Inquilab Logo

’ایودھیا ایونٹ‘ کے بعد پیدا شدہ سیاسی صورتحال پر ماہرین کی رائے

Updated: January 28, 2024, 5:53 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

آج ہم جب ایودھیا میں رام مندر کا جشن منا رہے ہیں تو ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے شاندار ماضی سے غداری کر رہے ہیں ؟ قاتلانہ جھوٹ کی قیمت پر آرام دہ زندگی کیلئے نفرت اور ’مسلمانوں کو الگ تھلگ‘ کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔

Prime Minister Narendra Modi presented a model of the Ayodhya temple to French President Emmanuel Macron, who was attending the country`s chief guest at an official function held in New Delhi on the occasion of Republic Day. Photo: PTI
یوم جمہوریہ کے موقع پر نئی دہلی میں منعقدہ سرکاری تقریب میں ملک کے مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہونے والے فرانسیسی سربراہ ایمانول میکرون کو وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا مندر کا ایک ماڈل پیش کیا۔ تصویر: پی ٹی آئی

مندر کاافتتاح ۲۲؍ جنوری ہی کو کیوں ہوا؟ یہ آر ایس ایس کی ایک بڑی سازش ہے 
(ڈاکٹر روی کانت کا تعلق لکھنؤ یونیورسٹی سے ہے۔ دلت موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں اور اپنی بات نہایت بے باکی سے کہتے اورلکھتے ہیں۔ مختلف یوٹیوب چینلوں  پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی ایسی سرکاری پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں جنہیں وہ ملک مخالف سمجھتے ہیں۔ )
 رام مندر کا افتتاح۲۲؍ جنوری کو ہوگیا۔ میں اسے افتتاح ہی کہوں گاکیونکہ تمام ہندو شاستروں کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ وقت کسی مندر کے ’پران پرتشٹھا‘کیلئے ’شبھ‘ نہیں ہے۔ درحقیقت ۲۵؍ تاریخ کو ’پوس‘ کی پورنیما (پورے چاند کی رات) ہے۔ تب تک اس طرح کی کوئی بھی مذہبی تقریب منعقدنہیں ہو سکتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رام مندر ٹرسٹ اور وزیر اعظم نے اس مسئلے پر غور نہیں کیا ہوگا؟ کیا انہوں نے ’دھرم آچاریوں ‘سے مشورہ نہیں کیا ہوگا؟ ان سے نہیں پوچھا ہوگا؟ظاہر ہے انہوں نے ایسا کیا ہوگا۔ پھر بھی اگر۲۲؍جنوری کو ہی ’پران پرتشٹھا‘ کا انعقاد کیاگیا تو اس کا اپنا کچھ مطلب اور مقصد ہوگا۔ 
 زیادہ تر تجزیہ کاروں، ماہرین اور اپوزیشن جماعتوں نے اسے آئندہ لوک سبھا انتخابات سے جوڑا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مودی کے پاس انتخابات کا سامنا کرنے کیلئے کوئی ٹھوس موضوع نہیں ہے، اسلئے وہ رام مندر کی مدد سے انتخابی دریا کو عبور کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نریندر مودی رام مندر کو انتخابی فائدے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس بات کو بھی بخوبی سمجھتے ہوں گے کہ صرف رام مندر کی مدد سے الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔ میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ بی جے پی کبھی بھی صرف ہندوتوا کی بنیاد پر الیکشن نہیں جیتتی۔ الیکشن جیتنے کے پیچھے ایک بہترین سوشل انجینئرنگ بھی کام کرتی ہے۔ مندر کے افتتاح کو اس پس منظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حکمراں محاذ اپوزیشن کو رام مندر کے بیانیے میں پھنسانا اور اس طرح بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہی دراصل رام مندر کے انعقاد کی ایک بڑی وجہ ہے.... لیکن یہ کام۲۲؍ جنوری کے بعد بھی ہو سکتا تھا۔ اگر مندر کا افتتاح فروری میں ہوتا تو کیا لوک سبھا انتخابات میں اس کا فائدہ نہیں ہوتا؟ ایسے میں یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ مندر کے نام پر ملک گیر تقریب کیلئے صرف۲۲؍ جنوری ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
 اسے ’ڈی کوڈ‘ کرنے کیلئے ہمیں آر ایس ایس کے نظریے اور اس کی تاریخ کی طرف جانا پڑے گا۔ نریندر مودی اسی آر ایس ایس کے پرچارک ہیں جس نے ہندوستانی جمہوریت اور آئین کو کبھی قبول نہیں کیا بلکہ مسلسل اس کی مخالفت کی۔ آر ایس ایس کا تصور ملک کو آئینی جمہوریت کے بجائے ایک ہندو راشٹر بنانا ہے۔ اس معاملے میں ہندو مہاسبھا اور رام راجیہ پریشد جیسی تنظیمیں بھی آر ایس ایس کے ساتھ کھڑی تھیں۔ آزاد ہندوستان میں بھی آر ایس ایس نے ہندو راشٹر کے مقصد سے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ اس کیلئے مسلسل کوششیں جاری رہیں۔ دلتوں اور قبائلیوں پر مظالم اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی’ لنچنگ‘ اسی مقصد کا ایک حصہ ہے۔ اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا اور دلتوں، پسماندہ طبقات، قبائلیوں کو نوکر اور غلام بنا کر رکھنا ہے۔ انہیں وسائل اور تعلیم سے محروم کرنا ہے۔ ان کی سوچ پر پہرہ بٹھانا اور ان کے شعور کو کند کرکے آئین اور شہری حقوق کے تئیں ان کی بیداری کی کوششوں پر روک لگانا ہے۔ نریندر مودی نے اپنے گزشتہ۱۰؍ سال کے دور اقتدار میں ہندو راشٹر کے تصور کو بہت باریکی سے آگے بڑھایا ہے۔ 
 ملک کے اہم شنکراچاریوں کی مخالفت اور انکار کے باوجود رام مندر کا افتتاح۲۲؍ جنوری کو ہی ہوا۔ کیا اس تقریب کو چند روز کیلئے ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا؟سپریم کورٹ کی ہدایت پر رام مندر کی تعمیر کو کوئی کیسے روک سکتا تھا؟ اگر حکومت بدل جاتی تو بھی رام مندر کا کام مکمل ہی ہوتا.... لیکن ایک نامکمل مندر کے افتتاح کے پیچھے اصل مقصد کچھ اور ہے۔ دراصل یہ افتتاح ہندو راشٹر کی طرف ایک اور قدم ہے۔ 
 ۲۲؍ جنوری کو افتتاح کے پیچھے اصل وجہ یوم جمہوریہ کی شبیہ کو متاثر کرنا ہے۔ اسلئے اس تقریب کو ملک کی آزادی کے تئیں ملک کے عزم، آئین اور جمہوریہ کی اقدار کی توہین کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یوم جمہوریہ سے عین قبل ایک ملک گیر تقریب کا اہتمام کرنا، جو بہت جذباتی ہو، جس میں جشن ہو اور چراغاں کا ماحول بنایا گیا ہو کا بنیادی مقصد صرف یہی ہے۔ اس ماحول کے ذریعے صرف۳؍ دن بعد۲۶؍ جنوری کو یوم جمہوریہ کی تقریبات کو پھیکا بنا دیا جانا ہے۔ آج پورے ملک میں زعفرانی جھنڈے ہیں۔ کیا یہ آپ کی توجہ اس طرف نہیں مبذول کراتی ہے کہ آر ایس ایس نے چار دہائیوں تک اپنے دفتر پر ترنگا کیوں نہیں لہرایا؟ دراصل، آر ایس ایس بھگوا کو قومی پرچم بنانا چاہتا تھا۔ رام مندر کی تقریب کی وجہ سے ان کا یہ مقصد اب کامیاب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ چاروں طرف بھگوا جھنڈوں کے سیلاب میں ترنگے کی شان کو کم کرنے کی یہ ان کی پوشیدہ حکمت عملی ہے۔ 
مندر کے بہانے ملک کی جمہوری ساکھ کو متاثر کرنے کی منصوبہ بند کوشش کی جارہی ہے
(پریہ درشن ایک سینئر صحافی، ہندی کے مشہور ادیب اور کوی ہیں۔ ’زندگی لائیو‘.... ’بارش، دھواں اور دوست‘.... ’اس کے حصے کا جادو‘ اور’کچھ نشٹ بھی نہیں ہوتا‘ جیسی کتابیں انہوں نے تخلیق کی ہیں۔ ۱۵؍ برسوں سے زائد عرصے تک ’این ڈی ٹی وی‘ سے وابستہ رہنے کے بعد ابھی حال ہی میں انہوں نے وہاں سے علاحدگی اختیار کرلی ہے۔ )
 یہ بات، اب کہاوت کی طرح دہرائی جارہی ہے کہ پانچ سو سال کی جدوجہد اور پانچ صدیوں کی تکلیف کے بعد رام مندر کی تعمیر ہوئی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا کہنا تاریخی طور پر درست ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی، تو بابری مسجد کے خلاف تلسی داس کے ذہن میں کوئی بات کیوں نہیں اُٹھتی اور وہ کسی جدوجہد کیبات کیوں نہیں کرتے؟ان کے بعد کے برسوں میں آنے والے سنتوں اور ہندو مفکروں کے یہاں رام کے بے گھر ہونے کا کوئی ذکر کیوں نہیں ہے؟ بے شک رام کی جائے پیدائش کے حوالے سے ایک مقدمہ انگریزوں کے دور سے چلتا رہا ہے اور وہاں پر قبضے کو لے کرچھوٹی موٹی وارداتیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن اُس لڑائی میں نہ تو پورا ہندو شعور شامل تھا اور نہ ہی مسلم شعور۔ سچائی تو یہ ہے کہ اُن دنوں یہ ہندو مسلم تنازع تھابھی نہیں۔ 
 تحریک آزادی کے سب سے بڑے ہیرو مہاتما گاندھی نے بھی رام کی بات کی اور رام راجیہ کی بھی بات کی لیکن ان کے یہاں بھی دور دور تک ایسا کوئی درد نظر نہیں آتا کہ رام کے مندر پر کسی اور نے قبضہ کر لیا ہو۔ اور تو اور.... ۱۹۸۰ء میں بننے والی بی جے پی کو اپنے پہلے آٹھ سال تک رام مندر یاد نہیں رہا اور اس کے بعد بھی اتحادی سیاست کے دور میں اپنی سیاسی ضرورتوں کے مطابق اسے اپنے ایجنڈے سے ملتوی ہی رکھا۔ پھر یہ پانچ سو سالہ درد اور پانچ سو سالہ تاریخ اچانک کہاں سے آگئی؟ ظاہر ہے کہ ملک میں یہ ایک نئی ’سوچ‘ بنانے کی کوشش ہے۔ بلکہ اس مصنوعی درد کی تخلیق میں اس حقیقی درد کی یاد کو بھی دفن کیا جا رہا ہے جو اِن پانچ سو برسوں میں تمام ادیبوں، دانشوروں اور تحریکوں میں نظر آتی رہی ہے۔ وہ چھوا چھوت اور سماجی عدم مساوات کا درد ہے جس کے خلاف کبیر نے بھی لکھا، ریداس نے بھی لکھا، بہت سے سماجی مصلحین نے لکھا، وویکانند، امبیڈکر اور یہاں تک کہ گاندھی اور ساورکر نے بھی اپنے اپنے انداز میں اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک حقیقی درد ہے جس کا ہندو سماج آج بھی کوئی درست حل تلاش کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ وہ ذات پات کی بنیاد پر شادی کرتا ہے، اسی بنیاد پر رشتہ استوار کرتا ہے، دفتروں میں تقرری اور پروموشن تک میں ذات پات کو ذہن میں رکھتا ہے اور اپنے اس احساس جرم سے باہر نکلنے کیلئے ’شبری‘ اور ’کیوٹ‘کی یاد دلاتا ہے۔ ۵۰۰؍ سالہ ہندو تکالیف کی تخلیق بھی اسی عمل کا ایک حصہ ہے۔  اسی طرح کا ایک اور درد بھی ان دنوں انہیں ابھرا ہے۔ سب یاد کر رہے ہیں کہ رام للا کئی دہائیوں تک ایک خیمے میں رہے... لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا ہے کہ انہیں خیمے تک پہنچانے کیلئے ذمہ دار کون ہے؟۶؍دسمبر۱۹۹۲ء سے پہلے رام کی مورتیاں کہاں تھیں ؟ بظاہر، وہ ایک عمارت میں تھیں جسے تب بھی ان کے ماننے والے اسے رام مندر ہی سمجھتے تھے اور وہاں پوجا اور درشن کیلئے بھی جاتے تھے۔ بابری مسجد یا اگر ان کے حساب سے کہیں تو رام مندر کو توڑ کر ہی ان لوگوں نے رام للا کی مورتیوں کوخیموں میں پہنچایا تھا۔ 

(ایڈوکیٹ اونی بنسل سپریم کورٹ کی وکیل، کئی کتابوں کی خالق اور کانگریس پارٹی کی رُکن ہیں )

آج ہم جب ایودھیا میں رام مندر کا جشن منا رہے ہیں تو ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے شاندار ماضی سے غداری کر رہے ہیں ؟ قاتلانہ جھوٹ کی قیمت پر آرام دہ زندگی کیلئے نفرت اور ’مسلمانوں کو الگ تھلگ‘ کرنے کی اجازت دے رہے ہیں تاکہ ہم اقتدار پر قابض لوگوں سے خود کو بچا سکیں ؟ اگر اسی لئے ہم اندھے بنے رہنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو یاد رکھیں کہ طاقت کا سرچشمہ ہے’ہم، لوگ‘۔ اور یہ ’ہم لوگ‘ ہیں ہیں جو اس قدیم عظیم قوم کی تقدیر کا انتخاب کریں گے۔ اگر ہم اپنے کام کاج اور اپنے رویے کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کرتے ہیں اور ان کی پوری ذمہ داری قبول نہیں کرتے ہیں تو سمجھ لیں کہ ہمیں کوئی نہیں بچا سکے گا۔ 
مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے۔ یہی ہمارے قومی کردار کا تعین کرتا ہے۔ اگر ہم اسے ابھی چھوڑنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو ہمارے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔ الگ الگ مالکوں کے ذریعہ ہمیں مختلف طور طریقوں سے اپنے محدود، چھوٹے، برے اور ظالمانہ مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ حکومت کو تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہو گا۔ لوگوں کو’ہم بمقابلہ اُن‘ میں تقسیم کرنے پر مبنی سیاست بدترین قسم کی سیاست ہے۔ ہمیں اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آج کی تاریخ میں ہمیں ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو تعلیم، صحت اور گورننس کو ترجیح دے۔ ایک ایسی قوم جہاں کوئی بھوکا، بے گھر یا بے چین نہ سوئے، یہی وہ آئیڈیل طریقہ ہے جس کیلئے سیاستدانوں کو کام کرنا چاہئے۔ 
 بقائے باہمی ہی واحد کلید ہے، اور محبت ہی واحد دھاگہ ہے جو اسے بُن سکتا ہے اور اور جوڑ کر رکھ سکتا ہے۔ آئیے ہم جنون کے بجائے حکمت اور شعور کا انتخاب کریں اور ’سب کیلئے محبت‘ کو اپنا گیت بننے دیں۔ ایسا کرنے والوں کیلئے، تاریخ آپ کو یاد رکھے گی، چاہے آپ آج اپنے ہی گھروں میں اقلیت کی طرح کیوں نہ محسوس کریں۔ تمام عظیم چیزیں امید سے شروع ہوتی ہیں اور یہی وہ چیز ہے جسے ہم ترک نہیں کر سکتے۔ آج نہیں اور کبھی نہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK