ملک میں اردو کے حالات کچھ یوں ہیں کہ بی اے اور ایم اے کے طلبہ کو پڑھانے والے اساتذہ پھول کو فول ، شعبہ کو سوبا اور نظم کو نجم کہتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد۔ تصویر:آئی این این
آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم ولادت ۱۱؍نومبر کو قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نے تعلیمی سطح پر ملک کو عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے ،دیہی علاقوں میں تعلیم کو عام کرنے ، پسماندہ طبقات اور لڑکیوں کیلئے تعلیم کی فراہمی کو آسان بنانے اور سائنسی علوم و تکنیکی تعلیم کو فروغ دینے والے مرکزی اداروں کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔مولانا آزاد کو عربی، فارسی ، اردو اور انگریزی زبانوں پر یکساں قدرت حاصل تھی ۔ انھیں فنون لطیفہ خصوصاً شعرو ادب اور موسیقی سے خاصی دلچسپی تھی ۔عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں ان کی نگارشات ان کے تبحر علمی کا پتہ دیتی ہیں ۔اردو شعرو ادب سے ان کی تخلیقی وابستگی اس زبان سے ان کی شیفتگی اور انس کو نمایاں کرتی ہے۔ قید و بند کے ایام میں لکھے گئے ان کے خطوط اردو انشا پردازی کا بہترین نمونہ ہیں۔ان خطوط کا مجموعہ ’غبار خاطر‘ کے عنوان سے متعدد مربتہ شائع ہو چکا ہے ۔ اعلیٰ تعلیمی سطح پر یہ مجموعہ یا اس کے منتخبہ خطوط اردو نصاب میں شامل رہے ہیں۔ مولانا آزاد اور اردو کے اس ربط باہمی کے تناظر میں اردواعلیٰ تعلیم سے وابستہ چند حقائق کا جائزہ غیر مناسب نہ ہوگا۔
ملک میں مہاراشٹر، تلنگانہ، کرناٹک، آندھرا پردیش جیسی چند ریاستوں کو چھوڑ کر بقیہ ریاستوں میں اردو کی ابتدائی تا ثانوی تعلیمی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ اعلیٰ تعلیمی سطح پر صورتحال اور بھی زیادہ خراب ہے۔ ملک گیر سطح پر جن یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اردو کے شعبے ہیں وہاں تدریس کا معیار مائل بہ پستی ہے۔ غنیمت یہ ہے کہ اس صورتحال نے ابھی عمومی صورت نہیں اختیار کی ہے لیکن اگر اب سے ربع صدی قبل کے حالات کا موجودہ صورتحال سے موازنہ کیا جائے تو بیشتر افسوس اور مایوسی ہی ہاتھ آئے گی ۔ارباب اقتدار کا اس زبان سے خدا واسطے کا بیر جگ ظاہر ہے اور اس پر شومی تقدیر یہ کہ زبان و ادب کی تدریس کا فریضہ انجام دینے والوں میںبیشتر کواس سے کوئی غرض نہیں کہ تعلیم و تدریس کے معیار کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔ ہوا کے رخ کو دیکھ کر اپنی سمت کا تعین کرنے والے ان پیشہ وروں نے اپنے مصلحت آمیز رویے سے اردو کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ ملک کی بیشتر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اعلیٰ عہدوں پرفائز یرقانی فکر کے حامل افراد اردو تدریس پر بھی اپنی مرضی تھوپنے کو اپنا منصبی حق سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اب بعض یونیورسٹیوںمیں اردوکے نصاب کی تشکیل کو ملک کی جغرافیائی سرحد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سیاسی اور مذہبی بنیاد پر زبان و ادب کے ساتھ امتیازی رویہ دراصل اس کی سماجی مقبولیت کو محدود کرنے اورعلمی و ادبی وقار کو کم تر ثابت کرنے کے مترادف ہے اور اس وقت اعلیٰ تعلیمی سطح پر اردو کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔
اعلیٰ تعلیمی سطح پر اردو کے ساتھ یرقانی اعلیٰ عہدیداروں کا دوغلہ رویہ کچھ اس طرز کا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اردو کے نصاب میں سرحد پار کے ادبا و شعرا کو شامل نہ کرنے کا باقاعدہ حکم جاری کرنے کے بجائے ایسا ماحول تیار کیا جاتا ہے کہ اردو شعبوں کی زینت بنے ہوئے مفکر و دانشور نما اساتذہ خود ہی ایسی پہل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔یہ صورتحال صرف نصاب کی تیاری تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ انتظامی اور دفتری امور سے وابستہ ملازمین کی تقرری میں بھی اردو کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔شعبہ ٔ اردو کے دفتر میںغیر اردو داں کلرک کی تقرری کو بھی یہ مفاہمت و مصلحت پسند اساتذہ بہ خوشی قبول کر لیتے ہیں اور پھر تدریس کے بجائے بیشتر وقت دفتری امور کی انجام دہی میں صرف کرتے ہیں۔
اس وقت اعلیٰ تعلیمی سطح پر اردو تدریس کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ بی اے اور ایم اے کے طلبہ کو پڑھانے والے اساتذہ پھول کو فول ، شعبہ کو سوبا اور نظم کو نجم کہتے ہیں اور تلفظ کی یہ غلطی کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ ایسا مسلسل ہوتا ہے لیکن انھیں اس کی مطلق پروا نہیں کہ وہ زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ ہیںجس میں املا اور تلفظ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔جامعات اور کالجوں میں ایسے اساتذہ بھی مل جائیں گے جنھیں ظ اور ض کے محل استعمال کا شعور نہیں اور طرفہ تماشا یہ کہ ایسے اساتذہ شاعری کرتے ہیں اور تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی لکھتے ہیں۔جدید تکنیکی سہولیات نے اساتذہ کی وہ کھیپ بھی تیار کر دی ہے جو چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے ادب پڑھاتے ہیں اورغزل کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’غزل ایک نشیلی صنف سخن ہے‘۔ غزل نشیلی صنف ہو یا نہ ہو لیکن یرقانی حکام سے مرعوبیت کا نشہ ان پر اس حد تک چڑھا ہوا ہے کہ حکام طلبہ سے کہتے ہیں کہ اردو پڑھ کر کیا کروگے ؟ اور اردو کی روٹی کھانے والے یہ اساتذہ صرف منہ بسور کر رہ جاتے ہیں۔اس بیچارگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ طلبہ پر اپنی دانشوری کی دھونس جمانے والے یہ اساتذہ اپنی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی سطح پر اردو کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے ایسی مخدوش صورتحال میں تبدیلی وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔