Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا آرایس ایس اب اپنے لئے بین الاقوامی حمایت کا متلاشی ہے؟

Updated: August 17, 2025, 12:05 PM IST | Ram Puniyani | Mumbai

اپنی صد سالہ تقریب کیلئے سنگھ نے کئی پروگرام بنائے ہیں جن میں سے ایک میں غیرملکی سفارتخانوں کے اہلکاروں کو بھی بلایا گیا ہے اور سوال جواب کا سیشن بھی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

آر ایس ایس کا صد سالہ سال۲؍ اکتوبر۲۰۲۵ء سے شروع ہوگا۔ اس کو منانے کیلئے سنگھ نے کئی پروگرام منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ان میں سے ایک ’تین تین لیکچرز‘ کا ایک سلسلہ ہے جو۲۶؍ تا ۲۸؍ اگست کو دہلی کے وگیان بھون میں منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد یہ سہ روزہ سیریز ممبئی، بنگلور اور کولکاتا میں منعقد کی جائے گی۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے۲۰۱۸ء میں بھی دہلی کے وگیان بھون میں تین لیکچر دیئے تھے۔ اس بار فرق یہ ہے کہ یہ تقریب ملک کے ۴؍ بڑے شہروں میں منعقد کی جا رہی ہے۔ تیسرے لیکچر میں سوال جواب کا سیشن بھی ہوگا جس میں بہت سے ایسے لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے جو سنگھ پریوار سے وابستہ نہیں ہیں۔ مدعوئین کے۱۲؍ زمرے بنائے گئے ہیں۔ ان میں غیر ملکی سفارت خانوں کے اہلکار، دانشور اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران شامل ہیں۔ غیر ملکی سفارت خانوں کے اہلکاروں میں پاکستان، بنگلہ دیش اور ترکی کے سفارت خانوں کے اہلکار شامل نہیں ہیں۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے، مودی حکومت کے ساتھ اتحاد کرنے والی غیر بی جے پی پارٹیوں کے لیڈروں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ یہ پہلے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ دیگر تقریبات میں ہندو کنونشن وغیرہ شامل ہیں۔ 
ہمیں یاد ہے کہ۲۰۱۸ء میں وگیان بھون میں بھاگوت کے لیکچر کو کتنی اہمیت دی گئی تھی۔ ان کو سننے کے بعد، بہت سے سادہ لوح سیاسی تجزیہ کاروں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ آر ایس ایس بدل رہا ہے۔ آر ایس ایس سے وابستہ ایک شریف آدمی اور اس کے اندرونی معاملات کا علم رکھنے والے نے تبصرہ کیا کہ آر ایس ایس تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کے بعد کے واقعات آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق تباہ کن کارروائیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ بہتر ہندو مسلم تعلقات کی وکالت کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا تھا کہ ’’کوئی شخص سچا ہندو نہیں ہو سکتا اگر وہ یہ کہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں نہیں رہنا چاہئے۔ ہجومی تشدد میں ملوث افراد ہندوتوا مخالف ہیں۔ ‘‘ لیکن کیا اس بیان کے بعد مسلمانوں کی لنچنگ کے واقعات رک گئے؟ نہیں ! وہ پہلے ہی کی طرح جاری ہیں۔ ۲۰۲۰ء میں شاہ رخ سیفی کو اتر پردیش اور لقمان کو ہریانہ میں ہجومی تشدد کا شکار بنایا گیا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو گرانے کیلئے بڑے پیمانے پر بلڈوزر کا استعمال کیا گیا۔ 
مسلم مخالف پروپیگنڈہ
اس کے بعد بھی زیادہ تر مسلم مخالف سرگرمیاں جاری رہیں کیونکہ ان کے خلاف پروپیگنڈہ سنگھ پریوار کا ایک اہم ہتھیار ہے۔ جس وقت ملک میں کووِڈ۱۹؍ کی وباپھیلی تو اس سانحہ کو بھی مسلمانوں کو ہراساں کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اس وبا کیلئے دہلی میں جاری تبلیغی جماعت کی کانفرنس کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ کورونا جہاد اور کورونا بم جیسے الفاظ استعمال ہونے لگے اور اس کے ساتھ ہندو بستیوں میں پھیری لگا کر سامان بیچنے والے مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا جانے لگا۔ بھاگوت نے کہا تھا کہ جو ہندو کہتا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں نہیں رہنا چاہئے وہ ہندو نہیں ہے۔ لیکن ملک میں سی اے اے کی وکالت کی گئی۔ اس کے تحت مسلمانوں کے علاوہ سبھی کیلئے ہندوستانی شہریت کا دروازہ کھولا گیا۔ اس کے بعد قومی آبادی کے رجسٹر کا بوجھل اور تکلیف دہ عمل ہوا۔ نڈر مسلمان مردوں اور عورتوں نے اس کے خلاف احتجاج کیلئے شاہین باغ تحریک شروع کی۔ یہ افسوسناک ہے کہ بی جے پی کے کپل مشرا جیسے لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور ان لوگوں نے کھلم کھلا دھمکی دی کہ اگر پولیس نے انہیں احتجاجی مقام سے نہیں ہٹایا تو وہ’ ایسا‘ کریں گے۔ اس کے بعد دہلی کے تشدد میں ۵۱؍ بے گناہ افراد کی جانیں گئیں جن میں سے دو تہائی مسلمان تھے۔ ایک طرح سے بھاگوت کی قیادت میں سنگھ پریوار ہر اُس اقدام کی حمایت کر رہا ہے جس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھے۔ 
ہندوقوم پرستی کی راہ پر
۲۰۱۸ء کے لیکچر کا مقصد کیا تھا؟ یہ واضح ہے کہ آر ایس ایس کے تبدیل ہونے کی بات درست نہیں تھی۔ سیدھی سی بات ہے کہ آر ایس ایس ہندو قوم پرستی کے راستے پر ہے۔ وہ بھلے ہی اصولی طورپر ایم ایس گولوالکر کے’ہندو راشٹر کیلئےتین اندرونی خطرات: مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ‘ کے نظریے سے دستبرداری کی بات کررہا ہو لیکن حقیقت میں یہ اس کے مطابق ہی کام کر رہا ہے۔ مسلم کمیونٹی پچھلی کئی دہائیوں سے خوفزدہ ہے اور احساس کمتری کا شکار ہے۔ یہاں تک کہ بلند آواز میں آر ایس ایس کے تبدیلی ہونے کا دعویٰ کرنے والے سدھیندر کلکرنی کو بھی مسلمانوں کی حالت زار دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کی ہزاروں کروڑ روپے کی جائیداد کو تباہ کیا جا رہا ہے، پھر بھی ان معاملات میں کوئی مناسب ایف آئی آر درج نہیں کی جارہی ہے۔ ‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے مزید لکھا کہ ’’تشدد، لوٹ مار اور عصمت دری کے زیادہ تر مجرموں کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جاتا۔ اس کے برعکس جو مسلمان احتجاج کا اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہیں، انہیں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پولیس کی فائرنگ میں جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، بڑے پیمانے پر گرفتار کیا جاتا ہے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی قیمت جرمانے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘‘
جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے، انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کم نظر آتا ہے کیونکہ یہ کم شدید اور مختلف علاقوں میں بکھرا ہوا ہے۔ یہ بھی خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے، خاص طور پر پچھلی دہائی کے دوران۔ ایک بڑے مسیحی فرقے کے ستائے ہوئے لیڈر نے۲۰۲۳ء میں کہا کہ ’’ہر روز گرجا گھروں اور پادریوں پر حملوں کے چار پانچ واقعات ہوتے ہیں اور ہر اتوار کو یہ دُگنی ہو کر دس کے قریب ہو جاتا ہے۔ ہم نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘ ان کے مطابق ہندوستان میں عیسائیوں پر بنیادی ظلم سنگھ پریوار کرتا ہے جس میں اس کی ذیلی تنظیموں کے ہتھیار بند گروپ اور پرتشدد نوجوانوں کی تنظیم بجرنگ دل کے کارکنان شامل ہیں۔ 
جہاں تک کمیونسٹوں کا تعلق ہے، انسانی حقوق کے ہر کارکن پر’اربن نکسل‘ کا لیبل چسپاں کردیاجا رہا ہے۔ ان میں سے کئی کو بھیما کوریگاؤں کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اب مہاراشٹر میں مہاراشٹر حکومت ’پیپلز سیکوریٹی بل‘ پاس کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس سے ریاستی حکومت کو ان تمام افراد اور اداروں کے خلاف نگرانی، تفتیش اور کارروائی کرنے کا اختیار ملے گا جن پر ممنوعہ ماؤنواز تنظیموں کو فکری یا مالی مدد یا سہولیات فراہم کرنے کا شبہ ہے۔ 
یہ ساری پالیسیاں اور قوانین، یہ سارا تشدد اس پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے جو سنگھ اپنی شاخوں میں کرتا ہے۔ سنگھ سے وابستہ تنظیمیں اس میں مدد کرتی ہیں۔ پھر ۲۰۱۸ء میں وہ لیکچرز کیوں دیئے گئے؟ اور۲۰۲۵ء میں دوبارہ لیکچرز کا سلسلہ کیوں شروع کیا جا رہا ہے؟ آر ایس ایس کا ایجنڈا بالکل واضح ہے اور اس پر عمل درآمد کا عمل گزشتہ چند دہائیوں میں تیز ہوا ہے۔ 
آر ایس ایس کا ہندو راشٹر کا تصور
درحقیقت یہ لیکچر آر ایس ایس کے ایجنڈے کے منفی نتائج کی کڑوی گولی پر شکر کی تہ جمانے کی کوشش ہیں۔ چونکہ سنگھ ایک جمہوری نظام میں کام کر رہا ہے (چاہے یہ نظام صرف نام ہی کا جمہوری کیوں نہ ہو) اس کے پاس یہ دکھاوا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ ہندو راشٹر کا تصور جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ۲۰۱۸ء کے لیکچرز کے بعد رونما ہونے والے واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آر ایس ایس اپنے سربراہ کے ذریعے جو کچھ بھی کہتا ہے اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس کا مقصد صرف سنگھ کے ناقدین کو کچھ راحت دینا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسری جماعتوں کے ناراض عناصر کو ان لیکچرز میں مدعو کرنے کا مقصد آپریشن کمل کے نئے ورژن کی تیاری ہو۔ ہوسکتا ہے کہ سنگھ دیگر پارٹیوں کے ناراض لیڈروں کو اپنے کیمپ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہو؟ ظاہر ہے کہ حقیقت جاننےکیلئے ہمیں کچھ وقت انتظار کرنا پڑے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK