Inquilab Logo

نتیش کمار نے اپنی بے اعتباری کا اعتبار اس بار بھی قائم رکھا

Updated: February 04, 2024, 5:20 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

لیکن اس مرتبہ ان کا پالا بدلنا ان کی شبیہ کوکوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا بلکہ اس کی وجہ سے ان کا نام جمہوریت کو نقصان پہنچانے والوں کی فہرست میں سب سے اوپر درج کیا جائے گا۔

The presence of Samrat Chaudhary in the Nitish cabinet clearly means that this time the Chief Minister is not going to get a free pass. Photo: INN
نتیش کابینہ میں سمراٹ چودھری کی موجودگی کا واضح مطلب ہے کہ اس بار وزیراعلیٰ کو کھلی چھوٹ ہرگز نہیں ملنے والی ہے۔ تصویر : آئی این این

نتیش کمار نے ایک مرتبہ پھر قلابازی کھائی ہےاور دوبارہ این ڈی اے کے خیمے میں آگئے ہیں۔ اس مرتبہ بھی نتیش کمار اپنی بے اعتباری کا اعتبار قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ گزشتہ ۱۰؍ سال میں غالباً یہ ان کی پانچویں قلابازی ہو گی لیکن اس دوران وہ ۹؍ ویں مرتبہ وزیر اعلیٰ ضرور بن گئے۔ ہر سال دو سال میں ان کے اتحاد بدل لینے پر یہ تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اقتدار سے چمٹے رہنا جانتے ہیں۔ اسی لئے ہر بار وزیر اعلیٰ تو وہی بنتے ہیں لیکن ان کے ساتھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بہار ملک میں وہ واحد ریاست ہو گی جہاں گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے وزیر اعلیٰ یا حکمراں پارٹی تبدیل نہیں ہوئی ہے بلکہ اپوزیشن تبدیل ہو رہی ہے اورہمیں اسے نتیش کی یہ خوبی ہی کہنا چاہئے کہ وہ نہایت آسانی سے اپنے ساتھی تبدیل کرلیتے ہیں تب بھی ان کی بے اعتباری پر کوئی حرف نہیں آتا۔ نتیش کی طرف سے پالا بدلنے کی شروعات ۲۰۱۳ء میں ہوئی تھی جب انہوں نے نریندر مودی کو بی جے پی اور این ڈی اے کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا دعویدار بنائے جانے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا تھا۔ انہوں نے یہ کام اصول کی بنیاد پر کیا تھاجس پر ان کی زبردست ستائش ہوئی تھی لیکن اس کے بعد انہوں نے ۲۰۱۷ء میں مہا گٹھ بندھن سے تعلق ختم کرکے جب دوبارہ بی جے پی کا دامن تھاما تو اسی وقت یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب بی جے پی میں ان کی وہ وقعت نہیں رہ گئی ہے۔ بی جے پی نے اس کے بعد مودی لہر پر سوار ہوکربہار میں چھوٹے بھائی سے بڑے بھائی کا کردار حاصل کرلیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: نیائے یاترا : کانگریس نے بی جے پی سے نظریاتی سطح پر مقابلے کا فیصلہ کرلیا ہے

۲۰۲۰ء کے الیکشن میں بی جے پی نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو سے بھی بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ یہیں سے نتیش کمار کی بے چینی بڑھنے لگی کیوں کہ بی جے پی نے اب اپنا کھیل کھیلنا شروع کردیا تھا۔ ان پر دبائو بنائے رکھنے کے لئے سشیل کمار مودی کو ہٹایا گیا اور ان کی جگہ سمراٹ چودھری جیسے سخت ترین نتیش مخالف کو ریاستی بی جے پی کی کمان سونپ دی گئی۔ ساتھ ہی انہیں ریاستی وزیر بھی بنوادیا گیا۔ گزشتہ دنوں نتیش نے جو ’پلٹی ‘ ماری ہے اس میں ان کا وقار اور بھی کم ہو گیا ہے کیوں کہ بی جے پی نے ان کی کچھ شرائط تو منظور کرلی ہیں لیکن ان پر سمراٹ چودھری جیسے ’نتیش مخالف‘ کو مسلط کردیا ہے جو نائب وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ ویسے ہمیں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ بہارکی حکومت میں اب اصل اقتدار سمراٹ چودھری ہی کے ہاتھوں میں ہو گا۔ سیاسی تجزیہ نگار بھی یہی مان رہے ہیں کہ بی جے پی کو نتیش کمار کا متبادل مل گیا ہے اور اگلے الیکشن میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ بی جے پی نتیش کو ٹھینگا دکھادے۔ 
 اتحاد میں جو حکومت چلائی جاتی ہے اس میں اختلافات عام بات ہیں جنہیں اتنے ہی احسن طریقے سے دور کرلیا جاتا ہے لیکن نتیش کے آر جے ڈی اور کانگریس سے کیا اختلافات ہوئے اس بارے میں اب تک انہوں نے کوئی بات کھل کر نہیں کی ہے۔ وہ صرف اتنا کہتے رہے ہیں کہ انڈیا اتحاد میں کچھ ٹھیک نہیں چل رہا تھا۔ حالانکہ آر جے ڈی کے ساتھ ان کے تعلقات بالکل ٹھیک ٹھاک ہی نظر آرہے تھے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کا فائدہ بھی دونوں کو ہوتا ہوا نظر آرہا تھا اور ٹیچروں کی جس پیمانے پر بھرتی کی گئی تھی اس کا بھی واضح فائدہ مہا گٹھ بندھن کو ملتا ہوا نظر آرہا تھا۔ پھر اچانک ایسی کیا بات ہو گئی کہ نتیش نےایسا قدم اٹھادیا۔ اس قدم نے نتیش کمار کی ساکھ کو دائو پر لگادیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل جب بھی انہوں نے پالا بدلا ہے ان کی ساکھ کو نقصان ہی پہنچا ہے اور اس مرتبہ ان کے پالا بدلنے کے بعد تو طے ہو گیا ہے کہ ان کی رہی سہی شبیہ بھی پوری طرح داغدار ہو گئی ہے۔ نتیش اگر صبر کرلیتے تو ممکن تھا کہ انڈیا اتحاد میں انہیں کوئی نہ کوئی اہم عہدہ مل جاتا۔ وہ وہاں سے وزارت عظمیٰ کے دعویدار بننے کے متمنی تھے لیکن جب ملکارجن کھرگے کو انڈیا اتحاد کا صدر بنادیا گیااور انہیں کنوینر کی پوسٹ بھی نہیں دی گئی تو پھر انہوں نے طے کرلیا تھا کہ وہ اب اسی اتحاد کا حصہ نہیں رہیں گے جس کا بنیادی خیال انہوں نے ہی پیش کیا تھا۔ 
 نتیش کے بی جے پی کے ساتھ جانے سےکسی اورکو تو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے لیکن زعفرانی پارٹی کو سب سے زیادہ فائدہ ہونے کی امید ہے کیوں کہ بہار میں لوک سبھا کی ۴۰؍ سیٹیں ہیں اور نتیش کے بی جے پی کے ساتھ آجانے سے ان نشستوں پر سیاسی مساوات بڑی حد تک تبدیل ہو جائے گی۔ بی جے پی کی اس وقت جو حالت ہے اس میں وہ ہندی بیلٹ کی تمام ریاستوں میں ایک بھی سیٹ ہارنے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی ہے کیوں کہ جنوبی ہند، مشرقی ہند اور شمال مشرقی ہندوستان میں اسے واضح طور پر سیٹوں پر بہت بڑا نقصان ہو گا۔ ایسے میں بہار کی ۴۰؍ سیٹیں کافی اہم ہوجاتی ہیں۔ نتیش کمار جو کل تک بی جے پی سے تمام سیٹیں چھیننے کی باتیں کررہے تھےاب اپنے قدم کی وجہ سے بی جے پی کے لئے کچھ سیٹیں جیتنے کا سبب بن جائیں گے۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو سیاست کے طلبہ کیلئے نتیش کمار ایک دلچسپ کیس اسٹڈی بن جائیں گے جنہوں نے ملک میں جمہوریت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK