Inquilab Logo Happiest Places to Work

جمہوریت کو ۶؍ خطرات سے بچانا بہت ضروری ہے

Updated: July 06, 2025, 1:02 PM IST | Pawan K. Verma | Mumbai

کسی بھی جمہوری ملک میں رائے دہندگان کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ جمہوریت کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے اور اپنے ووٹوں کے ذریعے ان کے مفاد میں کام نہ کرنے والی حکومتوں کو بے دخل کرنے کی طاقت وہی رکھتے ہیں۔

Tejashwi Yadav and Nitish Kumar. Photo: INN.
تیجسوی یادو اور نتیش کمار۔ تصویر: آئی این این۔

ملک میں ایک بار پھر انتخابات کا دور آرہا ہے۔ بہار میں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ اس کے بعد آئندہ سال مئی میں آسام، مغربی بنگال، پڈوچیری، تمل ناڈو اور کیرالا میں الیکشن ہوں گے۔ ناقدین بھلے ہی یہ کہیں کہ ہمارے یہاں بہت زیادہ انتخابات ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ انتخابی جمہوریت ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہ طاقت نہ چین کے پاس ہے، نہ ہی پاکستان اور سوویت یونین کے پاس ہے۔ مطلق العنان حکومتیں جن میں کوئی لچک نہیں ہوتی، وہ بہت غیر مستحکم ہوتی ہیں۔ 
میں نے ماسکو میں بطور سفارت کار اپنے دور میں سوویت یونین کا زوال اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ چین بھی اُسی طرح کے ٹائم بم پر بیٹھا ہے۔ اس کے برعکس جمہوریتیں زیادہ لچکدار ہوتی ہیں کیونکہ ان کے پاس عوامی کی برہمی اوران کے عدم اطمینان کو دور کرنے کیلئے انتخابات کا ایک سیفٹی والو موجود ہوتا ہے۔ 
ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ جمہوریت حکومت کی بدترین شکل ہے سوائے ان تمام کے جو پہلے آزمائے جاچکے ہیں۔ یہ درست ہو سکتا ہے، لیکن جمہوریت کے کام کیلئے مسلسل نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی روح اور اس کی شکل برقرار رہے اور اس کا تحفظ ہو سکے۔ اس تعلق سے ذیل میں ہم ۶؍ خطرات کا تذکرہ کریں گے، جن سے جمہوریت کو بچانا بہت ضروری ہے۔ 
پہلا خطرہ مطلق العنانی:
جمہوریت کیلئےپہلا خطرہ مطلق العنانیت ہے۔ جب کوئی جمہوری حکومت تنقید اور اختلاف رائے سے عاری ہو جاتی ہے تو اس ملک میں جمہوریت کے زندہ رہنے کے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔ اپنی سہولت کیلئے غیر انسانی قوانین بنانا اور ان کا غلط استعمال کرنا، مثال کے طور پر مناسب عمل کے بغیر ’بلڈوزر انصاف‘ کا نظام قائم کرنا جمہوریت کیلئے سم قاتل کے مصداق ہے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ’’آزادی ہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ ‘‘
دوسرا خطرہ خاندانی سیاست :
اس سلسلے کا دوسرا بڑا خطرہ سیاسی وراثت ہے۔ آج ہماری زیادہ تر سیاسی جماعتیں خاندانی جاگیرکی طرح ہیں۔ یہ جماعتیں ہمیں جمہوریت کے بجائے قرون وسطیٰ کی جاگیرداری کی یاد دلاتی ہیں۔ 
تیسرا خطرہ انتخابی دھاندلی :
جمہوری ملکوں میں تیسرا خطرہ انتخابی دھاندلی ہے۔ اس پر زیادہ تر سیاسی جماعتیں کچھ کہنے سے کتراتی اور گھبراتی ہیں۔ اس کے تحت کسی بھی طرح سے کوئی بھی غیر منصفانہ طریقہ اختیار کرکے اقتدار حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کیلئے سیاسی جماعتیں سیاست میں مذہب، ذات پات، قوم پرستی، تنگ نظری اور بے جا طاقت کااستعمال کرتی ہیں۔ 
چوتھا خطرہ اکثریت کا غلط استعمال:
چوتھا خطرہ اکثریت کے غلط استعمال کاہے جس میں مرکزی یا ریاستی حکومتیں تعمیری بات چیت کے بجائے تعداد کے زور پر اپنی مرضی مسلط کرتی ہیں۔ آئین کی تیاری کے وقت ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی اس خدشے کااظہا ر کرتے ہوئے اس کے خلاف خبردار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان جیسے ملک میں جمہوریت کے آمریت میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہے۔ خاص طور پر جب کسی پارٹی کو بھاری فتح حاصل ہو تو اس خطرے کے حقیقت میں بدلنے کا خدشہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ 
پانچواں خطرہ مرکز اور ریاست کے درمیان اختلاف :
اس سلسلے کاپانچواں بڑا خطرہ مرکز اور ریاست کے درمیان اختلاف ہے۔ اختلاف غلط بات نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے کسی کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ برا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرکز میں مضبوط حکومتوں نے ریاستوں میں اپوزیشن جماعتوں کی حکومتوں کے کام کاج میں خلل ڈالنے کیلئے آئین کی غلط تشریح کی ہے اور اسے کمزورکرنے کی کوشش کی ہے۔ ان دنوں ایک اصطلاح ’ڈبل انجن کی حکومت‘ رائج ہے۔ یہ جملہ بذات خود اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ’سنگل انجن والی حکومتوں ‘ کو مرکز کی حمایت حاصل نہیں رہے گی اور وہ ہمیشہ خسارے میں رہیں گی۔ یہ سوچ جمہوری وفاقیت کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ 
چھٹا خطرہ جوابدہی کا فقدان:
آخری اور شاید سب سے اہم خطرہ حکومتوں میں جوابدہی کا فقدان ہے۔ منتخب حکومتیں جب عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورے نہیں کرتیں اور سیاسی طاقت کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرتی ہیں تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ راج دھرم کی وضاحت کرتے ہوئے کالی داس نے کہا تھا کہ ’’عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا۔ ‘‘اسی طرح چانکیہ نے کہا تھا کہ ’’بادشاہ کو اپنی پوری طاقت عوامی فلاح و بہبود کیلئے وقف کرنی چا ہئے۔ ‘‘ مہابھارت میں بھی اپنے فرائض کو پورا نہ کرنے والے بادشاہ کے خلاف بغاوت کو درست ٹھہرایا گیا ہے۔ 
لیکن کیا جمہوری طور پر منتخب حکومتوں میں ہمارے نئے’ راجا‘ ان اصولوں اور فرائض پر عمل پیرا ہیں ؟ بہار میں بی جے پی اور کانگریس کی بیساکھیوں پر گزشتہ ۳۰؍ برسوں سے ہم دیکھ رہےہیں کہ لالو پرساد یادو اورنتیش کمار سماجی انصاف کے نام پر حکومت کر رہے ہیں، لیکن بہار آج بھی اُسی جگہ پر ہے جہاں پہلے تھا۔ 
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاست کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ بہار کی فی کس آمدنی ملک میں سب سے کم ہے۔ صحت اور تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ ابتر ہے۔ بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور بے روزگاری کی بلند ترین شرح کی وجہ سے نوجوان نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ایسے میں رائے دہندگان کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ جمہوریت کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے اور اپنے ووٹوں کے ذریعے ان کے مفاد میں کام نہ کرنے والی حکومتوں کو بے دخل کرنے کی طاقت وہی رکھتے ہیں۔ 
مضمون نگار سابق سفارت کار اور رکن پارلیمان رہے ہیں 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK