مہاراشٹر کی سیاسی تاریخ میں رشتے کے دو بھائی اُدھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے نے ۲۰؍ سال بعد پہلی بار اتحاد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ دونوں بھائیوں کے قریب آنے سے ریاست میں نئی سیاسی صف بندی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 13, 2025, 1:06 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
مہاراشٹر کی سیاسی تاریخ میں رشتے کے دو بھائی اُدھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے نے ۲۰؍ سال بعد پہلی بار اتحاد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ دونوں بھائیوں کے قریب آنے سے ریاست میں نئی سیاسی صف بندی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
برسوں سے’بھائی چارہ‘ کا موضوع مراٹھی کہانیوں، ڈراموں، فلموں کے ساتھ ساتھ ٹی وی سیریلوں اور اب ویب سیریز کی زینت بن رہا ہے۔ دراصل خاندان ’انا‘ کو قربان کرکے یکجا ہوتے ہیں۔ سیاست میں آپسی تعلقات انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ رشتوں میں دراڑ پڑ جائے تو دوبارہ ان کا ساتھ آنا مشکل ہوتا ہے، لیکن مہاراشٹر کی سیاسی تاریخ میں رشتے کے دو بھائی اُدھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے نے ۲۰؍ سال بعد پہلی بار اتحاد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ دونوں بھائیوں کے قریب آنے سے ریاست میں نئی سیاسی صف بندی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ غیر اُردو اخبارات نے ادھواور راج ٹھاکرے کے ملاپ پر کیا کچھ لکھا ہے۔
دونوں پارٹیوں کا ایک ساتھ آنا سیاسی مجبوری ہے
مہاراشٹر ٹائمز( مراٹھی، ۷؍جولائی)
’’پچھلی دو دہائیوں سے دونوں بھائیوں کے درمیان چلی آرہی لڑائی بالآخر ختم ہوگئی۔ شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے اور مہاراشٹر نو نرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے ممبئی میں مشترکہ ریلی کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ بی جے پی کے لیڈران نے ٹھاکرے برادران کے `’م‘ کو مراٹھی کی محبت نہیں بلکہ مہانگر پالیکا الیکشن سے تعبیر کیا ہے۔ کیا دونوں بھائی ایک ساتھ الیکشن لڑیں گے؟دونوں کے کارکنان اور رائے دہندگان اس کا کیسا جواب دیں گے؟ کیا مہا وکاس اگھاڑی میں کوئی رد وبدل ہوگا؟ ایسے کئی سوالوں کے جواب ہنوز ملنا باقی ہیں۔ حالانکہ ہندی کی بالا دستی پر عوامی غصہ اور حکومت کی پسپائی اس ریلی کا پس منظر تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ٹھاکرے بھائی پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوئے، یہ سب کے تجسس کا مرکز تھا۔ دونوں بھائیوں نے مراٹھی کے نام پر ایک ساتھ آکر اپنے حامیوں میں امید کی ایک کرن بھی جگائی ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے بار بار کہا کہ یہ اتحاد دور رس ہوگا اور وزیراعظم مودی، وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس اور نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے اہداف کو بھی واضح کیا۔ حالانکہ دونوں ٹھاکرے کہہ رہے ہیں کہ اس ریلی کا کوئی سیاسی مفہوم نہ نکالیں مگر رائے دہندگان سب سمجھتے ہیں۔ ریاست کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کا ایک ساتھ آنا سیاسی مجبوری بن گیاتھا۔ ماہرین نے سوچا ہوگاکہ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں مراٹھی رائے دہندگان اور مسلم رائے دہندگان کی بھرپور حمایت کا ممبئی میونسپل کارپوریشن الیکشن میں بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ راج ٹھاکرے کا تقریری انداز اور ادھو ٹھاکرے کی تنظیمی مہارت ایک دوسرے کی تکمیل کرسکتی ہے۔ دونوں کو اس ممکنہ اتحاد سے کچھ فائدے ہیں اور ساتھ ہی اس راہ میں کچھ رکاوٹیں بھی ہیں۔ ‘‘
کیا شیوسینا’ انڈیا‘ اتحاد میں رہے گی یا باہر آجائے گی؟
نوبھارت(ہندی، ۷؍جولائی)
’’مہاراشٹر میں جلد ہی ممبئی، تھانے اور ناسک سمیت کئی میونسپل کارپوریشنوں اور دیگر شہروں کے بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات میں راج ٹھاکرے کی ایم این ایس اور ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کی متحدہ سیاسی طاقت مہاوکاس اگھاڑی اور مہایوتی دونوں کیلئے چیلنج بن سکتی ہے۔ دونوں ٹھاکرے برادران نے متحدہ شیوسینا کی بات کہی ہے۔ ایسے میں مہاراشٹر کے عوام ایک بار پھر فیصلہ کریں گے کہ کون اصل شیوسینا ہے؟ اور کون جعلی؟کیا ادھو سینا مہاوکاس اگھاڑی کے ساتھ رہے گی؟یا الگ ہوجائےگی؟کیا شیوسینا(ادھو)، کانگریس اور این سی پی کو چھوڑ دے گی؟اسی طرح کیا شیوسینا’ انڈیا‘ اتحاد میں رہے گی یا باہر آجائے گی؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ اس وقت دونوں پارٹیوں کے کارکنان ادھو اور راج کے ایک ہونے سے بےحد خوش ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب سابق وزیر اعلیٰ منوہر جوشی نےادھو ٹھاکرے کو مشورہ دیا تھا کہ وہ راج ٹھاکرے کے ساتھ تال میل کرتے ہوئے شیوسینا کو متحد رکھیں۔ تب ادھو نے ان کی سخت الفاظ میں سرزنش کی تھی لیکن اب حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ ٹھاکرے برادران کے ساتھ آنے سے شیوسینا(شندے) پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ شندے نے’جے گجرات‘ کا نعرہ لگا کر امیت شاہ کو خوش کیا۔ ویسے بھی وہ بی جے پی کی مہربانی ہی سے نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہیں۔ ٹھاکرے بھائیوں کے درمیان اس طرح کی ہم آہنگی ممبئی میونسپل کارپوریشن الیکشن میں جیت حاصل ہونے پر مزید مضبوط ہو جائے گی لیکن اگر نتائج برعکس ہوئے تو کیا یہ رشتہ ایسے ہی برقرار رہے گا یا نہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ ‘‘
راج اور ادھو ٹھاکرے سے مراٹھی عوام کو توقعات
نوشکتی( مراٹھی، ۷؍جولائی)
’’متحدہ مہاراشٹر کی تحریک کے بعد سے جب بھی کسی نے مراٹھی باشندوں کی شناخت چھیننے کی کوشش کی ہے۔ مراٹھی باشندوں نے اس کا سخت جواب دیا ہے۔ اگرچہ پہلی سے چوتھی کلاس تک ہندی کو لازمی قرار دینے والے ۲؍ جی آر واپس لے لئے گئے لیکن مہایوتی سرکار کے اس متنازع فیصلہ کرنے کی جرأت کے خلاف مراٹھی مانس میں زبردست برہمی اور ناراضگی تھی۔ اس کا ثبوت ورلی میں ادھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کی جیت کے جشن کے دوران ہونے والے ردعمل سے صاف نظر آیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں جماعتوں کے کارکنان میں یہ احساس بھی واضح تھا کہ دونوں بھائیوں کو ایک ہوجانا چاہئے۔ اس سے قبل بھی کچھ لوگوں نے دونوں بھائیوں کو یکجا کرنے کی بہت کوششیں کیں تاہم ہر بار ناکامی ہی ہاتھ آئی۔ ٹھاکرے برادران کے اکٹھا ہونے کا امکان تقریباً معدوم ہوچکا تھا، لیکن دو دہائیوں بعد ہی سہی ٹھاکرے برادران ایک ساتھ آگئے۔ ہر کوئی سوال پوچھ رہا ہے کہ ہندی کو لازمی کرنے کا فیصلہ اب ریاست کی سیاست کو ایک نئی سطح پر لے جائے گا۔ ہندی کو لازمی قرار دے کر شمالی ہند کے باشندوں کے دل اور ووٹ حاصل کرنے کی مہا یوتی کی منصوبہ بندی پوری طرح سے ناکام ہوچکی ہے۔ یہاں ایک اور مسئلہ ہے کہ سرکار نے ہندی کو لازمی قراردینے کے فیصلے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اس کیلئے ایک کمیٹی بنا کر مراٹھی عوام میں ایک نیا کنفیوژن پیدا کردیا ہے۔ اگر مہایوتی سرکار ہندی کو لازمی کرنے کے اپنے فیصلے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے تو یہ اس کیلئے مزید پریشانی کا باعث بنے گا۔ ریاستی حکومت جب تک ہندی کو لازمی کرنے کے فیصلے کو مستقل طور پر ختم کرنے کا اعلان نہیں کرتی تب تک یہ موضوع زندہ رہے گا۔ متبادل کے طور پر راج ٹھاکرے اور ادھو ٹھاکرے سے مراٹھی عوام کی توقعات وابستہ رہےگی۔ ‘‘