• Tue, 11 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

میچ فکس کئے گئے انتخابات جمہوریت کیلئے زہر ہیں !

Updated: June 09, 2025, 5:56 PM IST | Rahul Gandhi | New Delhi

ووٹر لسٹیں اور سی سی ٹی وی فوٹیج جمہوریت کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں، نہ کہ آرائشی اشیاء کے طورپر بند رکھنے کیلئے، وہ بھی اس وقت جب جمہوریت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہو۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

میں نے ۳؍فروری کو پارلیمنٹ میں اپنی تقریر اور اس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں گزشتہ سال مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کے طریقہ کار پر تشویش ظاہر کی تھی۔ میں نے پہلے بھی ملک میں ہونے والے انتخابات پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہر الیکشن میں اور ہر جگہ دھاندلی ہوئی ہے لیکن جو کچھ ہوا ہےاسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں معمولی بے ضابطگیوں کی بات نہیں کر رہا ہوں، بلکہ ہمارے قومی اداروں پر قبضہ کرکے بڑے پیمانے پرکی جانے والی دھاندلی کی بات کر رہا ہوں۔ پہلے انتخابات میں کچھ عجیب و غریب چیزیں ہوا کرتی تھیں، لیکن ۲۰۲۴ء کا مہاراشٹر اسمبلی الیکشن توبالکل عجیب تھا۔ اس میں اتنی بڑی دھاندلی ہوئی ہے کہ سب کچھ چھپانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود دھاندلی کے واضح ثبوت نظر آ رہے ہیں۔ غیر سرکاری معلومات کو نظرانداز کردیا جائے تب بھی دھاندلی کا سارا کھیل سرکاری اعداد و شمار سے ہی کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ 
پہلامرحلہ
امپائرکے انتخاب میں ہیرا پھیری کرنا : الیکشن کمشنرز ایکٹ۲۰۲۳ء نے اس بات کو یقینی بنایا کہ الیکشن کمشنرزکا انتخاب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی ۱:۲؍کی اکثریت سے ہوگا، اس طرح تیسرے رکن، قائد حزب اختلاف کا ووٹ غیر موثر ہو جاتا ہے۔ یعنی جو لوگ الیکشن لڑ رہے ہیں وہ امپائرکا بھی فیصلہ کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا کو ہٹا کر ان کی جگہ کسی کابینی وزیر کو سلیکشن کمیٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے بارے میں غور کرکے دیکھئے، کیوں کوئی ایک اہم کمیٹی سےایک غیر جانبدار ثالث کوہٹاکر اپنی پسند کا ممبر لانا چاہے گا؟ جس لمحے آپ اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں گے، آپ کو جواب مل جائے گا۔ 
دوسرامرحلہ
ووٹر لسٹ میں جعلی ووٹرزکا اضافہ:الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۹ء کے اسمبلی انتخابات میں مہاراشٹر میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد۸ ؍کروڑ۹۸؍ لاکھ تھی۔ پانچ سال بعد مئی ۲۰۲۴ کے لوک سبھا انتخابات میں یہ تعداد بڑھ کر۹؍کروڑ ۲۹؍لاکھ ہو گئی۔ لیکن صرف پانچ ماہ بعد نومبر ۲۰۲۴ ءکے اسمبلی انتخابات تک یہ تعداد بڑھ کر۹؍ کروڑ۷۰؍لاکھ ہو گئی۔ یعنی جہاں پانچ سال میں ۳۱؍ لاکھ کا معمولی اضافہ ہوا، وہیں صرف پانچ ماہ میں ۴۱؍ لاکھ ووٹروں کا زبردست اضافہ ہوا۔ رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ۹ کروڑ۷۰لاکھ تک پہنچنا غیر معمولی ہے، کیونکہ یہ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق، مہاراشٹر کی کل بالغ آبادی یعنی ۹ ؍کروڑ۵۴؍لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ 
تیسرا مرحلہ
فرضی ووٹروں کو جوڑنے کے بعدپولنگ فیصدبھی بڑھا چڑھاکر دکھایاجانا:زیادہ تر ووٹروں اور مبصرین کے لیے، مہاراشٹر میں پولنگ کا دن ایک معمول کادن تھا۔ دوسری جگہوں کی طرح، لوگ قطار میں کھڑےہوئے، ووٹ ڈالا اور گھر چلے گئے۔ جو لوگ شام ۵؍ بجے تک پولنگ بوتھ کے اندر تھے انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ کسی بھی پولنگ بوتھ پر زیادہ ہجوم یا لمبی قطاروں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ کا دن کہیں زیادہ ڈرامائی تھا۔ شام 5 بجے تک پولنگ کا تناسب ۵۸ء۲۲فیصدتھا۔ تاہم پولنگ ختم ہونے کے بعد بھی پولنگ کا تناسب بڑھتا رہا۔ اگلی صبح سامنے آنے والا حتمی اعداد و شمار ۶۶ء۰۵ فیصدتھا۔ یعنی اچانک سات اعشاریہ ۸۳ فیصد کا اضافہ ہوا، جو تقریباً ۷۶؍ لاکھ ووٹوں کے برابر ہے۔ ووٹنگ فیصد میں یہ اضافہ مہاراشٹر میں پچھلے کسی بھی اسمبلی انتخابات سے کہیں زیادہ تھا۔ مثال کے طورپر ۲۰۰۹میں عبوری پولنگ فیصد۶۰؍ تھا‘حتمی فیصدساڑھے۵۹؍تھا۔ یعنی محض آدھے فیصد کا فرق۔ ۲۰۱۴ء میں عبوری فیصد۶۲؍ جبکہ حتمی فیصد ۶۳ء۰۸؍تھا، یعنی ۱ء۰۸؍کا فرق۔ ۲۰۱۹ءمیں عبوری فیصد ۶۰ء۴۶ اور حتمی ۶۱ء۱۰ تھا۔ یعنی ۰ء۶۴؍فیصد کا فرق۔ ۲۰۲۴ء میں عبوری فیصد ۲۸ء۲۲اورحتمی ۶۶ء۰۵تھا۔ یعنی ۷ء۸۳؍فیصد کا بڑا فرق۔ 
چوتھا مرحلہ
منتخب علاقوں میں جعلی ووٹنگ نے بی جے پی کو بریڈ مین بنا دیا:ان کے علاوہ اور بھی بہت سی بے ضابطگیاں ہیں۔ مہاراشٹر میں تقریباً ایک لاکھ بوتھ ہیں، لیکن نئے ووٹر زیادہ ترصرف ۱۲؍ہزار بوتھوں میں شامل کئے گئے۔ یہ بوتھ ان۸۵؍اسمبلی حلقوں کے تھے جہاں بی جے پی نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ شام ۵؍ بجے کے بعد ہر بوتھ پر اوسطاً۶۰۰؍لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ ہر شخص کو ووٹ ڈالنے میں ایک منٹ لگتا ہے تو ووٹنگ کا عمل مزید۱۰؍ گھنٹے جاری رہنا چاہیے تھا، لیکن ایسا کہیں نہیں ہوا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ یہ اضافی ووٹ کیسے ڈالے گئے؟ ظاہر ہے، این ڈی اے نے ان 85 میں سے زیادہ تر سیٹیں جیتی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ووٹروں میں اس اضافے کو "نوجوانوں کی شرکت کا خوش آئند رجحان" قرار دیا۔ لیکن یہ "رجحان" صرف ان ۱۲ہزار بوتھوں تک محدود تھا، باقی۸۸ہزار بوتھوں میں نہیں ! اگر یہ معاملہ سنجیدہ نہ ہوتا تو اسے ایک شاندار لطیفہ سمجھ کر ہنسا جا سکتا تھا۔ کماٹھی اسمبلی حلقہ اس دھاندلی کا ایک اچھا’ کیس اسٹڈی‘ ہے۔ ۲۰۲۴ء میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو وہاں ایک لاکھ ۳۶؍ ہزار ووٹ ملے، جب کہ بی جے پی کوایک لاکھ ۱۹ ہزار ووٹ ملے۔ ۲۰۲۴ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو دوبارہ تقریباً اتنے ہی ووٹ ملے، یعنی ایک لاکھ ۳۴؍ہزار۔ لیکن بی جے پی کے ووٹ اچانک بڑھ کر ایک لاکھ۷۵ہزار ہو گئے۔ یعنی ۵۶؍ہزارووٹوں کا براہ راست اضافہ۔ انہیں یہ برتری ان دو انتخابات کے درمیان کماٹھی میں شامل ہونے والے ۳۵؍ہزار نئے ووٹروں کی وجہ سے ملی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں نے لوک سبھا انتخابات میں ووٹ نہیں دیا تھا اور جن نئے ووٹروں کو شامل کیا گیا تھا، وہ تقریباً سبھی مقناطیسی طور پر بی جے پی کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا مقناطیس کمل کے پھول کے حجم کا تھا۔ اوپر بتائے گئے چار طریقوں کو اپناتے ہوئے، بی جے پی نے ۲۰۲۴ کے اسمبلی انتخابات میں ۱۴۹؍ میں سے ۱۳۲؍ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی یعنی ۸۹؍فیصد کی اسٹرائیک ریٹ۔ یہ اب تک ہونے والے کسی بھی الیکشن میں اس کی بہترین کارکردگی تھی۔ جبکہ صرف۵؍ مہینے پہلے ہوئے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کا اسٹرائیک ریٹ صرف۳۲؍ فیصد تھا۔ 
پانچواں مرحلہ
ثبوت چھپانے کی کوشش:الیکشن کمیشن نے اپوزیشن کے ہر سوال کا جواب خاموش رہ کر یا جارحانہ رویہ اپنا کر دیا ہے۔ اس۲۰۲۴ء کے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے لیے تصویروں کے ساتھ ووٹر لسٹ کو عام کرنے کے مطالبے کو صاف طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات کے صرف ایک ماہ بعد جب ایک ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پولنگ اسٹیشنوں کی ویڈیو گرافی اور سی سی ٹی وی فوٹیج شیئر کرنے کی ہدایت دی تو مرکزی حکومت نے الیکشن کمیشن سے مشورہ کرنے کے بعد ’کنڈکٹ آف الیکشن رولز۱۹۶۱ء کے سیکشن ۹۳(۲)(اے) میں ہی ترمیم کرڈالی۔ اس تبدیلی کے ذریعے سی سی ٹی وی اور الیکٹرانک ریکارڈ تک رسائی کو محدود کر دیا گیا۔ یہ تبدیلی اور اس کا وقت دونوں ہی بہت کچھ بیان کرتےہیں۔ حال ہی میں، ایک جیسے یا ڈپلیکیٹ ای پی آئی سی ( EPIC ) نمبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد جعلی ووٹروں کے بارے میں خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔ تاہم، اصل تصویر شاید اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ ووٹر لسٹیں اور سی سی ٹی وی فوٹیج جمہوریت کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں، نہ کہ آرائشی اشیاء کے طورپر بند رکھنے کیلئے۔ وہ بھی خاص طور پراس وقت جب جمہوریت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہو۔ ملک کے عوام کو یہ یقین حاصل کرنے کا حق ہے کہ کوئی ریکارڈ تباہ نہیں ہوا اور آئندہ ایسا نہیں کیا جائے گا۔ کئی مقامات پر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو فہرست سے کچھ ووٹروں کے نام دانستہ طور پر ہٹانے یا پولنگ بوتھوں کی تبدیلی جیسی دھاندلی منظر عام پر آسکتی ہے۔ ایک شبہ یہ بھی ہے کہ اس قسم کی انتخابی دھاندلی کوئی ایک دفعہ کی بات نہیں ہے بلکہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ریکارڈ کی گہرائی سے چھان بین کی جائے تو نہ صرف پورے فراڈ کا طریقہ کار سامنے آسکتا ہے بلکہ یہ بھی سامنے آسکتا ہے کہ اس میں کن لوگوں کا کردار تھا۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اپوزیشن اور عوام دونوں کو ہر قدم پر ان ریکارڈ تک رسائی سے روکا جا رہا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ مہاراشٹر میں نومبر ۲۰۲۴ء کے انتخابات میں اس حد تک دھاندلی کیوں کی گئی۔ لیکن انتخابات میں دھاندلی میچ فکسنگ کی طرح ہوتی ہے۔ بھلے ہی ٹیم میچ فکس کر کےایک کھیل جیت جائےلیکن اس سے اداروں کی ساکھ اور عوامی اعتماد کوجونقصان ہوتا ہے اسے بحال نہیں کیا جا سکتا۔ میچ فکس کئے گئے انتخابات جمہوریت کیلئے زہر ہیں !

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK