ممبئی میں آج درجن بھراُردو اسکولیں ایسی ہیں جن سے اس سال ایس ایس سی کے امتحان میں بمشکل ۲۰؍ تا۲۵؍ طلبہ نے شرکت کی ہے۔ اُردو ذریعہ تعلیم سے اُردو طبقہ کے اعتماد اٹھ جانے کی یہی ایک مثال کافی ہے کہ ممبئی کے اردو اسکولوں کے اساتذہ کا شاید ہی کوئی بچّہ اُردو اسکول میں پڑھتا ہوگا۔
تھوڑی سی کوشش کرلی جائے توارد و کے طلبہ انگریزی کے طلبہ سے کسی بھی صورت میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ تصویر : آئی این این
ہم یہ کہہ رہے تھے کہ انگریز جب ہندوستان چھوڑ کر گئے تب ہمیں کوئی نصیحت یا وصیت کرکے نہیں گئے تھے کہ ہم ان کی زبان کی حفاظت کریں یا ان کی زبان کو پھیلائیں ، اس کے باوجود ہم ان کی زبان کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ آخر انگریزی زبان اس قدر طاقتور کیسے بن گئی؟ کیسے یہ زبان اور دنیا کی کئی اور اس ملک کے ساری زبانوں کو چیلنج کر رہی ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ اس کے اسباب پر غور کرنے کے بجائے ایک طبقے کے ذریعہ انگریزی کو جی بھر کر کوسا جارہا ہے ، گالیاں دی جارہی ہیں ، کوئی اسے فرنگی کہہ رہا ہے توکوئی بیرونی بلا، جس قدر اس زبان پر کچھ لوگ اپنا بخاراُتار رہے ہیں اسی قدر یہ زبان طاقتور ہوتی جارہی ہے۔
آیئے ایمانداری سے محاسبہ کریں کہ آخر انگریزی کے مقابلے اردو اپنی جنگ کیسے ہاری ؟ (۱) کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی زبان بے حد شریں و میٹھی زبان ہے ؟جی نہیں !در اصل اُردو اور فارسی سب سے زیادہ شیریں زبانیں ہیں ۔(۲) کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی زبان کی شاعری عالمی پیمانے کی شاعری ہے؟ جی نہیں اردو زبان کی شاعری بے مثل و بے نظیر ہے۔ (۳) کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو ادب میں کوئی دم خم نہیں ہے؟ جی نہیں ! اردو کا کوئی ادیب کبھی بھی کُل وقتی ادیب نہیں رہا اس کے باوجود اس نے شاہکار ادب تخلیق کیا ہے جسے دنیا کی کسی بھی زبان کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: انگریزی کے طوفان میں اُردو کی شمع کو کس طرح روشن رکھا جاسکتا ہے؟
انگریزی زبان کے پھیلاؤ کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ زبان زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی سکت رکھتی ہے۔ انیسویں صدی فکشن کی صدی تھی، بیسویں صدی سائنس کی اور اکیسویں صدی ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ بد قسمتی سے اُردو اب بھی انیسویں صدی میں جی رہی ہے اور انگریزی زبان اکیسویں صدی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی ہے۔ انگریزی زبان نے دنیا کے سارے علوم کو اپنے دامن میں محفوظ کر رکھا ہے۔ آج عام معلومات، طب، سائنس، ٹیکنالوجی، نفسیات، سماجیات، صحت، فن خودشناسی، سیر و سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، طبعیات، ریاضی، حیوانیات، کیمیات، علمِ بشریات، معاشیات، ما حولیات، مینجمنٹ، کامرس اور تجارت غرض کہ ہر موضوع پر انگریزی زبان میں کتا بیں موجود ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو کا دامن اُس سے خالی ہے۔
در اصل انگریزی کے خلاف محاذ آرائی میں اردو والوں کے بھی پیش پیش رہنے اور اردو کو بچانے کی تدابیر کا پتہ کرنے کے بجائے انگریزی ہٹائو کے مہم میں شریک ہونے کی بنا پر اردو اسکولوں پر تنزلی چھاتی چلی گئی اور انگریزی کا چلن بڑھتے گیا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ممبئی کے سارے مسلم محلوں سے اسکول بسیں بھر بھر کر بچّے کا نوینٹ اسکول میں جارہے ہیں اور ان علاقوں میں جو چند اردو اسکول بچے ہیں ان کو زندہ رکھنے کیلئے ایک خیراتی ادار ہ دُور دراز کی جھو پڑ پٹیوں اور فٹ پاتھ کے بچّوں کو’ مفت بس سروس، مفت کتا میں و بیاضیں ، مفت یونیفارم ،اور مفت کھچڑی کا سہارا لے رہا ہے۔ ورنہ اس بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود شہر ممبئی میں آج درجن بھر اردو اسکولیں ایسی ہیں جن سے اس سال ایس ایس سی کے امتحان میں بمشکل ۲۰؍ تا۲۵؍ طلبہ نے شرکت کی۔ یہی نہیں اردو ذریعہ تعلیم سے اردو طبقہ کے اعتماد اٹھ جانے کی یہی ایک مثال کافی ہے کہ ممبئی کے اردو اسکولوں کے صدر مدرس یا مدرس کا شاید ہی کوئی بچّہ اردو اسکول میں پڑھتا ہوگا !
اب یہ اعتماد کیسے بحال ہوگا ؟ اردو اسکولیں صرف زندہ نہیں بلکہ دم خم کے ساتھ اور وقار کے ساتھ زندہ کیسے رہیں گی ؟ آئیے اس کا حل تلاش کریں سب سے پہلے صدق دل سے ’اردو انگلش بھائی بھائی‘ کا نعرہ لگانا ہوگا۔ اردو تعلیم یا انگریزی تعلیم کے تنازع سے نکل کر اردو تعلیم اور انگریزی تعلیم کے فارمولے کو تسلیم کرنا ہوگا۔ انگریزی کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا۔ آخر کچھ تو بات ہوگی جس کی وجہ سے اس زبان کی آج دنیا بھر میں طوطی بول رہا ہے۔ آئیے سوچیں کہ انگریزی اور اردو اسکولوں میں ایک واضح فرق کیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ لوگ جوق در جوق انگریزی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ در اصل فرق ان اسکولوں میں صرف دو باتوں کا ہے۔
(۱)انگریزی میڈیم کے بچّے روانی کے ساتھ انگریزی میں بات کر سکتے ہیں۔ ( ۲) انگریزی میڈیم کی بچّوں کی ایک بڑی اکثریت مقابلہ جاتی امتحانات میں بہتر کار کردگی کر رہی ہے۔
آئیے پہلے یہ سوچیں کہ کیا اردو اسکولوں کے بچّوں میں بھی روانی سے انگریزی میں بات کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاسکتی ہے؟
چند سال قبل ملک بھر میں انگریزی ہی کے ہاتھوں دوسری زبانوں کے کئی اسکولوں کو بند ہوتے دیکھ کر حکومت نے غیر انگریزی اسکولوں میں پہلی جماعت ہی سے انگریزی زباندانی کو لازمی قرار دیا البتہ اس کے باوجود انگریزی اسکولوں میں داخلہ لینے والوں کے ہجوم پر قابونہیں پایا جاسکا۔ اردو اسکولوں میں بھی انگریزی زباندانی پہلی جماعت ہی سے لازمی ہے مگر اس کے باوجود اس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد نہیں ہوتے۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) اردو اسکولوں میں انگریزی کے اساتذہ کی اکثریت کی اپنی انگریزی قابل رحم ہوتی ہے۔
۲)ان اسکولوں میں یہ اساتذہ اگر انگریزی پڑھانے کے اہل نہیں ہیں تو ان میں سے بیشتر نے اہل بننے کی کوشش بھی نہیں کی۔
(۳) یہ اساتذہ صرف یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ نصاب ہی پورا نہیں ہوتا۔ اس طرح پور اسال نصاب پورا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
(۴)اردو اسکولوں میں انگریزی آسان بنانے کیلئے ایک عرصے تک بچّوں کے انگریزی کے گرامر میں الجھایا جاتا ہے جس سے بچّہ کچھ اس قدر کنفیوز ہو جاتا ہے کہ وہ انگریزی کو بے حد مشکل زبان سمجھنے لگتا ہے۔
(۵) نصاب پورا کرتے رہنے کے اپنے محبوب مشغلے میں الجھے رہنے کی وجہ سے اردو میڈیم کے اساتذہ نصاب سے ہٹ کر عام بول چال کی انگریزی پر توجہ نہیں دے پاتے۔
(۶) آخران سارے مسائل کے حل کیا ہیں ؟ ہمارے خیال سے مندرجہ ذیل دو اقدامات اس صورت حال کو تبدیل کر سکتے ہیں ۔
( الف ) ہمارے اردو اسکولوں میں چونکہ ہمارے اساتذہ نصاب کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں اور عام بول چال کی انگریزی زبان نہیں دے پاتے، اسلئے یہ ضروری ہو گیا کہ ہمارے اسکولوں میں انگریزی بول چال کے روزانہ ایک زائد کلاس کا نظم کیا جائے۔ اسکول کے اوقات سے قبل یا بعد روزانہ ایک گھنٹہ ایک زائد کلاس میں کسی ماہر استاد سے انگریزی پڑھائی جائے۔ اس پریڈ میں روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والے الفاظ و جملے پڑھائے جائیں ۔ اس انتہائی اہم کلاس کیلئے کوئی نصاب مرتب کرنے تک بازار میں دستیاب انگریزی بول چال کی کسی معیاری کتاب کا سہار ا لیا جا سکتا ہے۔ پیر تا جمعہ روزانہ ایک گھنٹہ انگریزی کا کلاس ہو اور ہرسنیچر کو لازمی طور پر اس کا امتحان لیا جائے۔
(ب) عام طور پر اردو میڈیم کے اسکولوں کے بچّوں کو کالج میں بول چال کے علاوہ جن دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے، وہ ہیں : انگریزی اصطلاحات خصوصاً سائنس اور کامرس کی اصطلاحات کے متبادل الفاظ سے عدم جانکاری کی وجہ سے کالج میں ان کی تعلیمی کا کردگی متاثر رہتی ہے۔ اس کا موثر حل چندریاستوں میں موجود ہے۔ آج یہاں بڑی اچھی سہولت موجود ہے کہ غیر انگریزی اسکولوں میں ریاضی اور سائنس مضامین انگریزی زبان میں پڑھائے جائیں اور اس صورت میں اسکولوں کی گرانٹ میں کوئی کمی نہیں ہوتی یعنی ان اسا تذہ کی تنخواہ حکومت ہی ادا کرتی ہے اور اس کیلئے انگریزی میڈیم کے اساتذہ کی تقرری ضروری نہیں ہے بلکہ اردو ذریعہ تعلیم وہ اساتذہ جنہوں نے بی ایس سی انگریزی میڈیم سے کیا ہے وہ مضامین اسکولوں میں پڑھا سکتے ہیں۔
اردو کی قصیدہ خوانی اور نوحہ خوانی دونوں ہی چھوڑ دیجئے۔ ہمیں یقین کامل ہے کہ اردو اسکولوں میں انگریزی بول چال کے روزانہ ایک گھنٹہ اور ذہنی آزمائش کے روزانہ آدھے گھنٹے کے ان زائد پر یڈ کی بظاہر معمولی کوششوں سے صرف چار پانچ برسوں میں بے حد مثبت نتائج بر آمد ہوں گے۔ ضرورت ہے ہمارے اساتذہ، والدین طلبہ، انتظامیہ اور معاشرے کی مکمل مثبت فکر کی او رخوب خوب محنت کی۔ مایوسی کا لبادہ اتار دینے کی، ہمیشہ پُر امید رہنے کی اور پھر دیکھنا ہماری نازک و ناتواں اردو زبان انگریزی کی سونامی کے سامنے یقیناً ٹک پائے گی۔