ہم جائزہ لے رہے ہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں سر سیّد احمد اور اُن کے رفقاء کی قربانیوں کی۔ اپنے نظریہ کو وضع کرنے کے بعد تمام تر مخالفت کے باوجود سرسید مدرستہ العلوم کو ایم اے اور کالج میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔
EPAPER
Updated: February 11, 2024, 3:08 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
ہم جائزہ لے رہے ہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں سر سیّد احمد اور اُن کے رفقاء کی قربانیوں کی۔ اپنے نظریہ کو وضع کرنے کے بعد تمام تر مخالفت کے باوجود سرسید مدرستہ العلوم کو ایم اے اور کالج میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔
ہم جائزہ لے رہے ہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں سر سیّد احمد اور اُن کے رفقاء کی قربانیوں کی۔ اپنے نظریہ کو وضع کرنے کے بعد تمام تر مخالفت کے باوجود سرسید مدرستہ العلوم کو ایم اے اور کالج میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ اس بڑی کامیابی کے باو جو سرسیّد نازاں تھے نہ مطمئن۔ انہیں اس بات کا شدّت سے احساس تھا کہ ہندوستان کے اُس وقت کے ۶؍ کروڑ مسلمانوں کی تعلیم کیلئے صرف ایک مرکزی ادارہ نا کافی ہے اسلئے ملک کے دیگر مسلم علاقوں میں بھی تعلیم کی شمع روشن کرنے کی غرض سے انہوں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی جو بعد میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کہلائی۔ اس کے ذریعے سرسید ملک کے گوشے گوشے میں مسلم بستیوں میں تعلیمی اجلاس منعقد کر کے ان علاقوں کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لے کر وہاں پر بھی تعلیمی ادارے قائم کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔ افسوس کہ زندگی نے وفا نہیں کی اور ان کی زندگی میں ان کا خواب پورا نہیں ہوا، نہ ہی ایم اے او کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل ہوتے دیکھنا انہیں نصیب آیا۔ بالآخر۲۷؍ مارچ ۱۸۹۸ء کوملّت کا یہ عظیم سپوت اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور ملّت اس شخص سے محروم ہوگئی جو حقیقی معنوں میں اس قوم کے قائد اعظم تھے جن میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ اگر وہ صرف تعلیم وتحقیق میں اپنی زندگی گزارتے تو مشرق و مغرب کے بلند پایہ ماہرین تعلیم میں شمار ہوتے۔ اگر اپنی صلاحیتیں شاعری میں صرف کرتے تو شاعر مشرق ثانی کہلاتے اور اپنی فہم وفراست کو قرآن وحدیث میں لگاتے تو دنیا کے مایہ ناز مفسرین و محدثین میں گنے جاتے۔
سرسیّد کی رحلت کے بعد لگتا تھا کہ اب یونیورسٹی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا مگر اس عظیم ادارے سے والہانہ محبت رکھنے والے ابنائے قدیم یعنی اولڈ بوائز نے اس خواب کو پورا کرنے کی ٹھان لی اور ان کے ارادوں کو استحکام ملانواب محسن ملک کی قیادت سے جنہوں نے سرسید میموریل فنڈ قائم کیا اور یونیورسٹی کے قیام کیلئے چندہ جمع کرنے کی مہم تیز کر دی۔ ان کی مہم کو تقویت بخشنے کیلئے سر آغا خان، سر محمد علی خان، نواب وقار ملک، مولانا شوکت علی اور مولانا شبلی نعمانی، سبھی ایک ساتھ ہو گئے اور ملک بھر میں فنڈ جمع کرنے کیلئے پھیل گئے۔ آج اس جامعہ کے اقلیتی کردار کو عدالتِ عظمیٰمیں چیلنج کرنے والے عناصر نوٹ کرلیں کہ مسلم قوم کے اکابرین نے اس جامعہ کیلئے کیسی کیسی قربانیاں دی ہیں۔
اب ان اکا برِ ملّت کو ایک ’ جسٹس‘ سے واسطہ پڑا جس کا نام تھا ’سر ہار کوٹ‘ جو انگریزی حکومت میں وزیر تھا اور اس نے یونیورسٹی میں لفظ مسلم پر اعتراض کیا۔ اس انگریز نے اس کیلئے اپنی احمقانہ دلیل یہ دی کہ اس سے اس یونیورسٹی کی ڈگری کے وقار میں کمی آئے گی۔ حقیقت یہ تھی کہ انگریزی حکومت جمال الدین افغانی کی تحریک اخوت اسلامی سے پریشان تھی اور انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمان اس یو نیورسٹی کے بینر تلے متحد نہ ہو جائیں۔ تنگ نظر سر ہار کورٹ نے ایک دھمکی آمیز خط اُترپردیش کے گورنر کوبھی لکھا کہ وہ اس مجوزہ یونیورسٹی کے ٹرسٹیان کو طلب کر کے تاکید کریں کہ اگر انہوں نے اس تحریک میں گورنمنٹ کے شرائط منظور نہ کیں تو گرانٹ بند کردی جائے گی۔ اس پر مسلم رہنما کافی پریشان ہوئے اور عوام میں بھی ان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ انگریز اس انتشار کا خوب لطف اٹھا رہے تھے۔
انہی دِنوں ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ علی برادران کو انگریزوں نے قید کر دیا جس سے یونیورسٹی کے ان آئینی کاموں کی تکمیل کی رفتار قدرے سست ہوگئی البتہ ڈاکٹر انصاری سے لے کر حسرت موہانی تک اور شیخ عبداللہ سے لے کر حبیب الرحمان تک سبھی بے چین و مضطرب تھے اور ان سبھی کی کوششوں کے باعث ۲۷؍ اگست ۱۹۲۰ء کو مسلم یو نیورسٹی بل پاس ہوا اور دسمبر ۱۹۲۰ء میں علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی وجود میں آئی اور بالآخر سر سیّد کاعظیم خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔
اُس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ مسلم یونیورسٹی کیلئے اب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی ہوگا کہ ۷۰۰؍ سال تک اس ملک پر حکومت کرنے والی اس قوم کے چند عاقبت ناشناس افراد کو اچانک یاد آیا کہ اس ملک میں دوقومیں بستی ہیں، وہ یکجا نہیں رہ سکتیں اور برِّصغیر نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی تاریخ کی سب سے بد بخت تھیوری یعنی دو قومی نظریہ سامنے آیا اور اس سے سب سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فضا سیاست کی گندگی سے مکدر ہو گئی۔ بدبختی یہ تھی کہ اس دو قومی نظریے کے بانی مسلمان تھے ہی نہیں، وہ ساورکر کے دماغ کی اُپج تھی۔ اس کے باوجود اس سازش کے شکار ہوگئے۔ اس آزمائشی دَور میں مولانا آزاد نے یونیورسٹی کے لائق سپوت اور ماہر تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین کو عہدہ وائس چانسلری کا منصب قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ ذاکر صاحب نے اپنی خداداد صلاحیت، حسن انتظام اور دُرداندیشی سے اس یونیورسٹی کی کایا پلٹ دی۔ ان کے دَور میں تصنیف و تالیف، درس و تدریس اور تحقیق و فکر کے نئے دروازے کھلے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کے بعد جنہوں نے یونیورسٹی کی کمان سنبھالی، ان میں سے کچھ واقعی اس کے مستحق تھے کیونکہ وہ باکمال و باصلاحیت تھے جیسے کرنل زیدی جنہوں نے خصوصی طور پر یونیورسٹی کے تعمیراتی کاموں میں دلچسپی لی۔ ان کے علاوہ سیّد حامد صاحب جو نہ صرف حقیقی معنوں میں ایک دانشور تھے بلکہ مسلمانوں کیلئے ایک دردمند دل اور سوچتا ہوا ذہن رکھنے والے مفکر بھی تھے۔ اُن کے دَور میں کئی تعمیراتی منصوبے پائے تکمیل تک پہنچے اور سرسیّد کی تعلیمی تحریک کا آرگن تہذیب الاخلاق دوبارہ جاری ہوا۔
یہ سب کچھ اچھا ہی اچھا ہوا تو پھر معاملہ کہاں بگڑا ؟ اس درسگاہ کے ساتھ کہاں اور کیونکر سیاست ہوئی ؟ سن لیجئے سنگھ پریوار کی آنکھوں میں یہ درسگاہ ہمیشہ ہی سے کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے البتہ اس گھر کو آگ لگی گھر کے چراغوں سے۔ پہلے محمد علی کریم چھاگلہ اور پھر پروفیسر نورُالحسن وزیر تعلیم بنے اور اُس دَور میں اس یونیورسٹی پر شب خون ہوا۔ اُس کے بعد مرکز سے لے کر ریاستوں تک کئی مسلمان وزیر بھی بنے مگر ان میں سے بیشتر اپنی اپنی پارٹیوں کے ہائی کمان کے غلام تھے۔ فکر مند اور کمیٹڈ علیگ حضرات کے علاوہ ایسے بہت کم لوگ ہوں گے جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ، جد و جہد اور واقعات کا کوئی مطالعہ کیا ہوگا اور اب اس ملک کی عدلیہ اور عاملہ پر مکمل زعفرانی یلغار کے بعد اس یونیورسٹی کے مستقبل پر بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اس ضمن میں دیکھنا یہ رہ گیا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور اس کے بعد ہم اس کا ممکنہ لائحہ عمل بھی پیش کریں گے البتہ آج ہماری چند کوتاہیوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے:
(الف)ہمیں اس کی قدر نہیں کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعدبرِّ صغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے روشن پہلو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ہے۔ (ب) اُردو کی کئی چوٹی کے شعراء، ادباء و نقّاد اسی جامعہ کی دین ہیں مگر آگے چل کر اُردو کی تصنیف و تالیف میں اس یونیورسٹی کا کوئی نمایاں حصہ نہیں۔ (ج) رشید احمد صدیقی نے کہا تھا :’’اُردو کا نام ہی علی گڑھ ہے‘‘آج یہاں کے طلبہ کی اکثریت اُردو رسم الخط سے بھی نابلد ہے۔ (د)ڈیڑھ صدی میں علمی میدان میں اس جامعہ میں کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہیں پایا۔ (ل) یونیورسٹی کے لگ بھگ سارے اساتذہ نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں مگر وہ ٹیچر سے لیکچرر سے ریڈر سے پروفیسرشپ کی ترقی پانے کیلئے۔ (م) ہم تو یہ خواب سجائے ہیں کہ سر سید کی اس یونیورسٹی سے فزکس، کیمسٹری اور اکنامکس کا نوبل انعام پانے والے محقق پیدا ہوں۔ (ن)علیگ برادری کو سمجھنا چا ہئے کہ علی گڑھ تہذیب القاب و آداب، شیروانی، ظاہری نمائش، لفّاضی اور مبالغہ آرائی سے کہیں زیادہ ہے۔ (و) سرسیّد ڈے پر سرسیّد کے مزار پر پھولوں کی بارش اور گلاب کی پنکھڑیاں نچھاورہوتی ہیں۔ سارے مقررین ’’ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس‘ کا وِرد تو کرتے ہیں مگر اُس ضمن میں سنجیدگی اور عمل بہت کم نظر آتا ہے۔ کیا ہم اپنی ان کوتاہیوں کیلئے بھی سنگھ پریوار کو ذمہ دار ٹھہراسکتے ہیں۔