• Sun, 26 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹریفک کا مسئلہ ہیبت ناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے

Updated: October 26, 2025, 4:35 PM IST | Mumbai

مہاراشٹر کے کچھ لوگوں نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ ان کے یہاں ٹریفک مسئلے کا جلد از جلد تصفیہ کیا جائے یا پھر انھیں خودکشی کی اجازت دی جائے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

روڈ ٹرانسپورٹ اور قومی شاہراہوں کی مرکزی وزارت کی ذمہ داری سنبھال رہے نتن گڈکری فخریہ انداز میں اپنی وزارت کی بہترین کارکردگی کا ذکر اکثر کیا کرتے ہیں۔ سڑکوں پر نقل و حمل اور قومی شاہراہوں کی حقیقی صورت حال کے تناظر میں اگر ان کے بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس محکمے نے ان کی قیادت میں جو ترقیاتی کام کئے ہیں وہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے جو کسی حد تک دیدہ زیب بھی ہے لیکن مکمل تصویر سے جو حقائق اجاگر ہوتے ہیں وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ نقل و حمل میں مسافروں کو سہولت فراہم کرنے اورٹریفک کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے مزید ٹھوس اور کارگر اقدامات درکار ہیں۔ ٹریفک کا مسئلہ اب صرف مسافروں کیلئے ہی پریشانی کا سبب نہیں ہے بلکہ پورا سماج مختلف صورتوں میں اس کی زد پر ہے۔ اس مسئلے کی ہیبت ناکی کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ ممبئی احمدآباد قومی شاہراہ پر واقع تین گاؤں وسئی، چنچوٹی اور نائیگاؤں کے باشندوں نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس قومی شاہراہ پر ٹریفک مسئلے کی بدترین صورتحال کا جلد از جلد تصفیہ کیا جائے یا پھر انھیں خودکشی کی اجازت دی جائے۔ 
وزیر اعظم کو خط لکھنے والوں کایہ مطالبہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اب ٹریفک کا مسئلہ محض چند گھنٹوں کا مسئلہ نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس کے سبب عوام کی زندگی اجیرن بنتی جا رہی ہے اور اس مسئلے سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کے مقابلے وہ مر جانے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف ان تین بستیوں اور ممبئی احمدآباد قومی شاہراہ سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ملک گیر سطح پر اس کے تباہ کن مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں۔ 
ملک میں سڑک حادثات کے سبب ہر سال ہزاروں افراد اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ اس ضمن میں روڈ ٹرانسپورٹ اور نیشنل ہائی ویز کی مرکزی وزارت کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے نصف اول میں ملک گیر سطح پر ۲۹؍ ہزار سے زیادہ اموات سڑک حادثات کے سبب ہو چکی ہیں۔ ریاستی سطح پر یوپی اس معاملے میں سر فہرست ہے جہاں ۱۳؍ہزار حادثات میں تقریباً ۸؍ہزار لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ عالمی سطح پر ہندوستان ان ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر ہے جہاں ٹریفک کے سبب ہونے والے حادثات عوام کیلئے پیغام اجل ثابت ہوتے ہیں۔ ان حادثات میں ہلاک ہونے والے ۶۶؍فیصد افراد کی عمر ۱۸؍ سے ۴۵؍ برس کے درمیان ہوتی ہے۔ ملک کی بیشتر آبادی کیلئے نقل و حمل کو سہولت بخش بنانے اور دور درازکے دیہی علاقوں کو سڑکوں سے جوڑنے کے حکومتی دعوؤں کے درمیان جب ان حقائق پر نظر پڑتی ہے تو پھر اس پر غور کرنا لازمی ہو جاتا ہے کہ پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھانے اور قومی شاہراہوں کو عبوری پلوں سے گزارنے میں منہمک ارباب اقتدار ٹریفک مسئلے کی سنگینی کو ختم کرنے اور عوام کو مرگ ناگہانی سے محفوظ رکھنے کیلئے کوئی ایسا ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدام کیوں نہیں کرتے جو ٹریفک کی ہیبت ناکی کے سبب عوام کو خودکشی کی خواہش سے باز رکھ سکے؟
ٹریفک مسئلے کی ایسی بد ترین صورتحال کے کئی عوامل ہیں جن میں بعض کا تعلق اقتدار کی پالیسیوں اور نقل و حمل کے انتظامی امور سے وابستہ ارباب اختیار کے طرز کارکردگی سے ہے اور بعض کا تعلق عوام کی اس بے حسی سے ہے جو نقل و حمل کیلئے تشکیل دئیے گئے اصول اور ضابطوں پر سنجیدگی سے عمل کرنے کو کسر شان سمجھتی ہے۔ اس ملک کی آبادی کا بڑا حصہ اس احساس شہریت سے نابلد ہے جو ایک بہتر اور پرا من سماج کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور یہ غیر حساسیت ٹریفک کے معاملات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ 
ہندوستان کا شمار کم آمدنی والے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے معاملے میں عوام کی اکثریت محرومی کی زندگی بسر کرتی ہے لیکن ان اشیا کے حصول کیلئے ہر ممکنہ کوشش کی جاتی ہے جو اُن کے شاہانہ طرز حیات کی نمائش کا وسیلہ بن سکیں۔ ہندوستانیوں کیلئے گاڑی کا شوق بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اپنے گرد و اطراف پر نظر ڈالی جائے تو ایسے کئی لوگ ملیں گے جن کے پاس ذاتی مکان نہیں ہے لیکن مہنگی گاڑیوں کے مالک ہیں اور اکثر سڑکوں پر ان گاڑیوں کی حرکت و رفتار بلا ضرورت صرف شوق کی تکمیل کی خاطر ہوتی ہے۔ 
گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ جس قدر روز افزوں ہے اس تناسب میں بہتر سڑکیں اور ان سڑکوں پر ٹریفک کے بہتر نظم کا فقدان ہے۔ دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں کی بات کون کرے حکومت اب تک ممبئی، دہلی، حیدر آباد اور بنگلور جیسے بڑے شہروں کی سڑکوں کو گڑھوں سے پاک نہیں کر سکی ہے۔ سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کیلئے سالانہ جو رقم مختص کی جاتی ہے اس کی خاصی مقدارمحکمہ جاتی بدعنوانیوں کی نذر ہو جاتی ہے یہی سبب ہے کہ ایک ہی سڑک کئی مرتبہ بنائی جاتی ہے اس کے باوجود یہ حتمی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ سڑکیں مسافروں کو ان پریشانیوں سے نجات دے دیں گی جو بعض اوقات ان کیلئے ہلاکت خیز ثابت ہوتی ہیں۔ حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن سچائی یہ ہے کہ ٹریفک اب اس ملک کا ایسا مسئلہ بن گیا ہے جس نے عوام کو اس حد تک خوفزدہ کر دیا ہے کہ اس میں الجھنے کے بجائے انھیں خودکشی کرنا زیادہ بہتر لگتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK