Inquilab Logo Happiest Places to Work

ضمانت کا نہ ملنا اور سماعت تک نہ ہونا، یہ کہاں کا انصاف ہے؟

Updated: April 27, 2025, 4:06 PM IST | Yogendra Yadav | Mumbai

ارنب گوسوامی کو ضمانت دینے کیلئے سپریم کورٹ چھٹی کے دن کھلتی ہے۔ کسانوں کو روندنے کے ملزم سابق مرکزی وزیر اجے مشرا ٹینی کے بیٹے کو ضمانت مل جاتی ہے۔ آبروریزی اور قتل کے سزا یافتہ مجرم رام رحیم کو پرول پر پرول مل رہی ہے، لیکن گلفشاں فاطمہ، خالد سیفی، شرجیل امام اور عمر خالد جیل میں رہنے پرمجبورہیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟

Sharjeel Imam and Umar Khalid. Photo: INN.
شرجیل امام اور عمر خالد۔ تصویر: آئی این این۔

آپ ذرا تصور کریں۔ آپ گھر بیٹھے ہیں، پولیس آکر گرفتار کر لیتی ہے۔ آپ پوچھتے ہیں کہ آپ کا قصور کیا ہے؟ پولیس نے آپ پر یکے بعد دیگرے سنگین الزامات لگائے ہیں۔ آپ کو جیل میں ڈال دیا ہے۔ آپ حیران ہیں، پریشان ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹی من گھڑت کہانی ہے، لیکن سننے والا کون ہے؟ آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے خلاف ایسے سنگین الزامات لگانے کی بنیاد کیا ہے؟ جواب ملتا ہے کہ آپ عدالت میں اپنے آپ کو بے قصور ثابت کریں ۔ آپ کو امید ہوتی ہے اور آپ پوچھتے ہیں کہ عدالت کے سامنے تمام سچائی اور ثبوت کیسے پیش کریں ؟ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب عدالت میں سماعت شروع ہو گی۔ تو سماعت کب ہوگی؟ ایسا لگتا ہے کہ مقدمے کی سماعت شروع ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ آپ پوچھتے ہیں کہ اگر ٹرائل شروع ہی نہیں ہو رہا تو مجھے جیل میں کیوں رکھا گیا ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہی قانون ہے۔ حالانکہ اس جرم میں ضمانت نہیں ہوتی، لیکن اگر آپ جیل سے رہائی چاہتے ہیں تو عدالت جائیں۔ پھر امید پیدا ہوتی ہے۔ آپ عدالت میں درخواست دائر کرتے ہیں۔ مہینوں بعد سماعت کا نمبر آتا ہے۔ کئی پیشیوں کے بعد سماعت مکمل ہو جاتی ہے، لیکن فیصلہ مہینوں تک نہیں آتا۔ اسی دوران جج کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ پھر چند ماہ بعد نئے جج اور پھرسماعت۔ یہاں بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ پھر ایک اور نئےجج، یعنی تاریخ پر تاریخ۔ 
ایسے میں کئی سال جیل میں گزارنے کے بعد آپ کیا سوچیں گے؟ جب آپ لاء اینڈ آرڈر، آئین جیسے الفاظ سنیں گے تو آپ کے ذہن میں کیا خیالات آئیں گے؟ ججوں کے خوبصورت بیانات سن کر آپ کو کیسا لگے گا؟ شاید وہی چیز آج گلفشاں فاطمہ محسوس کر رہی ہوگی، یا خالد سیفی اور عمر خالد... کیونکہ یہ حقیقت ہے، کوئی خیالی کہانی نہیں۔ یہ ان بہت سے مظاہرین کی کہانی ہے جنہیں دہلی فسادات کے بعد جیل میں ڈال دیاگیا تھا۔ ایک طرف جج آئینی اقدار اور انسانی حقوق پر تقریریں کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ حکم دیتی ہے کہ درخواست ضمانت پر جلد از جلد غور کیا جائے اور کسی بھی طر ح فیصلہ دو ہفتوں میں دیا جائے۔ دوسری طرف اسی عدالت کی ناک کے نیچے ان کارکنوں کی درخواست ضمانت پر دو ہفتوں یا دو ماہ میں نہیں بلکہ دو سال میں بھی کوئی فیصلہ نہیں آتا۔ ان کا قصور یہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور انھوں نے جمہوری طریقے سے ایک قانون کی مخالفت کی۔ 
گلفشاں فاطمہ کی کہانی ہمارے عدالتی نظام کی تاریخ میں درج کی جائے گی۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے اور غازی آباد سے ایم بی اے کرنے کے بعد گلفشاں ریڈیو جاکی بن گئی۔ وہ سی اے اے یعنی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مہم میں شامل ہوئی اور سیلم پور میں شاہین باغ جیسے احتجاج میں حصہ لیا۔ نہ تو وہ کسی قسم کے تشدد میں ملوث تھی، نہ ہی اس پر براہ راست تشدد کرنے کا الزام ہے۔ بہر حال گلفشاں کوبھی ۹؍ اپریل ۲۰۲۰ءکو دہلی فسادات کے بعد تمام سی اے اے مخالف کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ توڑ پھوڑ یا تشدد کاکوئی معاملہ نہیں بنتا تھا، لہٰذا اس کے خلاف دہلی فسادات کی خفیہ اور گہری سازش رچنے کا کیس لگا دیاگیا۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ جلد ضمانت نہ ملے، یو اے پی اے کی دفعات لگائی گئیں۔ اس کے بعد عدالتوں کے چکر لگانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ گرفتاری کے ایک سال بعد اس نے نچلی عدالت میں ضمانت کی درخواست دی۔ کئی ماہ بعد مارچ ۲۰۲۲ء میں اپیل مسترد کر دی گئی۔ منفی ہی سہی، جج نے اپنا فیصلہ تو سنا دیا، لیکن گلفشاں جب ہائی کورٹ پہنچی تو اسے یہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ اپیل مئی۲۰۲۲ء میں دائر کی گئی، سماعت کا نمبر جنوری ۲۰۲۳ء میں آیا۔ ایک ماہ میں سماعت مکمل ہوئی، لیکن فیصلہ نہیں آیا۔ اس درمیان گلفشاں کی طرح گرفتار ہوئے تین دیگر کارکنان نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا کو ہائی کورٹ سے ملی ضمانت پر سپریم کورٹ نے بھی مہر لگا دی۔ اس بنیاد پر گلفشاں نے مئی۲۰۲۳ء میں ایک اور اپیل داخل کی، نہ تو زیر التوا فیصلہ دیا گیا اور نہ ہی سماعت ہوئی۔ اتفاق سے اکتوبر میں جج صاحب کا تبادلہ ہو گیا لیکن انہوں نے جانے سے پہلے فیصلے کا اعلان نہیں کیا۔ 
اب ایک بار پھر کیس نئی بنچ کے سامنے ہے۔ پھر تاریخ پر تاریخ۔ مارچ۲۰۲۴ء میں سماعت کا نمبر آیا جوایک دن میں مکمل ہو گئی، جیسا کہ ہونا چاہئے تھا، لیکن پھر فیصلہ نہیں آیا۔ اتفاق دیکھئے جولائی کے مہینے میں ان جج صاحب کے تبادلے کے احکامات بھی آگئے۔ اب ایک اور نئی بنچ، دوبارہ نئی سماعت۔ گلفشاں تنگ آکر سپریم کورٹ چلی گئی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایسے تمام مقدمات سپریم کورٹ کے ایک خاص جج کے پاس جاتے ہیں، جو ایک خاص قسم کا فیصلہ دیتا ہے۔ ضمانت پر فیصلے میں اتنی تاخیر کے باوجود عدالت نے گلفشاں کو واپس اسی ہائی کورٹ بھیج دیا جس کی تاخیر سے وہ پریشان ہوکروہ سپریم کورٹ آئی تھی۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے جلد سماعت کی ہدایت دی تھی، لیکن دہلی ہائی کورٹ کی تیسری بنچ نومبر۲۰۲۴ء سے اس کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ ایک کے بعد ایک پر ایک تاریخ لگ رہی ہے۔ پانچ سال گزر گئےہیں۔ ٹرائل شروع ہونے یا انصاف ملنے یا ضمانت ملنے کو تو بھول جائیں، گلفشاں کو آج تک اچھا یا برا کوئی فیصلہ نصیب نہیں ہوا۔ 
آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہندوستانی عدالتی نظام کا یہ ایک عام المیہ ہے کہ جو کچھ سب کے ساتھ ہو رہا ہے وہی گلفشاں کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ بلاشبہ، کیس میں تاخیر کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن ایسے کیس میں جس میں حکومت خاص طور پر دلچسپی رکھتی ہو، ضمانت کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہ ہونا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب ارنب گوسوامی کو ضمانت دینے کیلئے سپریم کورٹ چھٹی کے دن بھی کھلتی ہے۔ کسانوں کو روندنے کے ملزم سابق وزیر اجے مشرا ٹینی کے بیٹے کو ضمانت مل جاتی ہے۔ عصمت دری کے ملزم کو اس بنیاد پر ضمانت مل جاتی ہے کہ یہ لڑکی کی غلطی اور لاپروائی کی وجہ سے ہوا ہے۔ عصمت دری اور قتل کے سزا یافتہ مجرم رام رحیم کو پرول پر پرول مل رہی ہے، لیکن گلفشاں فاطمہ، خالد سیفی، شرجیل امام اور عمر خالد جیل میں رہنے کومجبورہیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟ آج نہیں تو کسی دن... تاریخ ہندوستان کے عدالتی نظام سے یہ سوال کرے گی اور اس دن ’انصاف کی دیوی‘ کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK