Inquilab Logo

یہ دیکھنا چاہئے کہ۱۴۰؍ کروڑ ہندوستانیوں کا مستقبل کن ہاتھوں میں ہے؟

Updated: May 26, 2024, 4:18 PM IST | NK Singh | Mumbai

دس سال کی حکمرانی کے بعد بھی جب ملک کا سب سے ’مقبول‘ لیڈر الیکشن جیتنے کیلئے اپنی تقریروں میں مچھلی، گوشت، منگل سوتر اور مسلمانوں کا نام لے کر اکثریتی طبقے کو ڈرانے کی کوشش کرے تو یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ ہم نے ملک کی کمان کسے سونپ دی ہے۔

The level of hatred that has been done in an election campaign this time has hardly ever been done. Photo: INN
اس بار انتخابی مہم میں جتنی نفرت انگیزی کی گئی ہے، شاید ہی کبھی کی گئی ہو۔ تصویر : آئی این این

کسی بھی فلاحی ریاست میں حکومت کا بنیادی فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی صحت کا خیال رکھے، طبی سہولیات کا مناسب انتظام کرے اور اس کی تعلیم پر پوری توجہ دے، لیکن دس سال کی حکمرانی کے بعد بھی جب ملک کا سب سے ’مقبول‘ لیڈر الیکشن جیتنے کیلئے اپنی تقریروں میں مچھلی، گوشت، منگل سوتر اور مسلمانوں کا نام استعمال کر کے اکثریتی طبقے کے لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کرے تو یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ ان حالات میں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ذہن میں جو پہلا سوال پیدا ہوتا ہے، وہ یہی ہے کہ بنیادی مسائل سے چشم پوشی کرنےوالے اور مذہبی رسومات کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنانے والے کے ہاتھوں میں کیا ملک کا مستقبل محفوظ سمجھا جا سکتا۔ 
 دنیا کی پانچویں بڑی معیشت میں صحت پر حکومت کا سالانہ خرچ فی فرد ۲۵؍ ڈالر ہے، جبکہ بھوٹان جیسے چھوٹے ملک اس کا ڈھائی گنا، سری لنکا ۳؍ گنا، تھائی لینڈ ۱۰؍ گنا اور تمام ’برکس‘ ممالک جیسے چین، برازیل اور جنوبی افریقہ ۱۴؍ تا ۱۵؍ گنا زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ تشویش کی بات صرف یہ نہیں ہے کہ ہندوستانی حکومت اس مد میں بہت کم خرچ کرتی ہے اور لوگوں کو علاج معالجے پراپنی گاڑھیکمائی کو خرچ کرنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں مرکزی حکومت کاخرچ تقریباً وہیں کا وہیں رکا ہوا ہے جبکہ ریاستی حکومتیں اس دوران ان اخراجات میں تقریباً ڈیڑھ گنا کا اضافہ کرچکی ہیں۔ 
 اگر ہم مرکزی حکومت کے بجٹ پر نظر ڈالیں تو۲۰۔ ۲۰۱۹ء میں اس مد میں جو رقم دی گئی تھی، ۲۴۔ ۲۰۲۳ء میں اس میں صرف ۴؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ ریاستوں نے اپنی جی ڈی پی کا ڈیڑھ گنا (۰ء۶۴؍ فیصد کے مقابلے۰ء۹۶؍ فیصد) کردیا۔ اس میں بھی سنگین مسئلہ یہ ہے کہ مرکزی وزارت صحت نےریاستوں کو دیا جانے والا حصہ جو ۱۴۔ ۲۰۱۳ء میں ۷۵ء۹؍فیصد تھا، ۲۴۔ ۲۰۲۳ء میں ۴۳؍ فیصد کر دیا۔ آیوشمان یوجنا کاسیاسی فائدہ مرکز نے اٹھایا، لیکن اس ذیل میں خرچ ہونے والے اخراجات کا بڑا حصہ ریاستوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ کورونا وبا کے دوران بھی اخراجات کی ادائیگی میں ریاستوں کا کردار بہت اہم تھا۔ 
 جہاں تک ہیلتھ انشورنس کا تعلق ہے، غریب افراد کو اس کا فائدہ اسلئے نہیں مل پاتاکیونکہ انشورنس کا کارڈ علاج نہیں کرتا۔ علاج تب ہوتا ہے جب صحت کی دیکھ بھال کا بنیادی ڈھانچہ درست ہو اور وہ بلاک اور ضلع کی سطح تک دستیاب ہو۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہ ایمانداری سے کام ہو۔ یہ سب کچھ ہوگا تبھی، ایک عام آدمی اس کارڈ کا حقیقی فائدہ حاصل کرسکے گا۔ 

یہ بھی پڑھئے: وزیراعظم مودی کا کوئی نعرہ اُن کا ساتھ نہیں دے رہا ہے، یہ ملک میں سیاسی تبدیلی کا واضح ثبوت ہے

دنیا میں بچوں کی غذائی قلت کے معاملے میں ہندوستان کی پوزیشن بہت خراب ہے، تاہم حکومت اس حوالے سے ’انکار موڈ‘ میں ہے اور رپورٹ بنانے والوں کو ہندوستان مخالف قرار دیتی رہی ہے۔ 
 یہ ایک عام تصور ہے کہ وقت کے ساتھ حاصل ہونے والا تجربہ نہ صرف فرد بلکہ معاشرے کی اجتماعی سمجھ کو بھی بہتر بناتا ہے، لیکن ہندوستان کی جمہوریت اس سے مستثنیٰ رہی ہے اور موجودہ انتخابات میں اس حقیقت کا انتہائی مکروہ انداز میں اظہار کیا گیا ہے۔ مذہب، ذات پات، اعلیٰ ادنیٰ، کالا گورا، امیر غریب، ۱۵؍ منٹ بمقابلہ۱۵؍ سیکنڈ، آدھا سچ بتا کر ہتک آمیز اعداد وشمار، آبروریزی کے سچے جھوٹے الزامات اور’مندر بنانے والے بنام مند ر کو تالا لگانے والے‘ جیسے نفرت انگیز مسائل کو ہوا دے کر اقتدار تو حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کی قیمت ایک مستقل طور پر بکھرے ہوئے سماجی تانے بانے کی ہو گی اور یہ مسائل معاشرے کیلئے مستقل زخم چھوڑ جائیں گے۔ 
 جب انتخابی پلیٹ فارم سے کسی ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانے کیلئے استعاراتی زبان میں ’منگل سوتر‘...’اورنگ زیب‘.. اور’میر جعفر‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، تو۲؍ طبقوں کے درمیان عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے اور ان کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوجاتی ہے۔ نفرت پر مبنی معاشرے کو جی ڈی پی کے کسی بھی حجم سےرفو نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات کے وقت کسی ایک طبقے کی تضحیک اور دوسرے طبقے کو ۶۵؍ سال آدھے ادھورے اعداد وشمار کے ذریعہ پہلے طبقے کے تئیں نفرت پیدا کرنے کی ترغیب کسی بھی صحت مند معاشرے کی پہچان ہرگز نہیں ہوسکتی۔ 
 کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر کسی ایک کمیونٹی نے اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کو گزشتہ تین دہائیوں میں سب سے تیزی سے کم کرنے کی کوشش کی ہے تو، وہ وہی طبقہ ہے؟ اگر۲۰۲۱ء کی مردم شماری کرائی جاتی تو اس زمرے کی شرح نمو تقریباً قومی اوسط کے برابر ہو جاتی۔ خاندانی منصوبہ بندی ایک معاشی، ثقافتی اورتعلیمی عمل ہے۔ یہ بات متعدد تجزیوں میں سامنے آئی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی وہیں پر ناکام رہی ہے جہاں تعلیم کی شرح کم ہے۔ بہار اس کی ایک اچھی مثال ہے جہاں آبادی میں اضافےکی شرح قومی اوسط کا تقریباً ڈیڑھ گنا ہے۔ کیا اس کی وجہ سے ہم وہاں کے عوام یا حکومتوں کو موضوع بناتے ہیں ؟ ایک پرانی کہاوت ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے، لیکن ہمارا سیاسی طبقہ اس کو بلندی پر لے جارہا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK