یہ حالات رفتہ رفتہ کھیل کی لطافت کو کثافت میں تبدیل کر دیں گے اور پھر یہ بیہودگی اور باطنی عناد کا اظہار کھیل مقابلوں کا ایک جزو بن جائے گا۔
EPAPER
Updated: October 05, 2025, 1:15 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
یہ حالات رفتہ رفتہ کھیل کی لطافت کو کثافت میں تبدیل کر دیں گے اور پھر یہ بیہودگی اور باطنی عناد کا اظہار کھیل مقابلوں کا ایک جزو بن جائے گا۔
گزشتہ دنوں منعقد ہونے والے ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے دوران ہندوستان اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں نے جس رویے کا مظاہرہ کیا، وہ کھیلوں سے وابستہ اس اخلاقی تصور سے برعکس تھا جس تصور میں محبت، یگانگت اور امن پسندی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ کھیل کے میدان میں کھلاڑی ایک دوسرے کے ساتھ زورآزمائی میں پوری قوت لگا دیتے ہیں اور آخری دم تک ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ مقابلے میں وہی سرخرورہیں ۔ یہ طرز مقابلہ آرائی یقیناً کھلاڑی کے ہنر کو نکھارتی ہے اور اسے فتح حاصل کرنے کی تحریک عطا کرتی ہے۔ کھیل مقابلوں میں میدان اور میدان کے باہر کھلاڑیوں کا رویہ یکساں نہیں ہوتا۔ میدان میں کھلاڑی کا ہدف مد مقابل کو شکست دینا ہوتا ہے لیکن مقابلے کے بعد مخالف ٹیم یا کھلاڑی کے ساتھ عموماً دوستانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔
مختلف قسم کے کھیلوں کے بڑے مقابلوں کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے ذریعہ مختلف کلچر اور طرز معاشرت سے وابستہ افراد کے درمیان باہمی روابط استوار ہو سکیں۔ کھیلوں کے ذریعہ سفارت کاری کو کار آمد بنانے کی پالیسی کے تحت اکثر مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ہندوستان و پاکستان کے درمیان کرکٹ مقابلوں میں بھی یہ پالیسی کارفرما رہی ہے، لیکن اب منظرنامہ پوری طرح بدل چکا ہے۔ اس وقت نہ صرف سیاست میں بلکہ کھیلوں خصوصاً کرکٹ مقابلوں نے جو صورت اختیار کر لی ہے، اس سے بعض کھلاڑیوں کی وہ خصلت اجاگر ہو رہی ہے جس میں انسانیت کا عنصر مفقود ہے۔ دونوں طرف کے بعض شائقین بھی اسی خصلت کے حامل ہیں لیکن ان کی تعداد برائے نام ہے ورنہ ایسی بیہودگی بھرے مقابلوں سے بیشتر کرکٹ شائقین کے جذبات مجروح ہی ہوتے ہیں۔ ان حالات میں دونوں ملکوں کی ٹیموں کے درمیان میچ کا انعقاد خواہ وہ کسی تیسرے ملک کی سرزمین پر ہی کیوں نہ ہو، کھیل سے وابستہ مقاصد اور امن و محبت کے بنیادی تصور کو نقصان پہنچاتا ہے۔
ایشیا کپ کے تین میچوں کے دوران اکثردونوں ٹیموں کے بعض کھلاڑیوں نے اپنے جوش و جذبہ کا اظہار جس انداز میں کیا وہ ایک کھلاڑی سے زیادہ محاذ جنگ پر تعینات کسی فوجی کے مترادف تھا۔ بلے کو بندوق کی مانند اٹھانا یا پھر ہاتھوں سے ایسے اشارے کرنا جن کا مطلب حریف ٹیم کے کھلاڑیوں کا اس جنگی کارروائی کے حوالے سے تمسخر اڑانا تھا جو پہل گام حادثے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان واقع ہوئی تھی۔ اس ٹورنا منٹ کے فائنل میچ میں ہندوستان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے والی پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی کھیل کو ایسی بیہودگی اور باطنی عناد کے اظہار کا وسیلہ بنانے کے معاملے میں سبقت لے گئے۔
ان میچوں کو دیکھنے والے بعض ناظرین کا رویہ بھی اسی طرز کا تھا۔ فائنل میچ کے اختتام پر ہندوستانی ٹیم کا ایشین کرکٹ کونسل کے چیئرمین محسن نقوی سے ہاتھ ملانے اور ان کے ہاتھوں سے ٹرافی لینے سے اسلئے انکار کرنا کہ وہ پی سی بی کے چیئرمین اور پاکستان کی سیاسی کابینہ کے رکن ہیں، اور اس صورتحال کے بعد نقوی کا کپ اپنے پاس رکھ لینا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ کھیل اور سیاست کے درمیان فرق مٹتا جارہا ہے اور یہ بہرحال کرکٹ کھلاڑیوں اور شائقین کے نیک شگون نہیں ہیں۔ ان تنازعات کے علاوہ فائنل جیتنے کے بعد ہندوستانی ٹیم کو مبارک باد دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے جو ٹویٹ کیا اور کھیل کے میدان میں بھی آپریشن سیندور ہونے کی جو بات کہی وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اب سیاست نے ان ملکوں کی کرکٹ کو مغویہ بنالیا ہے۔ اس وقت دونوں طرف جس طرز کی سیاست کا چلن عام ہو گیا ہے اس کے اثرات اب کھیلوں پر بھی ظاہر ہونے لگے ہیں۔ یہ حالات رفتہ رفتہ کھیل کی لطافت کو کثافت میں تبدیل کر دیں گے اور پھر ایسی بیہودگی اور باطنی عناد کا اظہار کھیل مقابلوں کا ایک جزو بن جائے گا جو کھلاڑیوں کے ہنر اور شائقین کے جذبات دونوں کو مجروح کرے گا۔
اس وقت اقتدار اور بی سی سی آئی پر جن افراد کا کنٹرول ہے، ان افراد کا خمیرجس مٹی سے تیار ہوا ہے اس میں اقتصادیات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایشیا کپ میں پاکستان کے ساتھ میچ کھیلنے کے فیصلے پر سیاست اور کھیل کی دنیا سے جو رد عمل سامنے آیا تھا ان سب کو درکنار کر پاکستان کے ساتھ میچ کو ہری جھنڈی دے دی گئی۔ اس ٹورنامنٹ کے تین میچوں میں بعض کھلاڑیوں اور ناظرین و شائقین کا جو رد عمل ظاہر ہوا ہے اس کے مد نظر اب اقتدار اور کرکٹ بورڈ کی با اختیار شخصیات کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ کیا ان حالات میں اور اس طرز پر دونوں ملکوں کی ٹیموں کے درمیان میچ منعقد کرنا بہترہوگا بھلے ہی وہ میچ کسی تیسرے ملک کی سرزمین پر ہی کیوں نہ ہو؟ کرکٹ کھلاڑیوں اور شائقین کو بھی تمام تعصبات اور بعض و عناد سے بالاتر ہو کر کھیل کو کھیل کے طور پر ہی کھیلنا اور دیکھنا چاہئے۔ سیاست اور اقتدار کی جی حضوری کرنے والے میڈیا کے دام سے محفوظ رہ کر دونوں ملکوں کے امن اور خوشحالی کی تمنا کے ساتھ میدان پر اترنے والے کھلاڑی ہی کھیل سے وابستہ محبت اور یگانگت کے مقصد کو پورا کریں گے اورشائقین کو بھی اسی جذبے کے ساتھ کھیل کا لطف اٹھانا چاہئے۔