Inquilab Logo

خاموشی

Updated: January 10, 2021, 6:40 AM IST | Prof Syed Iqbal

ہمیں تاکیداً کہا گیا ہے کہ فضول اور لایعنی گفتگو سے پرہیز کریں۔ یہاں تک مذکور ہے کہ جس نے خاموشی اپنائی، وہ نجات پاگیا۔ صوفیائے کرام تو کم کھانے اورکم سونے کے ساتھ کم بولنے کی بھی تلقین کرتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی ساری صلاحیتیں صرف بولنے پر خرچ کرنے لگے ہیں۔ کبھی رک کریہ بھی تو سوچیں کہ سننے کیلئے خاموش رہنا ضروری ہے اور سب کو سننے والی ہستی تو ہماری خاموشی بھی سن لیتی ہے۔ پھر زبان پر اتنا زور کیوں؟ شاید اسلئے کہ آج ہماری تربیت کے دوران زبان دانی ( بلکہ چرب زبانی ) پر کچھ زیادہ ہی زور دیاجانے لگا ہے

Silence
خاموشی

جس دن ابّو ہمارا ہاتھ پکڑ کر محلے کی مسجد میں ناظرہ قرآن کیلئے لے گئے، اس دن پہلی بار احساس ہوا کہ شورکیا ہوتا ہے؟ مسجد کے صحن میں بیسیوں بچے اتنی زورزور سے قرآن پڑھ رہے تھے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ہم نے ابو کی جانب کچھ ایسی  نظروں سے دیکھا کہ وہ سمجھ جائیں کہ اس شوروغل میں ہم نہیں بیٹھ سکتے.... مگر ابو کی نظروں نے ہمیں یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ یہاں ایسے ہی پڑھایاجاتا ہے اور چند دنوں بعد آپ بھی اتنا ہی شور کرنے لگیں گے۔ ہم نے بچوںکو دیکھا جو ساری دنیا سے بے خبر ہل ہل کر  پڑھ رہے تھے اور امام صاحب اس  شور سے یکسر بے نیاز تھے۔ ابو صحیح کہہ رہے تھے۔ چند دنوں بعد ہم بھی اس شور میں شامل ہوگئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ رفتہ رفتہ ہم بھی ہرطرح کے شور کے عادی ہونے لگے تھے۔ پڑوس کے گھروں کا شور، ٹریفک کا شور اور خود اپنے گھر میں ہر طرح کا شور، سب نے مل کر ہمیں خاموشی سے بہت دور کردیاتھا۔ اب خاموشی صرف ہمارے آبائی گاؤں میں تھی جہاں مشینیں اب تک نہیں پہنچی تھی... اور اب بھی  پرندوں کی چہچہاہٹ ، پتوں کی سرسراہٹ اور ندی کے بہتے پانیوں کے گیت سنائی دیتے تھے۔شام ہوتے ہی گاؤں کی پراسرا.ر خاموشی ہمیں کسی دوسری دنیا میں لے جاتی اورہم گھر کے ہر فرد کی سانس اور قدموں کی چاپ سن سکتے تھے۔  پھر ان گاؤں اور قصبوں کو شہروں نے نگل لیا اور جس خاموشی نے ہمیں برسوں مسحور کررکھا تھا، وہ اچانک غائب ہوگئی۔ قدرت کے حسین نظارے، پہاڑوں کی ہیبت، سمندروں کی طغیانی ، آبشاروں کا شور، صحراؤں کی تپتی ہوئی دھوپ اور مسلسل بارشوں کے منظر.... سب کچھ ہماری زندگیوں سے کہیں دور نکل گئے۔
  نئی نسل جو بڑے شہروں میں پلی بڑھی تھی، اس کیلئے قدرتی حسن کا تصور بھی مشکل تھا۔ کانکریٹ کے جنگل میں پیدا ہونے والی یہ نسل مشینوں کے شور میں جوان ہوئی تھی۔ اسے پرندوں کی چہچہاہٹ، درختوں کی گھنی چھاؤں اور موسموں کی تبدیلی کا علم ہی نہ تھا۔ بھلا ہو ان تحریکوں کا جو انسانوں کو قدرت سے قریب کرنے کیلئے قائم ہوئی تھیں اور جنہوںنے قدرتی وسائل کو انسانی حرص وہوس سے محفوظ کرنے کا تہیہ کرلیا تھا کہ انہوں نے ہی نئی نسل کو اس حسین دنیا سے آشنا کرایا۔ ورنہ ان کے لئے تو دنیا وہی تھی ، جو انہیں آس پاس نظرآتی تھی۔
  اس کا تو انہیں احساس ہی نہیں ہوا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی حشرسامانیوں نے ہم سے خاموشی کی دولت چھین لی ہے۔ خاموشی کے رخصت ہوتے ہی وقت کی پابندیاں ہمارے ارد گرد لپٹ گئیں۔ گھڑی کی ٹک ٹک نے دل کی دھڑکنوں کو گھیر لیا تھا اور ہم اچانک وقت کے غلام ہونے لگے تھے ۔ گرجا گھر کی گھنٹیوں کو روز وشب کے اعلان پر مامور کردیا گیا تھا۔ کتابوں کو زور زور سے پڑھنے پر اصرار کیاجانے لگا تھا۔ اس کے پس پشت خیال یہی تھا کہ جو سن لیاجائے ، وہی یاد رہتا ہے ۔ شاید اسی لئے عربوں نے لکھائی کو بھی اہمیت نہیں دی اور ہرچیز سن کر یادرکھنے لگے، یہاں تک کہ لفظوں اور ان کی آوازوں پر فخر کرنے والے دوسروں کو ’گونگا‘ پکارنے لگے ۔ ہرکوئی فن تقریر پر محنت کرنے لگا۔ صرف کتب خانے ہی بچے تھے جہاں الفاظ خاموش تھے اوران کے پڑھنے والے صفحات کی سرسراہٹ پر قانع تھے۔
 یہی خاموشی جیلوں میں بھی محفوظ تھی۔ جیلوں کو ایسے ویرانوں میں تعمیر کیاجاتا جہاں نہ آدم نظر آئے نہ آدم زاد۔ عمارتیں بھی ایسی بنائی جاتیں کہ آوازوں کا گزر ممکن نہ ہوسکے۔ جن قیدیوں کو کام پر لگایاجاتا، انہیں بھی سارا وقت خاموش رہنا پڑتا۔ کوئی قیدی بات کرتا نظرآتا تو اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیاجاتا۔ یہ قیدی اپنی کوٹھریوں میں آوازیں سننے کو ترس جاتے۔صرف دروازہ کھلنے بند ہونےاور زنجیروں کی آوازیں ہی سنائی دیتیں۔ برطانوی قانون میں عورتوں کوبھی خاموش رہنے کیلئے کہا گیا تھا۔ انہیں بولنا ہوتا تو قریب جاکر آہستہ سے بولتیں یا منہ پر ہاتھ رکھ لیا کرتیں۔ سترہویں صدی میں انہیں راستوں اور مجالس میں بولنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ ان قوانین کی مدد سے مردوں کی بالادستی تو قائم ہوگئی مگر عورتیں بھی غلاموں کی سی زندگی گزارنے لگیں۔ عجب نہیں جو یہ بھی اس زمانے کی باقیات میں سے ہو کہ ہندوستانی معاشرے میں آج بھی عورتوں کو زیادہ بولنے ، سوال کرنے اورجرح کرنے کی اجازت نہیں بلکہ مائیں سارا وقت اپنی بیٹیوں سے یہی کہتی ہیں کہ چپ رہنے کی عادت ڈالو تاکہ سسرال میں پریشانی نہ ہو۔
 اب خاموشی اپنے سارے جاہ وجلال سے کہیں نظر آتی ہے تو عبادت خانوں میں۔ جنہوںنے یورپ کے پرشکوہ گرجا گھروں کو دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ ان میں داخل ہوتے ہی خاموشی کس طرح یلغار کرتی ہے۔ بڑےسے ہال میں  مومی شمعوں کی جھلملاتی  روشنیاں،  عبادت گزاروں کیلئے لکڑی کی بنی نشستیں، ہال کے دوسرے سرے پر شاندار سینسر اوراس کے پیچھے یسوع مسیح کا قدآدم مجسمہ، دیواروں پر حضرت عیسیٰ کی زندگی کے واقعات پر مبنی موتیف اور رنگین شیشوں سے بنی  بڑی بڑی کھڑکیاں جو داخل ہوتے ہی ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔ اس پر عود ولوبان کی ہلکی ہلکی خوشبو جو ایسا منظر پیش کرتی ہے کہ زبان گنگ  رہ جاتی ہے۔ ان معبدوں میں عیسائی راہبوں نے نہ جانے کتنی صدیاں گزاردی ہوں گی۔کہتے ہیں چودھویں صدی تک یہ راہب مصرو شام کے ریگستانوں میں گھوما کرتے  تھے۔ اسلئے بعد کے ادوار میں گرجا گھر بھی انسانی آبادی سے دور بنائے گئے تاکہ وہاں شور داخل نہ ہوسکے۔ اوراہل کلیسا یکسوئی سے عبادت کرسکیں۔ چونکہ ان راہبوں کی زندگی میں خاموش اہم رول ادا کرتی ہے، اسلئے انہیں پہلے ہی دن سے بتادیا جاتا کہ  خداوند کی آواز صرف خاموشی ہی میں سنی جاسکتی ہے۔ چاہے کھیتوںمیں کام کرنا ہو یا کلیسا کے چھوٹے بڑے کام ہوں، انہیں ہر حال میں خاموش رہنا پڑتا یہاں تک کہ کھانے کی میز پر بھی وہ چپ رہتے۔ ان کے نزدیک روحانیت کے  مراتب میں اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب تک اہل کلیسا اپنی آلودہ زبانوں سے خود کو محفوظ  رکھیں ۔ آج وقت بدل چکا ہے۔ اب وہ زمانے نہیں رہے کہ اہل کلیسا دنیا سے کٹ کر صرف کلیسا کے ہورہیں۔ سماجی اور تہذیبی انقلاب نے ساری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے اور دنیا اتنی پرکشش ہوچلی ہے کہ اب نوجوان راہبانہ زندگی کی طرف آسانی سے مائل نہیں ہوتے۔ نتیجتاً بدلتے  ہوئے سماج میں عیسائیت کے کچھ مسالک نے اپنے خادمین کو شادی کی اجازت بھی دے دی ہے، تبلیغ کیلئے ٹیلی ویژن کا استعمال بھی کرنے لگے ہیں اور بین المذاہب مکالموں میں بھی شرکت کرنے لگے ہیں۔ اب خاموشی صرف انفرادی عبادت کیلئے مختص ہے۔
  لیکن  یہ صرف  عیسائیوں کیلئے ہی نہیں بلکہ خاموشی ہر مذہب کے ماننے والوں کیلئے اتنی ہی اہم ہے جتنی برسوں پہلے ہوا کرتی تھی۔ گوتم بدھ نے بھی ایک طویل عرصے تک خاموش رہ کر گیان حاصل کیا تھا۔ جین مت کے ماننے والے بھی  مون برت رکھتے ہیں اور ہندوؤں میں بھی مون برت کی روایت باقی ہے۔ دراصل خاموشی صرف ہونٹوں کو بند رکھنے کا نام نہیں، خواہشات اور سوچ کو ترک کردینے کا نام ہے، آلائش دنیا اور شوروغل سے دور ہوجانے کا نام ہے۔ چونکہ ہم بولنے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہم نے خاموشی کی اہمیت ہی بھلا دی ہے بلکہ آج  وہی شخص کامیاب ہے جو بولتا ہے اور خوب بولتا ہے، اسی لئے آج ہرکوئی سیلزمین بن چکا  ہے جو اپنے کو مارکیٹ کرنے کیلئے گاہکوں کے سامنے خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ اس ہنگامے میں لفظوں اور خاموشی کے باہمی تعلق پر غورہی نہیں کیاجاتا۔کبھی ہم نے سوچا کہ بات کرتے کرتے ہم جملوںکے درمیان خاموش کیوں ہوجاتے ہیں؟  لوگوں کی تعظیم   وتکریم کیلئے خاموش کیوں رہتے ہیں؟ کسی کا دل رکھنے کیلئے، اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کیلئے اور اختلاف رائے سے بچنے کیلئے خاموشی کوڈھال کیوں بناتے ہیں؟ کیا ہم اکثر مصلحتاً خاموش نہیں رہتے؟ بلکہ کوئی صاحب خاموش نظر آئیں تو لوگ انہیں نفسیاتی مریض سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ یقیناً احساس کمتری کا شکار ہوگا، اسے مجلسی آداب نہیں آتے ہوں گے یا اس کے پاس بولنے کو کچھ نہیں ہوگا۔
 کہیں  ایسا تو نہیں کہ ہم نے لفظوں کی حرمت کا احساس بھلا دیا ہو۔ شائستہ گفتگو کے آداب بھلا دیئے ہوں اوراپنی جہالت اور کم علمی کو چھپانے کیلئے لایعنی باتوں کا سہارا  لے لیا ہو جبکہ ہمیں تاکیداً کہا گیا ہے کہ فضول اور لایعنی گفتگو سے پرہیز کریں۔ یہاں تک مذکور ہے کہ جس نے خاموشی اپنائی، وہ نجات پاگیا۔ صوفیائے کرام تو کم کھانے  اورکم سونے کے ساتھ کم بولنے کی بھی تلقین کرتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی ساری صلاحیتیں صرف بولنے پر خرچ کرنے لگے ہیں۔ کبھی رک کریہ بھی تو سوچیں کہ سننے کیلئے  خاموش رہنا ضروری ہے اور سب کو سننے والی ہستی تو ہماری خاموشی بھی سن لیتی ہے۔ پھر زبان پر اتنا زور کیوں؟ شاید اسلئے کہ آج ہماری تربیت کے دوران زبان دانی ( بلکہ چرب زبانی ) پر کچھ زیادہ ہی زور دیاجانے لگا ہے۔ اسلئے کبھی کبھار لگتا ہے کہ خاموشی ایک لکژری بن چکی ہے۔ وقت کے ساتھ یہ اتنی کمیاب ہوتی جارہی ہے کہ اب نہ راتیں خاموش ہوتی ہیں، نہ دن میں خاموشی سنائی دیتی ہے۔ شاید کاروباری دنیا نے ہمیں اتنا مصروف کردیا ہے کہ ہم اپنے اندر جھانک کر خاموشی سے متعارف ہی نہیں ہو پاتے۔ کبھی موقع ملے تو خاموشی سے مل لیجئے گا۔ ہوسکتا ہے اس کی زبان آپ کو راس آجائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK