مدھیہ پردیش کے اندور میں بی جے پی ایم ایل اے مالنی گور کے بیٹے اکلویہ سنگھ گور کے مقامی تاجروں کو ان کے مسلم ملازمین کو ہٹانے کی تنبیہ کے بعد ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔اس نفرت انگیز تقریر کے خلاف احتجاج کا آغاز ہو چکا ہے۔
EPAPER
Updated: September 25, 2025, 10:01 PM IST | Bhopal
مدھیہ پردیش کے اندور میں بی جے پی ایم ایل اے مالنی گور کے بیٹے اکلویہ سنگھ گور کے مقامی تاجروں کو ان کے مسلم ملازمین کو ہٹانے کی تنبیہ کے بعد ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔اس نفرت انگیز تقریر کے خلاف احتجاج کا آغاز ہو چکا ہے۔
مدھیہ پردیش کے اندور میں بی جے پی ایم ایل اے مالنی گور کے بیٹے اکلویہ سنگھ گور کے مقامی تاجروں کو ان کے مسلم ملازمین کو ہٹانے کی تنبیہ کے بعد ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔اس نفرت انگیز تقریر کے خلاف احتجاج کا آغاز ہو چکا ہے۔جس میں مسلم دکاندار مظاہرہ کر رہے ہیں اور حزب اختلاف کی جماعتیں بی جے پی لیڈر کے بیٹے پر کھلم کھلا اسلاموفوبیا کو ہوا دینے کا الزام لگا رہی ہیں۔ بدھ کے روز مسلم تاجروں نے بجاج خانہ چوک سے راجباڑا تک خاموش مارچ کیا، بینرز اٹھائے ہوئے تھے اور اپنے آئینی حقوق کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’کیا مسلمان ہونا ہمارا قصور ہے؟‘‘ اور ’’ہندو مسلم اتحاد کو تباہ کر کے آپ کیا حاصل کریں گے؟‘ تاجر محمد گلزار نے مکتوب میڈیا کو بتایا، ’’ہم ہندوستانی ہیں۔ ہم۳۰؍ تا ۳۵؍ سال سے یہاں کام کر رہے ہیں، اپنی دکانیں پرامن طریقے سے چلا رہے ہیں۔ پھر بھی ہمیں صرف اس لیے باہر دھکیلا جا رہا ہے کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔‘‘گلزار نے پوچھا، کیا مسلمان ہونا ہماری غلطی ہے؟ ہمارے ہندو ہم منصبوں کی طرح اس ملک کے حقدار شہری ہونے کے باوجود ہمیں کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے؟‘‘سیتلا ماتا مارکیٹ کے دکاندار بلونت سنگھ راٹھور مسلم دکانداروں اور ملازموں کو زبردستی بے دخل کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ بدھ۲۴؍ ستمبر کو ہونے والے مظاہروں میں بھی شامل تھے۔ راٹھور نے کہا، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی کو ختم نہیں ہونا چاہیے، اور انہیں روزگار کمانے کے یکساں مواقع دیے جانے چاہئیں۔‘‘بلونت کے مسلم بزنس پارٹنر محمد ہارون، جو برسوں سے ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں، ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں بے دخل ہونے کا سامنا ہے۔مکتوب سے بات کرتے ہوئے ہارون نے کہا، ’’ریاست اور ملک کا سماجی تانا بانا اس لیے برقرار ہے کیونکہ دونوں برادریاں مل کر رہنا، سانس لینا، تجارت کرنا اور ترقی کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ہارون نے کہا، ’’یہ دیکھ کر مجھے گہرا دکھ ہوتا ہے کہ کس آسانی سے یہ سیاستدان ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان موجود رشتے کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ وہ آسانی سے ہمیں جدا نہیں کر سکتے۔‘‘سیتلامتا مارکیٹ، جو کبھی ٹریفک سے اٹی پڑتی تھی، جمعرات۲۵؍ ستمبر کو کچھ ہندو تاجروں کے مارکیٹ سے مسلم خوردہ فروشوں اور ملازموں کو بے دخل کرنے کے بعد خالی اور سونی نظر آئی۔ خریداروں میں پہلی بار نمایاں کمی دیکھی گئی۔
یہ بھی پڑھئے: بابری مسجدکی تعمیر بے حرمتی کا ابتدائی عمل تھا: ڈی وائی چندرچڈ کے بیان پرغم وغصہ
ریاست میں ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کے کوآرڈینیٹر اور مسلم کمیونٹی ایسوسی ایشن کے صادر زید پٹھان نے مکتوب میڈیا کو بتایا، ’’دائیں بازو کے اراکین کے دباؤ کے بعد، خاموش احتجاجی مظاہروں میں شامل کچھ مسلم تاجروں کو پولس اہلکاروں نے طلب کیا۔‘‘انہوں نے کہا، ’’اگرچہ کچھ تاجروں نے مسلم دکانداروں، خوردہ فروشوں اور ملازموں کو نکال دیا ہے، لیکن آج مارکیٹ میں خاموشی طاری تھی۔ زیادہ تر دکانداروں نے پورا دن صرف بیٹھ کر گزار دیا۔‘‘پٹھان نے کہا، ’’بائیکاٹ کا اثر مارکیٹ کے رجحانات پر بھی پڑا ہے اور اس سے گاہکوں اور خریداروں، جن میں سے زیادہ تر مسلم برادری سے تعلق رکھتے ہیں، کی کثیر تعداد کا نقصان ہوا ہے۔‘‘تاہم پٹھان نے کہا کہ بڑی تعداد میں تاجر بائیکاٹ کے مطالبے کی تائید نہیں کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا، ’’جو لوگ مسلمانوں کے بائیکاٹ کی تائید کر رہے ہیں وہ یا تو دباؤ میں ہیں یا دائیں بازو سے وابستہ ہیں، ورنہ کوئی بھی تاجر مسلم تاجروں کو جانے دینا نہیں چاہتا، کیونکہ اس سے فروخت متاثر ہوگی۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: دہلی ہائی کورٹ نے تہاڑ جیل سے مقبول بٹ اور افضل گرو کی قبریں ہٹانے کی عرضی خارج کر دی
واضح رہے کہ نفرت کی اس مہم کا مرکز میں۱۸؍ اگست کو سیتلا ماتا مارکیٹ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے ساتھ ایک میٹنگ ہے، جہاں بی جے پی ایم ایل اے کے بیٹے اکلویہ گور نے مبینہ طور پر کہا تھا، ’’اسلامی آبادی بڑھانے کے لیے لو جہاد سب سے بڑی سازش ہے۔ یہ سناتن دھرم کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔‘‘ان تبصروں کی نگریس، اور دیگر تنظیموں نے شدید مخالفت کی ہے۔شہری کانگریس کے صدر نے اسے اہم اور بڑے مسائل سے عوامی توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا۔کانگریس کی کونسلر روبینہ اقبال خان نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرکے انہیں امن کی نصیحت کی۔ اس کے علاوہ اندور کے ممتاز عالم دین مفتی جنید نےکہا کہ’’ اس قسم کے فرمان سے معاشرہ میں تفرقہ میں اضافہ ہوگا، تجارت اتحاد سے چلتی ہے،ا گر تاجروں پر مسلم کارکنوں کو ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے، تو اس سے تجارت اور معاشرہ متاثر ہوگا۔ اس اقدام سے اعتماد ختم ہو سکتا ہے، روزگار متاثر ہو سکتے ہیں، اور اندور میں نسلوں سے قائم فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو سکتی ہے۔‘‘
اندور کے ہی ایک تاجر زاہد خان نے کہا کہ اس قسم کی سیاست سے اقتدار میں بیٹھے چند لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ معیشت کو نقصان پہنچاتی ہے، تعلقات کو زہر آلود کرتی ہے، اور ہمارے قوم کے تانوں بانوں کو کمزور کرتی ہے۔‘‘ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اندور کا یہ تنازعہ ایک الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں، ہندوستان کے مختلف حصوں میں مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کے کئی مطالبے سامنے آ چکے ہیں۔