Inquilab Logo

طلبہ جانتے ہیں کہ اُن کا وقت کہاں اور کس وجہ سے ضائع ہورہا ہے لیکن کمزور قوتِ ارادی آڑے آتی ہے

Updated: February 25, 2024, 4:15 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

اِن کالموں میں ہم جائزہ لے رہے ہیں، اُن سارے عناصر کا جن کی بِناء پر ہم ٹائم مینجمنٹ کے محاذ پر ناکام ہوجاتے ہیں۔ 

Nowadays students spend a lot of time on mobile phones. Photo: INN
آج کل طلبہ کا بہت سارا وقت موبائل کی نذر ہوجاتا ہے۔ تصویر : آئی این این

اِن کالموں میں ہم جائزہ لے رہے ہیں، اُن سارے عناصر کا جن کی بِناء پر ہم ٹائم مینجمنٹ کے محاذ پر ناکام ہوجاتے ہیں۔ 
منفی و مایوس افراد کی صحبت :
 زندگی کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ سکتے ہیں اگر منفی خیالات کے حامل اور مایوس افراد کے ساتھ رہنے کے ہم عادی ہوجائیں کیوں کہ یہلوگ ہر چیز میں منفی پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ہمیشہ شکایتوں کا دفتر کھولے رہتے ہیں، ہر کسی کی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہیں اور ان پر ’عالمانہ‘ تبصرہ کرنے میں ہمہ وقت مصرف رہتے ہیں۔ ایسے افراد کی صحبت میں آپ کا وقت صرف برباد ہی ہوتا رہتا ہے کیونکہ منفی فکر کے حامل افراد ہمیشہ لاحاصل سرگرمیوں میںملوث رہتے ہیں اور وہ اپنے ساتھ رہنے والوں کو اپنے جیسا بنالیتے ہیں۔ ایسے افراد آپ کا ٹائم مینجمنٹ ڈسٹرب کرتے رہتے ہیں کیوںکہ اُن کے پاس صرف ٹائم ہے، اس کا مینجمنٹ نہیں ہے۔
سستی، کاہلی،ٹال مٹول :
 کئی مرتبہ ایسا  ہوتا ہے کہ ہمارے طلبہ اپنا ٹائم ٹیبل بناتے ہیں، کاغذ پر لکھتے ہیںلیکن اُن کی سُستی اور کاہلی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اُس کاغذ کو جیب سے نکال کر پورا دن دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ٹائم ٹیبل کی اُس پرچی کو اپنے اسٹڈی ٹیبل کے سامنے چسپاں کرلیں۔ انسانی فطرت کچھ ایسی ہے کہ اسے آنے والا دن بڑا سُہانا لگتا ہے۔ ہمارے طلبہ بھی جنھوںنے آج دو گھنٹے پڑھائی نہیں کی وہ سوچتے ہیں کہ کل ۱۸؍ گھنٹے پڑھائی کریں گے، یہ کیوں کر ممکن ہے؟ہر بار وہ ایک غیر فطری ٹائم ٹیبل بناتےہیںجو کامیاب ہونے سے رہا اور پھر شکایت کرتےہیں، کوستے رہتے ہیں نصیب کو کہ اُن کا ٹائم ٹیبل ناکام ہورہا ہے۔وقت تیزی سے بھاگتے رہتا ہے، پھر وہ سستی اور کاہلی کا عادی ہو جاتے ہیں.... اور پھر اُن کا وقت صرف گزرتا رہتا ہے اور اُسے لگام لگانے کا شعور یعنی ٹائم مینجمنٹ کے محاذ پر وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔
 ’مسٹر مکمل‘ بننا :
 کچھ لوگ (جن میں طلبہ بھی شامل ہیں) مسٹر پرفیکٹ بننے کا سوچتے ہیں یعنی کسی بھی کام کو اپنی آخری حد تک مکمل کرنے کی کوشش کرنا ۔ انسان کا یہ مزاج اچھا بھی ہوتا ہے البتہ اس عمل میں وہ کسی کام کو یا اس سے وابستہ کچھ غیر ضروری چیزوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر ان پر وقت ضائع کیا جاتا ہے یعنی وہ ضمنی معاملات کو اصل چیزوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جیسے ہم اپنے کسی دوست کو تحفہ دینا چاہتے ہیں تو اس تحفے کے معیار کے تعلق سے سوچنے کے بجائے اس کے بکس کو سجانے میںاپنا وقت برباد کرتے ہیں۔ طلبہ کسی ایک سبق پر، اس کے ایک ایک سوال پر خوب  وقت خرچ (بلکہ ضائع) کرنے کے بعد ہڑ بڑاہٹ کا شکار ہوتے ہیں کہ اس سبق کی بنا پر چار اہم اسباق چھوٹ گئے۔ 

یہ بھی پڑھئے:وہ چند اہم عناصر جو ہمیں وقت کی مناسب تقسیم یعنی ٹائم مینجمنٹ سے روکتے ہیں

’جھٹ پٹ‘ راستوں کی تلاش:
  بدبختی سے ہماری قوم کے اکثر نوجوان زندگی میں آسان یعنی محنت سے عاری راستوں کی تلاش میںرہتے ہیں۔ ان کی اس ’تلاش‘ میں بدقسمتی سے اکثر والدین بھی ان کے ہمراہ اور ہم قدم رہتے ہیں۔ کورونا وائرس اور پھر لاک ڈائون کے دوران والدین میں اس معاملے میںمزید شدّت آگئی ہے۔حالانکہ بچّو! ریاضی کا ایک آسان ترین کلیہ آپ نے اسکولوں ہی میں پڑھا ہوگا کہ دو نقاط کے درمیان کا سب سے چھوٹا راستہ ہمیشہ سیدھا راستہ ہی ہے یعنی منزل مقصود تک کم وقت (اور حقیقی سکون قلب کے ساتھ) میں سیدھے راستےہی سے پہنچا جاسکتا ہے مگر ہماری اکثریت ’جھٹ پٹ‘ راستوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے محلوں کے ہر نکّڑ پر ورغلانے کیلئے ایک سے ایک ’استاد‘ اور ’گُرو‘ کھڑے رہتے ہیں جو اُنھیں یقین دلاتے رہتے ہیں کہ یہ کڑی محنت و ریاضت کا راستہ کانٹوں بھرا  ہے۔ وہ ان نوجوانوں کو راتوں رات کامیاب ہونے کے راستے بتاتے ہیں اور پھر آسان راستوں کی تلاش میں ان کا وقت اور ان کی زندگی بھی صرف ضائع ہوتی رہتی ہے۔ دوستو! محنت کے ذریعے جس منزل کو آپ ۵؍ سال میں پالیتے ہیں اُسے غلط اور گمراہ کُن راستوں پر جاکر ۲۵؍سال میں بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ آسان راستوں کی تلاش آپ کے ٹائم مینجمنٹ کی سب سے بڑی دشمن ہے کیوں کہ اس بے سود تلاش میں آپ کے چند گھنٹے، چند دن ، چند مہینے نہیں بلکہ پوری زندگی ہی دائو پر لگ جاتی ہے۔
ٹائم مینجمنٹ کا گورکن:
 صرف ’ہیلو‘ کرنے کی غرض سے ایجا دکیا گیا آلہ آگے چل کر بے حد ’اسمارٹ‘ بن گیا۔ اس آلے سے ایک بڑا ناقابل تصور کرشمہ بھی ہوگیا کہ اس آلے نے ہزاروں کتابیں نہیں بلکہ لائبریریاں محفوظ کرلیں اور سمندر سے زیادہ وسعت کا حامل یہ میڈیا اب ہر ایک کی زندگی سے لازم و ملزوم ہوگیا۔ کووِڈ ۱۹؍اور لاک ڈائون میں یہ تعلیمی نظام کا بھی لازمی جُز بن گیا اسلئے مجبوراً بچّوں اور نوجوانوں کو اُس کے حوالے کرنا پڑا، اور اب اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ:
 (۱) ہر ایک کے ٹائم مینجمنٹ کا گورکن بن گیا ہے یہ میڈیا۔
 (۲) ہر دس منٹ کے بعد شعوری یا لاشعوری طور پر طلبہ کے ہاتھ موبائل کی طرف لپکتے ہیں۔
 (۳)ایک آدھ گھنٹے میں کوئی مسیج نہیں آیا تو جھنجھلاہٹ ہوتی ہے اور دوچار گھنٹے کسی میسیج یا چیٹ کے بغیر گزرے تواُس میں ایک جنونی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ 
 (۴) اس میڈیا سے ایک بیماری میں شدّت آگئی ہے وہ ہے ’ ٹوہ لینا‘۔ اسلئے رات میں سونے سے پہلے ہمارے اکثر نوجوانوں کا یہ روزانہ کا مشغلہ بن گیا ہے کہ وہ معلوم کریں کہ کون کون آن لائن ہے۔ بیک وقت دوچار دوست آن لائن دکھائی دیں تو اوّل تویہ خیال آتا ہے کہ وہ سب آپس میں چیٹنگ کر رہے ہوں گے اور پھر تھوڑی دیر میں وہ خیال بدگمانی کی شکل اختیار کرلیتا ہے کہ وہ ضرور اُس کیخلاف بات کر رہے ہوں گے۔ جھنجھلاہٹ اور ذہنی کوفت اُسے اس بات پر ہوتی ہے کہ کسی شناسانے دو تین بار آن لائن آنے کے باوجود اُس کا میسیج نہیںپڑھا۔ اُس کے ’گرانقدر‘ میسیج کی یہ بے حرمتی اُس سے برداشت نہیںہوتی اوراس کیفیت کا وہ گھنٹوںشکار رہتا ہے۔
 (۵) سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک نیا ’ٹائم پاس‘ شعبہ وجود میں آیا ہے جس کا نام ہے کمنٹس لکھنا۔بیشتر لوگ ہر بحث میں حصّہ لیتے ہیں یا ٹپک پڑتے ہیں خواہ، اُس موضوع پر اُس کا علم بالکل صفر ہی کیوں نہ ہو۔ اُس کے باوجود اُن کی کمنٹری سننے لائق ہوتی ہے۔ ’’بہت دیر تک سب کے کمنٹس پڑھتا رہا پھر رہا نہیں گیا اسلئے بحث میںکود پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے دس منٹ میں سب کی بولتی بند کردی۔ ایک سے ایک تیس مارخان میدان میں اُترے تھے۔ سبھوں کو پچھاڑدیا۔‘‘ جی ہاں سوشل میڈیا میں اپنے ترکی بہ ترکی جوابات پر ہمارے نوجوان پھولے نہیں سماتے اور اس وقتی میڈیا پر وقتی کامیابی کو بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ گھنٹے، دن، ہفتے اور مہینے اس ماڈرن وقت گزاری میں کب گزرجاتے ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا۔
 (۶) سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوانوں کو جوڈَر ستاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’کہیں کچھ چھوٹ نہ جائے‘۔ ہر لمحہ یہی خیال آتا ہے کہ سوشل میڈیا میں بڑی بحث چل رہی ہوگی ،حجّت و تکرار ہورہی ہوگی، ہنگامہ آرائی ہورہی ہوگی اور میںاُس سے محروم ہوں۔ 
چیزوں کی بے ترتیبی :
 کئی لوگوں کا نصف وقت اپنی چیزوں کو ڈھونڈنے میں ضائع ہوجاتا ہے کیوں کہ وہ اپنی چیزوں کو بے ترتیبی سے رکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ کاغذات کو فائل کرنا، ان کو کلاسیفائیڈ کرنا یعنی الگ الگ خانوں میںرکھنا اُنھیںکبھی نصیب نہیں ہوتا۔ وہ سوچتے رہتے ہیں کہ ایک دن ساری چیزوں کو ترتیب سے رکھیں گے اور وہ دن ان کی زندگی میں کبھی نہیں آتا(ہمارے طلبہ بھی اپنی بیاضیں، کتابیں اور دوسرے رہبر کتابوں کو الگ الگ نہیں رکھتے) اور اسی لئے جھنجھلاہٹ میں ان کا وقت ضائع ہوتے رہتا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ ان کا وقت ضائع ہورہا ہے لیکن کمزور قوت ارادی کی وجہ سے وہ اس پر قابو نہیں پاتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK