Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسلمانوں سے نفرت اب سفاکیت کی انتہا کو پہنچ گئی ہے

Updated: August 10, 2025, 2:26 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اس کا ثبوت کرناٹک کا وہ معاملہ ہے جس میں کچھ ہندوتوادیوں نے ایک مسلم ہیڈ ماسٹر کو بدنام کرنے کیلئے سیکڑوں بچوں کی جان تک لینے کی سازش رچ لی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

گزشتہ ایک دہائی میں فرقہ ورانہ سیاست کا عروج وطن عزیز کے سماجی نظام کیلئے ایسا خطرہ بن چکا ہے جس کے مظاہر انسانیت کو شرمسار کر رہے ہیں۔ اس وقت مرکز اور ملک کی کئی ریاستوں میں بر سر اقتدار بھگوا پارٹی نے دھرم آمیز سیاست کا ایسا نشہ ہندو نوجوانوں پر چڑھا دیا ہے جو مسلمانوں سے نفرت کے اظہار میں وحشی پن اور درندگی کی ان حدوں سے بھی تجاوز کرنے پر آمادہ ہیں جو انسانیت اور شیطنت کے درمیان حد فاصل قائم کرتی ہے۔ گزشتہ ۱۴؍ جولائی کو کرناٹک کے بیلگاوی میں ایسا ہی ایک انتہائی افسوس ناک حادثہ رونما ہوا جس کی تفصیل یہ سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ کیا آج کی مہذب دنیا میں ایسے بھی انسان پائے جاتے ہیں جو کسی مذہب سے نفرت کے اظہار میں اس قدر سفاک ہوجائیں کہ معصوم بچوں کی جان سے کھلواڑ کرنے میں انھیں عار نہ محسوس ہو؟فرقہ ورانہ منافرت کے مخدوش سماجی ماحول کے تناظر میں اس سوال پر حیرت زدہ ہونےکے بجائے ان اسباب و علل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے جو مسلم دشمنی کی نت نئی سازشوں کو بروئے کار لانے میں بنیادی محرک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک سازش کے تحت بیلگاوی کے ایک پرائمری اسکول کی پانی کی ٹنکی میں کرشنا ماڈر، ساگر پاٹل اور ناگناگوڑا پاٹل نے اسکول کے مسلمان ہیڈماسٹر سلیمان نائیک کو بدنام کرنے کی غرض سے زہر (حشرات کش دوا) ملا دی۔ اس ٹنکی کا آلودہ پانی پینے سے ۱۳؍بچے بیمار ہو گئے۔ پولیس کی بروقت چابکدستی کے سبب یہ شرپسند عناصر گرفتار ہو ئے اور عدالتی حراست میں بھیج دئیے گئے۔ 
اس انتہائی افسوس ناک حادثے کے چند ایسے مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو حادثہ کی سنگینی اور اسے انجام دینے والوں کی اس دیدہ دلیری کو عیاں کرتے ہیں جسے سیاسی اور مذہبی پشت پناہی حاصل ہے۔ پولیس نے جن شر پسندوں کو گرفتار کیاوہ سب کے سب شدت پسند ہندوتوا کے پیرو ہیں اور دھارمک شدت پسندی کی تشہیر و ترویج میں کوشاں رہتے ہیں۔ شدت پسند ہندوتواکو قومی شناخت کا درجہ دینے کی وکالت کرنے والی یہ وہی تنظیمیں ہیں جن کاگزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک گیر سطح پر ایک جال سا بچھ گیا ہے۔ ان سے وابستہ ہندوؤں کا کام یہ ہے کہ وہ گئو کشی، لو جہاد، تبدیلی مذہب اور دیگر کئی مفروضات کے نام پر ان مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں جو سماجی اور معاشی طور پرعموماً کمزور ہوتے ہیں۔ مذہبی جنون میں مبتلا یہ عناصر تعلیم یافتہ، خوشحال اور قدرے متمول مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے ان حربوں کا استعمال کرتے ہیں جو تعلیم، تجارت، ملازمت اور اسپورٹس جیسے شعبوں میں مسلمانوں کو نمایاں نہ ہونے دے۔ سلیمان نائیک کو اسکول ہیڈ ماسٹر ہونے کے ناطے سماج میں معزز مقام حاصل تھا لہٰذا شرپسندوں نے انھیں زدو کوب کرنے کی بجائے ان کے خلاف ایسی سازش رچی جس کا پردہ اگر بروقت فاش نہ ہوتا توانھیں سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتااور یہ ناکردہ گناہ کی ایسی سزا ہوتی جو ان کی علمی اور سماجی حیثیت کو داغدار کر دیتی۔ 
بیلگاوی میں ایسی سفاکیت کا مظاہرہ کرنے والے شر پسند قانونی پیچیدگی کا فائدہ اٹھا کردوبارہ اسی معاشرہ میں لوٹ سکتے ہیں جو ان کے زہر آلود افکار کے سبب ایک انتہائی سنگین حادثہ کی زد پر آنے سے بال بال بچ گیا۔ اس حادثہ سے متعلق اس اہم پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ٹنکی میں ملائے گئے زہر کی شدت تاثیر ایسی ہوتی جو معصوم طلبہ کے جسم و روح کے رشتے کو منقطع کر دیتی تو کتنے گھروں پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ جاتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ان والدین اور بھائی بہنوں کا کیا حال ہوتا جن کے گھروں کے بچے اسکول جیسی مقدس جگہ پر ایسی منافرت آمیز سازش کا ہدف بنتے۔ فرقہ ورانہ سیاست کی زائیدہ اور کٹر ہندوتوا وادی تنظیموں کے ذریعہ عملی شکل اختیار کرنے والی نفرت اب اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کسی ایک مسلمان کو رسوا کرنے کیلئے سیکڑوں معصوم طلبہ کو اس سازش کا مہرہ بنایا جاتا ہے جو انھیں ہلاکت میں بھی ڈال سکتی تھی۔ 
یہ انسانی نفسیات سے وابستہ بدیہی حقیقت ہے کہ جس طرح انسان محبت کے اظہار کے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے اسی طرح انسانی فطرت نفرت کے اظہار میں بھی تنوع چاہتی ہے۔ یہی سب ہے کہ راستوں، ٹرینوں، بسوں اور دیگر عوامی مقامات پر مسلمانوں کے خلاف تشدد کا طریقہ اب ایسی سازشوں کی صورت اختیار کر رہا ہے جو مسلمانوں کیلئے سماجی اور قانونی ہر دو سطح پررسوائی کا سبب بن جائے۔ بیلگاوی حادثہ ایک اشارہ ہے ان ممکنہ خطرات کی جانب جو ایسی سازشوں کے سبب نہ صرف مسلمانوں کو رسوائی اور بدنامی بلکہ قانونی سطح پر پریشانی اور اذیت میں بھی مبتلا کر سکتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے بیشتر عناصر کو وہ سیاسی پشت پناہی حاصل ہے جس کا مقصد ہی ملک میں فرقہ ورانہ منافرت کو پروان چڑھانا اور اس کے سہارے اپنے سیاسی مفاد کو یقینی بنانا ہے۔ یہ عناصر پولیس اور عدلیہ سے بھی بالکل بے پروا ہوتے ہیں اور اس بے پروائی کا سبب ان کا وہ یقین ہے جو سیاسی پشت پناہی کی صورت میں ان کا دفاع کرتا ہے۔ سماج میں ایسی کثافت گھولنے والے سیاسی اور مذہبی عناصر اپنے اور اپنے لواحقین کے عیش و عشرت کو یقینی بنانے کیلئے ان تمام تعصبات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جن تعصباب کی افیون کھلا کھلا کر ہندو اذہان کو ایسے خبط میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اظہار میں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ شدت پسند ہندوتوا کے پیروکار وں کا یہ رویہ اور رجحان وطن عزیز کو ایسے خسارے سے دوچار کرے گا جس کا مداوا بہ آسانی ممکن نہ ہوگا۔ برسراقتدار بھگوا پارٹی کی پالیسیاں ملک کی معیشت، صنعت و تجارت، سفارت اور سیاست کیلئے جن مسائل اور نقصانات کا سبب بن رہی ہیں اس کا مشاہدہ ملکی اور بین الاقوامی تناظر میں بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دور حکومت میں ملک کی صدیوں پرانی اتحاد و یکجہتی کی روایت کوجو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے وہ اس ملک کی تاریخ کا ایسا باب ہے جسے مستقبل میں تاسف اور افسردگی کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK