’آپریشن سیندور‘ اور پھر ’جنگ بندی ‘ کے بعدپاکستان کی طرف سے ایک اور مہم جوئی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، اسلئے ہمیں مزید کثیر جہتی اور جرات مندانہ خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
EPAPER
Updated: June 22, 2025, 12:17 PM IST | General Manoj Mukund Naravane | Mumbai
’آپریشن سیندور‘ اور پھر ’جنگ بندی ‘ کے بعدپاکستان کی طرف سے ایک اور مہم جوئی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، اسلئے ہمیں مزید کثیر جہتی اور جرات مندانہ خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
مہاراشٹر میں مالون شہر کے قریب بحیرہ عرب میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر تعمیر ہونے والا ’سندھودرگ‘ کو سب سے اہم سمندری قلعوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس قلعے کو مراٹھا سلطنت کے بانی چھترپتی شیواجی مہاراج نے ۱۶۶۴ء سے۱۶۶۷ء میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ سمندری علاقے میں فوجی حکمت عملی ترتیب دینے اور غیر ملکی حملوں سے تحفظ فراہم کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ یہ قلعہ شیواجی کے کوکن ساحلی پٹی کی حفاظت اور ایک طاقتور بحریہ کی تعمیر کے منصوبے کا مرکز تھا۔ اس قلعے نےہندوستان کی سمندری تحفظ کی حکمت عملی کی بنیاد رکھی تھی۔
اسی طرح ’آپریشن سیندور‘ کے ذریعے اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد، ہندوستان کو بھی اپنے آپ کو ایک ’سیندور دُرگ‘ میں تبدیل کر لینا چاہئے جو ناقابل تسخیر ہو اور بری، بحری، فضائی یا پھر سائبر جیسے کثیر جہتی خطرات سے محفوظ ہو۔ اسے دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے اُس نئے نظریے کا آغاز سمجھا جائے گا، جس کا خاکہ وزیر اعظم مودی نے مئی کے شروع میں قوم سے اپنے خطاب میں پیش کیا تھا کہ ’’دہشت گردی اور کاروبار ایک ساتھ نہیں چل سکتے، پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ ‘‘
’آپریشن سیندور‘ کے تحت پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے کیمپوں کے خلاف فوجی کارروائی کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔ پاکستان، جو اب بھی اپنی شبیہ اور فوجی طاقت کو پہنچنے والے نقصان سے پریشان ہے، انتقام لینے کیلئے بے چین ہوگا۔ اس قلیل مدتی تعطل نے اس کے گھریلو مسائل، خاص طور پر اس کی معاشی پریشانیوں سے پیدا ہونے والے خلفشار سے اسے راحت فراہم کیا ہے اور اپنے پرانے دشمن کے خلاف وقتی طور پر ہی سہی متحد کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی امداد اور فیلڈ مارشل کے طور پر جنرل عاصم منیر کی تقرری سے خوش ہو کر، پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کی امیدیں بڑھا دی ہیں۔ چونکہ پاکستان کی طرف سے ایک اور مہم جوئی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، اسلئے ہمیں مزید کثیر جہتی اور جرات مندانہ خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
کسی بھی قلعے کا پہلا مقصد اپنی اور وہاں رہنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ہندوستان نے اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے تئیں اپنی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارے وسیع جغرافیائی حجم اور تنوع کے پیش نظر، ہمارے تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ایک بڑاکام ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دہشت گردی کے حملے صرف سرحدی صوبوں یا فوجی تنصیبات پر نہیں ہوتے بلکہ اندرونی طورپر بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے مسائل مزید سنگین ہوجاتے ہیں۔
اس کاحل ایک مضبوط انٹیلی جنس نظام ہے، جو وفادار مقامی آبادی میں گہرائی سے سرایت کرتا ہے اور حکومت کی تمام شاخوں کے ذریعہ اطلاعات ملتی ہیں۔ پہلگام حملے جیسا واقعہ لال جھنڈی دکھائے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ ان اشاروں کو نہیں سمجھا گیا، یا سمجھا گیا تو انہیں متعلقہ حکام تک نہیں پہنچایا گیا۔ یہ تشویشناک بات ہے۔ زمین سے گہرا تعلق اور عوام کی نبض پر انگلی ہی انسداد دہشت گردی یا شورش کی حکمت عملی کی بنیاد ہونی چاہئے۔
آپریشن سیندور نے آپریشن سے متعلق ہماری دفاعی صلاحیتوں کی جن خامیوں کو اجاگر کیا ہے، ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ہمارے دیسی ہتھیاروں کے نظام نے قابل ستائش کام کیا ہے، لیکن دفاعی سازو سامان سے متعلق جو خریداری ایک طویل عرصے سے التوا کا شکار ہے، اسے تیزی سے آگےبڑھانے کی ضرورت ہے، بھلے ہی اس کیلئےمحدود سطح پر درآمدات ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اگلا حملہ ہونےوالا ہے، ہمیں اس کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ اس دفاعی تیاری کی قیمت پر خود انحصاری کو ترجیح نہیں دی جانی چاہئے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے تینوں فوجوں کو دیئے گئے ہنگامی اختیارات کو ایک خوش آئند قدم قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن اسے باقاعدہ اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہنگامی اختیارات تو پہلے بھی کئی بار دیئے جا چکے ہیں، ۲۰۱۷ء کے ڈوکلام تصادم کے دوران اور۲۴۔ ۲۰۲۰ء میں گلوان تنازع کے دوران مختلف ادوار میں اور اب پہلگام واقعہ کے بعد۔ اس طرح یہ ایک نیا معمول بن چکا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم ہمیشہ تیار نہیں رہتے۔ جب کوئی بحران پیدا ہوتا ہے تو ہمیں پونجی اور محصول کے کھاتے سے ہنگامی خریداری کرنی پڑتی ہے۔ ’ہنگامی اختیارات‘ کے نظام کو مستقل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے خریداری میں تیزی آتی ہے۔ اسے کوئی نیا نام دیا جا سکتا ہے تاکہ جب بھی اس پر عمل ہو، ایسا نہ لگے کہ ہم بحران میں گھر چکے ہیں۔
ویسےکسی قلعے کا مقصد صرف حفاظت نہیں ہوتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مضبوط قلعے، حملوں کیلئے بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ’سیندوردُرگ‘ کا استعمال اسی مقصد کیلئے ہونا چاہئے۔ اسے ایک سیاسی اور فوجی اڈہ بننا چاہئے جو ہمارے دشمنوں اور ہمارے مفادات کو نقصان پہنچانے والوں کو جواب دینے کیلئے استعمال ہو سکے۔ تمام جماعتوں کی سینئر سیاسی شخصیات کے وفود کو مختلف ممالک میں بھیج کر ہندوستان نے دکھادیا ہے کہ وہ بحیثیت قوم متحد ہے۔ اگر ان وفود میں فوج کی آپریشنز برانچ کے نمائندے بھی شامل ہوتے تو ان کا وزن مزید بڑھ جاتا۔ یہ وفود نہ صرف ہمارے نقطہ نظر کو واضح کریں گے بلکہ پاکستان کو یکا و تنہا کرنے کے مطالبے کے حق میں بین الاقوامی حمایت بھی حاصل کریں گے۔ کسی بھی ملک نے پاکستان کو آئی ایم ایف سے ۲ء۳؍ بلین ڈالر کی امداد دینے کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ اسرائیل اور تائیوان کے علاوہ کسی بھی ملک نے پہلگام قتل عام پر ہندوستان کی غیر مشروط حمایت نہیں کی۔ یہدونوں ہی باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ رائے عامہ جیتنے کیلئے ابھی ہمیں ایک طویل جنگ لڑنی ہے۔
فی الحال آپریشن سیندور کے تحت جو وقفہ دیا گیا ہے، وہ قوتوں کو مجتمع کرنے اور نئے نظریے کے تحت مستقبل میں ممکنہ حملوں کا جواب دینے کیلئے حکمت عملی اور منصوبے تیار کرنے کیلئے وقت اور گنجائش فراہم کرتا ہے۔ نئی پالیسی سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ طاقت کا جواب طاقت سے دیا جائے گا، خواہ وہ جگہ کہیں بھی ہو اور حملہ آور کسی بھی ملک کا شہری ہو یا شہری نہ ہو۔ یہ قلعہ ملک کی ترقی کیلئے ضروری امن اور استحکام بھی فراہم کرتا ہے۔ تمام ممالک طاقت کا احترام کرتے ہیں، خاص طور پر اقتصادی طاقت کا، جو ہمارے مفادات کے تحفظ کیلئے ضروری ہے۔ جب ہماری اقتصادی بنیاد مضبوط ہو گی تب ہی ہم اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ یہ دونوں طاقتساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ہمیں جلد از جلد یعنی ۲۰۳۰ء تک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ طویل عرصے تک چلنے والی جدوجہد ۲۰۴۷ء تک ’وِکست بھارت‘ بننے کی ہماری کوششوں کو متاثر کرے گا۔ جب ہندوستان معاشی طور پر مضبوط ہوگا تب ہی وہ اس قسم کا اثر و رسوخ استعمال کر سکے گا جس طرح آج امریکہ اور چین استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ان ممالک کی معاشی گرفت ہے جو انہیں دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالنے کی اجازت دیتی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف نرم رویہ اختیار کریں۔ ’طاقت بندوق کی نال سے آتی ہے‘ لیکن اس بندوق کو پیسے کی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔
’سیندور دُرگ‘ اُس نئے اور آزاد ہندوستان کی علامت ہوگا جس نے استعمار کی زنجیریں توڑ دی ہیں اور قوموں کی برادری میں ایک طاقت کے طور پر پہچانے جانے کیلئے دستک دے رہا ہے۔ نیا ہندوستان اس کچھوے کی طرح نہیں ہے جو خطرے کا احساس ہوتے ہی اپنے خول میں سمٹ جاتا ہے، بلکہ یہ شہد کی مکھیوں کی طرح ہے جو اپنے چھتے کے قریب آنے والے کسی بھی خطرے پر جھپٹ پڑتی ہیں۔ جنگ اب دشمن کے کیمپ میں، اس کے سیاسی اور معاشی میدان میں اور اگر ضرورت پڑی تو میدان جنگ میں بھی لڑی جائے گی۔
مضمون نگارہندوستانی فوج کےسبکدوش سربراہ ہیں۔ وہ ۲۸؍ویں چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔