اور عبدالوحید سر نے پیوپلس اینڈ پیرنٹس اسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ پنویل کے مرحوم نثار بڈی کونسلر، مرحوم محمود یوسف مستے اور پیر کرم علی شاہ درگاہ ٹرسٹ نےلڑکیوں کی اردو اسکول کیلئےایک پلاٹ حاصل کرنے کی جدوجہد کی۔ نثار بڈی اور محمود یوسف کی انتھک کوششوں سےپلاٹ حاصل کیاگیا۔ ۱۹۸۹ء میں اس اراضی پر اسکول کے عمارت کاسنگ بنیاد رکھاگیا۔ اس تعلق سےمنعقدہ تقریب میں اردو صحافیوں میں مرحوم ہارون رشید، مرحوم ابراہیم فطرت اورسرفرازآرزوشریک تھے۔اسکول کانام مائنا ریٹی اردو گرلزاسکول رکھا گیا۔ اس اسکول کے قیام کیلئے بڑی جدوجہد کرنی پڑی تھی۔نثار بڈی اور محمود یوسف وغیر ہ جیسے قومی لیڈروں کےذریعے لگایاگیا یہ پودااب ترقی اور کامیابی کی منازل طے کر تاایک تناور درخت بن چکاہے۔یہاں لڑکیوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔اس ادارہ کا بنیادی رکن ہونے کا اعزاز مجھے بھی حاصل ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK