Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹھاکرے برادران کا ممکنہ اتحاد اور مہاراشٹرکا سیاسی منظرنامہ

Updated: May 04, 2025, 2:13 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اس اتحاد کیلئے سیاسی حکمت عملی کی تشکیل ایک دشوار گزار اور صبر آزما مرحلہ ہو سکتا ہے، اس مرحلے کو مستحکم اور توانا سیاسی فہم و شعور کے بغیر سر نہیں کیا جاسکتا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اس سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ شیو سینا کے بانی آنجہانی بال ٹھاکرے کی سیاسی وراثت کو سنبھالنے میں اُدھو اور راج ٹھاکرے دونوں ہی ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کے کئی اسباب ہیں۔ بال ٹھاکرے نے اپنی زندگی میں اُدھو کو سیاسی جانشین بنا کر نہ صرف راج ٹھاکرے کی سیاسی توقعات پر پانی پھیر دیا بلکہ پارٹی کے ان لیڈران کو بھی بدظن کیا جو اُدھو کی سیاسی فہم پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ ایکناتھ شندے کے ذریعہ شیو سینا میں دراڑ پیدا کر کے اسی نام اور انتخابی نشان کے ساتھ ایک نئی پارٹی کی تشکیل سے قبل ادھو کی سیاسی بصیرت پر بھروسہ نہ کرنے والے لیڈران نے بال ٹھاکرے کے احترام میں کبھی اپنے اختلاف کا اظہار کھل کر نہیں کیا تھا۔ لیکن اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں اور بال ٹھاکرے کے چشم و ابرو کے اشارے پر ہمہ وقت آمادۂ کار رہنے والے لیڈران کی بڑی تعداد اس شیو سینا میں شامل ہو کر اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے جس کا وجود بی جے پی کی سیاسی تکڑم کا نتیجہ ہے۔ 
بال ٹھاکرے کی زندگی میں شیو سینا کا سیاسی رتبہ اس کی حلیف پارٹی بی جے پی سے بہت بلند تھا لیکن بال ٹھاکرے کی موت کے بعد بی جے پی کی گجرات لابی اس اتحاد کو برعکس صورت میں ڈھالنے کیلئے جی جان سے جٹ گئی۔ بھگوا پارٹی کی یہ کوششیں ادھو کیلئے ناگوار تھیں اور اس ناگواری کے نتیجے میں مہاراشٹر کی سیاست میں ایک کانگریس، این سی پی اور شیو سینا اتحاد کی شکل میں ایک نیا زاویہ پیدا ہو ا جو بہت پائیدار نہیں ثابت ہوا۔ اس نے ریاست میں ایسی اتھل پتھل مچائی کہ شیوسینا کے علاوہ این سی پی بھی دو حصوں میں تقسیم گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بال ٹھاکرے کی سربراہی والی شیو سینا اورکبھی سیاسی دھرندھرکہے جانے والے شرد پوار کی این سی پی اس ریاست میں وہی سیاسی رتبہ حاصل کرنے کیلئے ہاتھ پیر مار رہی ہے جو ماضی میں ان پارٹیوں کی شناخت کا اہم حوالہ ہوا کرتا تھا۔ 
بی جے پی نے ایکناتھ شندے اور اجیت پوار کو اپنے خیمے میں شامل کر کے نہ صرف ریاست کا اقتدا ر حاصل کرلیا بلکہ ادھو اور شرد پوار کو اپنے سیاسی موقف پر غور و فکر کرنے اور نئی سیاسی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس معاملے میں ادھو اب بھی ایسی سیاسی کشمکش میں مبتلا ہیں جس میں کبھی سیکولرازم کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے اورکبھی ہندوتوا والی وہ سیاست انھیں اپنی جانب کھینچنے لگتی ہے جس پرا ن کے والد کو بڑا فخر تھا اور بی جے پی کو شیو سینا پر غالب نہ آنے دینے کی غرض سے جس سیاست سے انحراف نے ایکناتھ شندے کو ریاست کے وزیر اعلیٰ کے عہدے تک پہنچا دیا۔ دوسری طرف راج ٹھاکرے ہیں جنھوں نے بڑے کروفر کے ساتھ ایم این ایس بنائی لیکن یہ پارٹی اب تک مہاراشٹر کی سیاست میں ایسا نمایاں مقام نہیں حاصل کر سکی جو صوبائی سطح پر اس کے سیاسی مرتبہ کو استحکام عطا کر سکے۔ راج ٹھاکرے مہاراشٹر کے سیاسی منظرنامے پر نمایاں حیثیت حاصل کرنے کیلئے اب بھی تگ و دو کر رہے ہیں لیکن ان کی تمام جد وجہد ان کے جارحانہ انداز اور غیر متعینہ سیاسی موقف کے سبب اکثر ناکامی سے دوچار رہی ہے۔ وہ ادھو سے سیاسی انتقام لینے کی غرض سے کبھی بھگوا گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں اور کبھی علاقائی تعصب پر مبنی سیاست کی پیروی میں سیاسی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے ٹھاکرے براداران کے مابین سیاسی اتحاد کی قیاس آرائیوں نے مہاراشٹر کی سیاست میں ایک نیا زاویہ پیدا ہونے کا امکان روشن کر دیا ہے۔ اس ضمن میں اگرچہ ٹھاکرے برادران کی جانب سے باقاعدہ کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے تاہم دونوں کی ملاقات نے ہلچل پیدا کر دی ہے۔ 
اگر ٹھاکرے براداران کی ملاقات ایک سیاسی اتحاد کی شکل اختیار کرتی ہے تو دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ یہ اتحاد ایسی کیا حکمت عملی تشکیل دے گا جو مہاراشٹر میں بی جے پی کے علاوہ کانگریس کو بھی اس اتحاد سے آگے نہ بڑھنے دے؟ اس سوال کے جواب میں جوبات سب سے اہم ہوگی وہ یہ کہ اس ممکنہ اتحاد کی کامیابی ٹھاکرے براداران سے اس پختہ اور ہمہ گیر سیاسی وژن کا مطالبہ کرے گی جس کا مظاہرہ معیاری انداز میں کرنے سے دونوں سیاست داں اب تک قاصر رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں مقیم گجراتی کمیونٹی صوبائی سیاست کو متاثر کرنے والا ایک اہم فیکٹر ہے۔ اس کمیونٹی میں خاصی تعداد ان کی ہے جو ہر حال میں بی جے پی کے ساتھ سیاسی وفاداری کے قائل ہیں۔ یہ کمیونٹی مہاراشٹر کے معاشی نظام میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے لہٰذا کوئی بھی سیاسی پارٹی اس کمیونٹی کو دانستہ نظرانداز کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ اس کمیونٹی کی اکثریت فرقہ وارانہ سیاست کو معیوب نہیں سمجھتی اور مودی و شاہ ان کی نظر میں سیاسی آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ادھر گزشتہ کچھ برسوں سے فرقہ ورانہ سیاست کے جو مضراور خطرناک اثرات سماجی اور معاشی سطح پر ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں ان کے سبب کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کی طرف عوام کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں ٹھاکرے برادران کے ممکنہ اتحاد کیلئے صوبائی سیاست میں اہم مقام حاصل کرنا بہت آسان نہیں ہوگا۔ مہاراشٹر کی سیاسی بساط پر اس اتحاد کو اہمیت اسی صورت میں حاصل ہوگی جبکہ ٹھاکرے برادران ایسی حکمت عملی تیار کریں جو بہ یک وقت ان دو محاذوں پر انھیں نہ صرف مقابلہ کرنے کا حوصلہ عطا کرے بلکہ اس مقابلے کو نتیجہ خیز بھی بنا سکے۔ 
ٹھاکرے برادران کے ممکنہ اتحاد کیلئے ایسی سیاسی حکمت عملی کی تشکیل ایک دشوار گزار اور صبر آزما مرحلہ ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے کو مستحکم اور توانا سیاسی فہم و شعور کے بغیر سر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کیلئے کئی سطحوں پر محنت کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ٹھاکرے برادران کو زمینی سطح پر عوام کے درمیان یہ پیغام عام کرنا ہوگا کہ ریاست کی خوشحالی اور ترقی کا راستہ امن و آشتی اور سماجی اتحاد سے ہو کر گزرتا ہے۔ فی الوقت اس راستے پر فرقہ ورانہ سیاست نے کئی پیچ و خم پیدا کر دئیے ہیں اور اسے دوبارہ ہموار اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جبکہ ہر سطح پر تعصب زدہ افکار و افعال کو مسترد کردیا جائے۔ مہاراشٹر خصوصاً ممبئی اور اس کے اطراف کے اضلاع کی سماجی زندگی تکثیریت کے دم پر آگے بڑھتی ہے ایسی صورت میں سماج میں کسی بھی سطح پر سخت گیر سیاسی رویہ زیادہ عرصہ تک مقبول نہیں ہو سکتا۔ یہی سبب ہے کہ علاقائی اور لسانی تعصب کی جارحانہ حمایت کے باوجود ایم این ایس اب تک وہ سیاسی زمین نہیں حاصل کر سکی جو صوبائی سیاست میں اس پارٹی کی قد آوری کے اسباب مہیا کر سکے۔ ایسا ہی کچھ حال ادھو ٹھاکرے کا رہا ہے۔ انھوں نے بی جے پی کو زیر رکھنے کی غرض سے سیکولر اتحاد میں شمولیت کو منظور تو کر لیا تھا لیکن شیو سینا کی اصل شناخت کا حوالہ وہی تعصب زدہ جارحانہ سیاست رہی ہے جسے مہاراشٹر میں ان کے والد نے مقبول بنایا تھا اور جس کی پیروی کرکے راج سیاسی بلندی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرز سیاست کا فائدہ ٹھاکرے برادران سے زیادہ بی جے پی اور اس کے طفیل میں شندے اور اجیت پوار گروپ نے اٹھایا۔ اس ریاست کا اقتدار اب بھی انہی سیاسی عناصر کے پاس ہے لیکن زندگی کے بنیادی مسائل کے تئیں حکمراں طبقہ کا غیر سنجیدہ رویہ اور ہر معاملے کومذہبی عینک سے دیکھنے کی روش کے سبب فرقہ ورانہ سیاست کا طلسم رفتہ رفتہ ٹوٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ گجراتی لابی پر اقتدار کی کرم فرمائی نے مراٹھی عوام کے دلوں میں ایسی خلش پیدا کر دی ہے جو کوئی معتبر اور مستحکم سیاسی متبادل تلاش کر رہی ہے۔ 
مہاراشٹر کی سیاست اس وقت جن مراحل سے گزر رہی ہے ان سے ٹھاکرے برادران کا ممکنہ اتحاد فائڈہ اٹھا سکتا ہے بشرطیکہ ایسی سیاسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں عوامی مسائل کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور اس حیثیت پر کسی بھی قسم کا تعصب غالب نہ آسکے۔ اس حکمت عملی کی تشکیل کیلئے وہ سیاسی دانائی درکار ہے جومذہب، قوم، رنگ ونسل اور علاقائیت یا کسی اور بھی حوالے سے عوام کا جذباتی استحصال کرنے کے بجائے انھیں درپیش بنیادی مسائل کے تدارک کو ترجیح دے۔ ٹھاکرے براداران کیلئے اس مرحلے کو سر کرنا انتہائی دشوار ہوگا کیوں کہ دونوں بھائی وراثت میں ملی اسی سیاسی روش پر اب تک کسی نہ کسی طور پر گامزن رہے ہیں جو دائیں محاذ کے سیاسی افکار کی حمایت کرتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK